گلاب جامن کا ڈبہ

491

چیونٹیوں کی یہ کالونی بہت بڑی تھی‘ اتنی بڑی کہ آم کی چار گٹھلیاں اس میں آرام سے آجائیں۔ اس کالونی میں آج ہر کوئی افسردہ تھا۔ ’’انسان اب اتنے ظالم ہوگئے؟کائنات کی سب سے سمجھدار مخلوق‘ اتنی بے خوف ہوگئی ہمارے رب سے؟‘‘
ملکہ چیونٹی کے دربار میں آنے تک یہ سب ہونے والے واقعے پر اپنی اپنی رائے دے رہے تھے اور ملکہ چیونٹی اپنے محافظوں کے ساتھ قطار بنا کر بِل یعنی کالونی کے باہر کا جائزہ لینے گئی ہوئی تھیں تاکہ اگر باہر کوئی خطرہ ہو تو اس سے بِل کو بچایا جاسکے۔یہ ان کا روز کا معمول تھا۔
چیونٹیوں کی یہ کالونی جس باغ میں تھی وہ ہبہ گڑیا کا گھر تھا۔ ہبہ گڑیا کی سہیلی کی بسم اللہ ہوئی تو انہوں نے ہبہ گڑیا کو بھی پانچ گلاب جامنوں کا ایک ڈبہ بھیجا۔ مزے دار میٹھی میٹھی گلاب جامنیں‘ ہبہ گڑیا کے منہ میں پانی آگیا۔ اس نے گلاب جامنیں تھوڑی تھوڑی مگر جلدی جلدی کھائیں۔ شام کو پھر ہبہ گڑیا کا گلاب جامنیں کھانے کا دل چاہا تو وہ باورچی خانے میں آئی… اور ڈبہ کھول کر جیسے ہی اس نے اندر ہاتھ ڈالا تو ’’اُف اللہ! اُف… اُف!‘‘ ڈبّے کے اندر موجود شیرے کے کاغذ پر ڈھیروں چیونٹیاں مزے لے لے کر شیرہ کھا رہی تھیں۔ ہبہ گڑیا کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اس نے جلدی سے لائٹر سے چولہا جلایا اور کاغذ اٹھا کر چولہے پر ڈال دیا۔ ’’اگر یہ چیونٹیاں بڑھ گئیں تو سارے گھر میں پھیل جائیں گی‘ پھر سب کو کاٹیں گی۔ اُف کتنی تکلیف ہوگی۔‘‘ ہبہ گڑیا نے سوچا۔
’’ارے یہ انسان ہم چیونٹیوں کو بہت چھوٹی مخلوق سمجھتے ہیں‘ ان کو کیا معلوم ہمیں کتنی تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ دربار میں موجود کسی بزرگ چیونٹی کی آواز آئی‘ اس کی عمر تقریباً دو سال تھی۔
’’مگر جلنے کا عذاب تو صرف وہی دے سکتا ہے جس کی ہم صبح و شام تسبیح کرتے ہیں۔‘‘
اتنے میں کالونی کے محافظوں آواز گونجی ’’ملکہ چیونٹی حاضر ہو رہی ہیں۔‘‘ کالونی کی تمام چیونٹیاں ان کے احترام میں خاموش ہو گئیں۔
ملکہ چیونٹی اپنے اور اپنے محافظوں کے ساتھ کل ملا کر گیارہ شکر کے دانے لائی تھیں جنہیں سب نے کھا کر اپنی بھوک مٹائی‘ اللہ کی حمد کی اور پھر دربار میں حاضر ہوگئے۔
ملکہ چیونٹی اپنی جگہ پر حاضر ہوئیں… ’’اے میری کالونی کی چیونٹیو! میں ہبہ گڑیا والا معاملہ جانتی ہوں اور آپ لوگوں کی ہونے والی گفتگو بھی مجھ تک پہنچ چکی ہے۔‘‘
ایک چیونٹی روتے ہوئے کہنے لگی ’’ملکہ! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ رات ہم سب قطار بنا کر اور دور اور قریب اپنے ساتھی بٹھا کر گڑیا کے پاؤں پر حملہ کریں گے‘ ہم اس کے ساتھ ویسے ہی برا کریں گے۔‘‘
’’اے میری کالونی کی چیونٹیو! مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہبہ گڑیا کی امی نے اس حرکت پر اُسے بہت اچھی طرح سمجھایا ہے‘ امید ہے وہ سمجھ چکی ہوگی‘ جو ہوا اس پر راضی رہو‘ اس رب سے ناراض نہ ہو جو ہمیں صبح شام بہترین رزق دیتا ہے‘ الحمدللہ ۔‘‘
’’اچھا ہوا اس کو ڈانٹ پڑی‘ بہت اچھا ہوا…‘‘ دربار میں موجود ایک چیونٹی کی آواز آئی۔
ملکہ چیونٹی کہنے لگیں ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے تمام انسان‘ جن اور پرندوں کے لشکر کے ساتھ جا رہے تھے۔ تمام انسانیت میں صرف انہی کو اللہ کی طرف سے جانوروں اور چرند پرند کی بولی سمجھ آتی تھی‘ وہ جب چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے سب چیونٹیوں کو اپنے اپنے بلوں میں چلے جانے کو کہا‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں سلیمانؑ اور ان کا لشکر انہیں روند ڈالے۔ اللہ کے نبی حضرت سلیمان علیہ السلام اس بات پر مسکرانے لگے اور اللہ نے چیونٹیوں کا یہ پورا واقعہ قرآن پاک میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا‘جن چیونٹیوں کا اس قرآن میں ذکر ہے‘ اے میری کالونی کی پیاری چیونٹیو! وہ برا چاہنے والی چیونٹیاں نہیں تھیں‘ وہ خیر خواہ تھیں‘ انہوں نے انسان جیسی مخلوق کے بارے میں اچھا گمان کیا تھا کہ وہ اَن جانے میں کہیں تمہیں روند نہ دیں۔ اے میری کالونی کی پیاری چیونٹیو! برا چاہنا‘ برا گمان کرنا‘ یہ سب ہم پہ اچھا نہیں لگتا‘ یہ سب اللہ کی بندگی کرنے والوں پر جچتا نہیں ہے‘ اللہ ہم سے راضی ہو‘ گڑیا کو ہم سب نے معاف کیا وہ تم سب کی حفاظت کرے۔‘‘
ملکہ چیونٹی کی بات دربار میں سب نے غور سے سنی‘ سب اپنی اس سوچ پر شرمندہ ہونے لگیں اور آئندہ بھی برا نہ سوچنے کا عہد کیا۔
بچو! جب چیونٹیاں کسی کا برا نہیں سوچتیں تو ہم انسان بھی اب کسی کا برا نہیں چاہیں گے اور نہ دوسرے انسانوں کے بارے میں برا گمان کریں گے۔ اس کہانی میں اور بھی بہت سے سبق چھپے ہیں۔ بچو! کیا آپ اللہ کی کتاب کھول کر ان پر سوچنا پسند کریں گے؟

حصہ