اقبال اقبالیات اور ہم

592

اقبال کے بارے میں ہماری تنقید دل میں چور رکھ کر بات کرنے کی عادی ہوچکی ہے۔ اس کی وجہ کچھ اقبال میں ہے، کچھ ہمارے ماحول میں اور کچھ خود ہمارے اندر۔ اقبال ہمارے ماضی قریب کی عظیم ترین علمی، فکری اور سیاسی شخصیتوں میں سے ایک ہیں۔ ان کی شاعری اردو کے شعری سرمایے سے الگ ایک ایسی روایت کی شاعری ہے جو فارسی میں تو موجود ہے لیکن اردو میں ایک دوسری دنیا کی آواز معلوم ہوتی ہے یعنی فلسفیانہ افکار کی شاعری۔ اس کے علاوہ وہ مشرق و مغرب کے فلسفوں سے آگاہ اور عہدِحاضر کے علوم و مسائل سے باخبر ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی نظیر جدید مشرق میں مشکل ہی سے ملتی ہے۔ پھر وہ ایک ایسے تہذیبی اورسیاسی نظریے کے بانی ہیں جس نے ایک ملک کو جنم دیا ہے اور ان کی یہ حیثیت ایسی ہے جو تاریخِ عالم میں کسی شاعر یا مفکر کو حاصل نہیں ہوئی۔ تاریخ کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کرسکتی جس میں کسی مفکر کے سیاسی تصور نے اتنی قلیل مدت میں ٹھوس حقیقت کی شکل اختیار کرلی ہو۔ یہ سب باتیںہمیں اقبال کی شخصیت سے اتنا مرعوب کردیتی ہیں کہ ہم ان پر سوچنے کا کام اقبال اکیڈمی کے سپرد کرکے، رسمی طور پر ان کی تعریف کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ اور ہر سال ایسے مضامین کی تعداد بڑھتی ہی جاتی ہے جن میں چبائے ہوئے نوالوں کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہم اقبال پر باتیں کرتے ہیں لیکن اس طرح جیسے ہمارا دل ان میں نہ ہو۔
اقبال پر سچائی سے کچھ نہ سوچنے کی روایت ہمارے ماحول سے اور تقویت پاتی ہے۔ ایک طرف تو اقبال کی سیاسی حیثیت کی وجہ سے ہمارے دل میں یہ خوف بیٹھ گیا ہے کہ اقبال پر سوچنا ایک خطرناک بات ہے، کیوںکہ خیال بہرحال ایک آزادی کا طالب ہوتا ہے۔ اس کے وجود کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ وہ پہلے سے کسی نتیجے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔ سوچنے کے معنی اختلاف کرنے کی آزادی کے ہیں۔ خواہ انجامِ کار ہم اختلاف کرنے کی بجائے اتفاق ہی کریں۔ خیال ہمیشہ دو دھاری تلوار کی طرح ہوتا ہے جس کے دونوں رُخ آزادانہ طور پر کھلے ہوتے ہیں۔ ہم اس تلوار کو استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ ہمت۔ چنانچہ ہمیں عافیت اسی میں نظر آتی ہے کہ ہم اقبال پر خود غور کرنے کے بجائے ان کے بارے میں دوسروں کی سنی سنائی باتوں کو دُہراتے رہیں۔ پھر سیاست کی مصلحت تو ایک بات ہوئی، ستم بالائے ستم تو یہ ہوا کہ اقبال جیسی آفاقی شخصیت کو ایک مخصوص علاقے سے اس طرح وابستہ کردیا گیا ہے کہ اقبال کی شخصیت اس مخصوص علاقے کے سیاسی مفادات کی ایک علامت بن گئی ہے۔ اقبال کے معنی ہوتے ہیں پنجاب، اور پنجاب کے اسلام اور اردو کی طرح پنجاب کے اقبال کو بھی پنجاب کی سیاسی اور معاشی بالادستی کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔
سابق مشرقی پاکستان میں اقبال کے خلاف ردِ عمل کی وہ شکل، جو پہلے نذر الاسلام کو آگے بڑھانےنے میں ظاہر ہوئی اور پھر ضدم ضدا کے طور پر ٹیگور پرستی تک پہنچی، اس کے پیچھے یہی خطرناک تصور کام کر رہا تھا، حالانکہ نذر الاسلام اور اقبال کا مقابلہ سورج اور چراغ کے مقابلے سے بھی زیادہ مضحکہ انگیز چیزہے۔ بعد میں سندھ میں بھی بعض ایسے رجحانات ظاہر ہوئے جن میں پنجاب دشمنی کا اظہار اقبال دشمنی کی شکل میں کیا گیا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اصل چیز اقبال نہیں، پنجاب ہے۔ یا تو ہم پنجاب کے ڈر سے اقبال کے بارے میں چپ سادھ لیتے ہیں یا پھر پنجاب کے ساتھ اقبال کو بھی رد کردیتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جس نے اقبال جیسی شخصیت کو پیدا کیا ہو، اپنے ساتھ اس سے زیادہ بڑا ظلم اور کیا کرسکتی ہے۔ خوف اور نفرت ہمیشہ ایک ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ اقبال کے بارے میں پنجاب سے ڈر کر ہم نے اقبال سے نفرت کرنی سیکھی ہے، محبت کرنی نہیں سیکھی۔ ایک اور تیسری چیز جو ہمیں اقبال کے بارے میں آزادانہ طور پر سوچنے سے روکتی ہے، وہ ادبی تنقید کے بارے میں ہمارا رویہ ہے۔ بنیادی طور پر ہماری روایت تقریظوں کی روایت ہے یا پھر ہجویات کی۔ تنقید کے بارے میں ہمارا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ ’’مخالفت میں لکھا گیا ہے یا موافقت میں؟‘‘ ہم اختلاف کو مخالفت سمجھتے ہیں اور اتفاق کو موافقت۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ادبی پرکھ کا کام مخالفت یا موافقت سے مختلف کام ہے اور تنقید کے معنی ہرگز مداحی یا قداحی کے نہیں۔
اقبال کے بارے میں ہم ابھی مداحی کے رویے سے آگے نہیں بڑھے ہیں، جب کہ اندر ہی اندر ہم مخالفت سے بھی زیادہ ایک خطرناک رجحان کا شکار ہو رہے ہیں، یعنی لاتعلقی کا۔ مخالفت میں ہم کم از کم اس چیز کے بارے میں سوچتے تو ہیں جس کی مخالفت کرتے ہیں، بلکہ زیادہ زور لگا کر سوچتے ہیں۔ لیکن لاتعلقی؟ اقبال جیسی شخصیت سے لاتعلق ہوکر ہم اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود کے کن کن حصوں سے لاتعلق ہوجائیں گے؟ یہ بات شاید ہمارے ذہن میں بھی نہیں آتی۔ اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ اقبال پر کچھ سوچنے کی اہلیت ہمارے اندر اس لیے مفقود ہوتی جا رہی ہے کہ ہم خود اپنے بارے میں کچھ سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہم اقبال کے موضوعات پر بات کرتے ہیں، ان کے خیالات کو دُہراتے ہیں مگر اپنے آپ سے یہ سوال کبھی نہیں پوچھتے کہ ان خیالات کا ہم سے،ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی سے کیا تعلق ہے؟ اور اقبال کا تجربہ ہمارے لیے کوئی معنی رکھتا ہے یا نہیں؟ اس طرح اقبال کے خیالات اور تجربات ہمارے خونِ گرم کا حصہ نہیں بنتے اور ہم ان کے بارے میں صرف باتیں بنا کر رہ جاتے ہیں۔اقبال کے بارے میں سب سے زیادہ لاتعلقی اُس طبقے میں پائی جاتی ہے جسے اقبال سے سب سے زیادہ تعلق ہونا چاہیے تھا، یعنی تخلیقی فن کار۔ اردو شاعری کی روایت میں کم و بیش تمام اہم شعرا کے اثرات موجودہ شاعروں تک پہنچے ہیں۔ میں تو بدنامی کی حد تک اتباعِ میرؔ کا شکار ہوں۔ غالبؔ کا سلسلہ بھی رضا علی وحشتؔ سے فانیؔ اور پھر وہاں سے عزیز حامد مدنی تک پہنچتا ہے۔ داغؔ کا رنگ ایک زمانے میں پورے ہندوستان کا رنگ تھا۔ اب بھی ان کا سلسلۂ نسب سیف الدین سیف تک جاری رہتا ہے۔ آتش، شاد عظیم آبادی اور یگانہ سے گزرتے ہوئے ہم سجاد باقر رضوی اور لاہور کے بعض اور شعرا تک پہنچ جاتے ہیں۔ سوداؔ ا رنگِ سخن بھی بالآخر فیض کی غزلوں میں زندہ ہوتا نظر آتاہے۔
لیکن اقبال کا سلسلۂ نسب اس طرح منقطع ہوا ہے جیسے اقبال کی آواز ان کے بعد کے شعرا کی سماعت تک ہی نہ پہنچی ہو۔ اسد ملتانی اور امین حزیں سیالکوٹی کا تو نام لینا بھی فضول ہے، ناصر کاظمی تک اقبال کی طرف سے چل کر میرؔ کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم اقبال سے مرعوب کتنے ہی ہوئے ہوں لیکن ہمارے شعرا کے تخلیقی وجدان نے اقبال کے اثرات قبول نہیں کیے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بات یہ بھی دیکھنے کی ہے کہ ہمارے اہم ترین نقادوں نے اقبال کی طرف اس طرح توجہ نہیں کی جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ مثال کے طور پر فراق صاحب نے اقبال پر دو چار فقروں سے زیادہ کچھ نہیں لکھا۔ یہی حال عسکری صاحب کا ہے۔ مجنوں صاحب نے اور رشید احمد صدیقی صاحب نے اقبال پر ضرور لکھا ہے لیکن اقبال پر ان کی تحریروں کی حیثیت اتنی بھی نہیں ہے جتنی یوسف حسین اور عزیز احمد کی ہے۔ اقبال پر زیادہ تر لکھنے والے ایسے لوگ رہے ہیں جنھیں اردو ادب کچھ زیادہ عزت اور وقعت کے ساتھ نہیں پہچانتا ہے، اور اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ اپنے آپ سے پوچھیں کہ اقبال پر اردو میں کیا لکھا گیا ہے؟ تو جواب شرمندگی کے ساتھ معذرت ہی میں نمودار ہوگا۔ خیرنقادوں کی بات چھوڑیے اور صرف یہ دیکھیے کہ ہمارے شاعروں میں سے کتنے لوگوں نے اقبال کے تخلیقی تجربے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان سب باتوں سے زیادہ تشویش انگیز بات جو مجھے نظر آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے اقبال پر بات کرنی بھی چھوڑ دی ہے۔ مجھے کچھ ایسا لگتا ہے جیسے عام طور پر شعرا جب شاعری پر بات کرتے ہیں یا اس کے بارے میں اپنے تصورات اور تعمیمات پیش کرتے ہیں تو اقبال کو اس سے خارج کردیتے ہیں۔ ان باتوں کے پیچھے ایک ایسے خیال کی جھلک محسوس ہوتی ہے جس کو شعور کی روشنی میں لے آنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ یہ خیال کچھ اس قسم کا ہے۔
اقبال کی شاعری ایک خاص قسم کی شاعری ہے جو اُس شاعری سے مختلف ہے جو جذبات و محسوسات سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ مقصدی اور پیغامی شاعری ہے یا دوسرے لفظوں میں شعوری شاعری ہے جو اُس شاعری سے کم تر ہوتی ہے جسے ہم جذبات و محسوسات سے پیدا کرتے ہیں یا لاشعور کی مدد سے وجود میں لاتے ہیں۔ یہ بات اگر صاف طور پر نہیں کہی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سوچی بھی نہیںجاتی ہے۔ سوچی یقینا جاتی ہے۔ بس ہم شعور یا لاشعوری طور پر احتیاط کرتے ہیں اور شاعری کے بارے میں تصورات پیش کرتے ہوئے اقبال سے آنکھیں چرا لیتے ہیں۔ مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ہم شاعری کا کوئی خاص تصور کیوں رکھتے ہیں؟ ہر شاعر کو حق ہے کہ وہ شاعری سے جو کچھ سمجھتاہے، سمجھے، لیکن شاعری کے بارے میں کوئی تصور ہم اقبال جیسے شاعر سے اپنا حساب کتاب صاف کیے بغیر کیسے قائم کرسکتے ہیں، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ ہم اقبال پر اس لیے بات نہیں کرتے کہ ہم اقبال سے اپنا حساب کتاب صاف کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ نتیجہ وہی ہے جو میں ابھی کہہ چکا ہوں۔ اقبال سے تخلیقی فن کاروں کی دل چسپی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہمارے فنی نظریات بھی تیزی سے زوال پذیر ہوتے جا رہے ہیں۔اقبال پر اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے، اُس کا نوے فی صد حصہ اقبال کے خیالات اور نظریات کی تشریحات پر مشتمل ہے۔ ان تحریروں میں دو بنیادی نقائص پائے جاتے ہیں۔ پہلا نقص یہ ہے کہ یہ تحریریں عموماً اقبال کی شاعری کو زیرِ بحث نہیں لاتی ہیں۔ دوسرا نقص یہ کہ ان میں اقبال کے خیالات و نظریات کو بنی بنائی چیزوں کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ذرا تشریح طلب ہے۔ اقبال کے خیالات (اگر یہ خیالات ان کی شاعرانہ شخصیت سے الگ کوئی چیز ہیں بھی تو) اقبال کے وجود کا حصہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اقبال کے خیالات اقبال کے تجربات سے پیدا ہوئے ہیں۔ ان خیالات کے پیچھے گوشت پوست کے انسان کا وجود ہے جس کی حسی، جذباتی اور ذہنی زندگی ان خیالات میں ظاہر ہوتی ہے۔ ہم ان خیالات کو اس طرح نہیں دیکھ سکتے جیسے یہ اقوال سے الگ وجود رکھتے ہوں اور انھیں بھی اقبال نے اس طرح استعمال کرلیا ہو جس طرح ہم بازار سے خریدی ہوئی بنی بنائی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ خیالات اقبال ہی کی زندگی کا حصہ ہیں اور انھی کی زندگی سے وجود میں آئے ہیں، اس لیے اقبال کے خیالات کو اقبال کی انفرادیت سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔اب میرا اعتراض دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اقبال کے تقریباً سارے شارحین اقبال کے خیالات کی عمومیت کو تو ظاہر کرتے ہیں لیکن ان کی انفرادیت کو نظرانداز کردیتے ہیں، ۔
( جاری ہے)

حصہ