آخری قسط
جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا کہ شاہ ِروم دو لاکھ کا لشکر لے کر مدینہ کی طرف آ رہا ہے تو آپ ﷺ نے عام منادی کروا دی اس موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مالی ایثار کا جو مظاہرہ کیا وہ رہتی دنیا تک ایک انمول مثال ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا آدھا سامان لاکر قدموں میں ڈال دیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جنہوں نے ہمیشہ مسلمانوں پر اپنا مال و دولت خرچ کیا، ہجرت حبشہ کی، اس موقع پر انہوں نے سینکڑوں اونٹ اور گھوڑے سامان سے لدھے ہوئے فراہم کیے ،یہاں ایک غریب صحابی کا ذکر بھی لازمی ہے جو ساری رات ایک یہودی کے باغ میں محنت کے عوض کچھ کھجوریں لائے جنکو آپ ﷺ نے سارے مال پر پھیلا دیا اور فرمایا کہ یہ کھجور والا سب پر بازی لے گیا غرض کہ امیر، سرمایہ دار، متوسط طبقہ، غریب دھاڑی دار سب کیلیے میدان عمل میں راستہ کھلا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جذبہ اور نیت قابل قبول ہے.آپ ﷺ صرف تیس ہزار مجاہدین کا لشکر لے کرمقابلے کے لئے روانہ ہو گئے کچھ منافقین بھی ساتھ ہو گئے مگر وہ گرمی کی شدت کا بہانہ بنا کر بغیر بتائے راستے سے ہی لوٹ گئے آپ ﷺ کی روانگی کی خبر سن کر شاہ روم وہاں سے فرار ہو گیا مگر مجاہدین وہاں تک پہنچے اورآس پاس کے تمام علاقوں کو اپنا باجگزار بنایا، بیشتر مسلمان بھی ہو گئے ،کل کے دشمن دوست، اور خون کے پیاسے جانثار بن گئے ،اسلام کا عدل اجتماعی قائم ہو گیا،سسکتی اور تڑپتی انسانیت کو قرار آ گیا ، عرب و عجم کی پیاسی زمین اسلام کے آبِ رحمت سے سیراب ہو گئی ۔
نویں ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیرِ حج بنا کر روانہ کر دیا بعد میں سورۃ التوبہ دیکر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھیجا کہ میدانِ عرفات میں سورۃ التوبہ تمام حاجیوں کو سنا دی جائےاس میں کفار و مشرکین کو حکم دیا گیا تھا کہ 4 ماہ میں وہ حرم خالی کر دیں اگر وہ نہ نکلے تو جہاں پائینگے ان کو قتل کیا جائے گا اگر مزاحمت کریں اور منافقین ساتھ دیں تو ان کو بھی بلا جھجھک قتل کر دیا جائے گا اس اعلان سے پورے مجمعے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی بعض کمزور دل مسلمان سمجھ رہے تھے کہ یہ بہت غیر معمولی فیصلہ ہے سارے کفار و مشرکین کو متحد ہونے کا موقع مل جائے گا ان کو دعوت مبازرت دے دی گئی ہے 9 اور 10 ہجری مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی کے سال تھے اللہ تعالیٰ نے دین کو مکمل فرما دیا اور ان پر اپنی نعمت تمام کر دی اور دین اسلام پر راضی ہو گیا، حلال نافذ کر دیا حرام کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔
جوا، شراب، زنا،بے پردگی جرم قراردیئےگئے،چوری، قتل،رہزنی،شراب نوشی اور معاشرتی برائیوں کی سزاؤں کانفاذ ہو چکا تھا، طلاق کا ضابطہ، وراثت اور وصیت کا قانون نافذ ہوا ، زکوۃ وعشر کی مقدار مقرر ہوئی، وصولی کا نظام بنایا ، ناپ تول کے یکساں پیمانے مقرر کئے، نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج کو ارکان اسلام قرار دیا گیا اسلامی معاشرہ تشکیل پا گیا برائی کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو گیا۔ معاشرہ اسلامی اخوت ، بھائی چارےکا نمونہ بن گیا ایثار و قربانی ، ہمدردی و غم گساری ،فیاضی و سخاوت عام ہو گئی سچائی، صداقت،عدل و انصاف، صلہ رحمی معاشرے کا حسن بن گیا۔ جرأت و حمیت ، شجاعت و صداقت ہر ایک کا وصف بن گیا، خیر و محبت کے چشمے ابلنے لگے چغلی ،غیبت ، طعن، بزدلی ،بخل ، بدگمانی، تجسس ،فخر، غرور، ریا کاری،فحش کلامی، وعدہ خلافی، دھوکہ، فریب ،جھوٹ ،خیانت سے معاشرہ پاک ہو گیا۔ وہ اللہ کے ہو گئے اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ہجرت کے دسویں سال آپ ﷺ نے حج ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ہزاروں فرزندان توحید دور دراز علاقوں سے آپ ﷺ کے ساتھ شامل ہو گئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہ پہلا حج تھا جو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے طریقے پر ہوا پہلے رئیس مزدلفہ سے واپس لوٹ جاتے تھےاس سے پہلے حج میں مشرکین بھی شرکت کرتے تھے آپ ﷺ کا حج حج اکبر تھا کوئی مشرک اس میں شریک نہیں ہوا سارے مناسک حج ادا کئے گئے میدان عرفات میں جمع ہونا حج کا رکن اعظم ہے آپ ﷺ نے میدان عرفات میں جو تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا وہ رہتی دنیا تک پوری انسانیت کی رہنمائی کرتا رہے گا ۔ آپ ﷺ کے خطبے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام دنیا کا پہلا اور آخری بین الاقوامی دین ہے، عربی و عجمی کالے اور گورے، حاکم اور محکوم، غریب اور امیر کے لیئے یکساں ہدایت و قانون ہے
امام الانبیا ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا، مفہوم : “لوگو! میری بات غور سے سنو کیوں کہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد بھی میں کبھی اس موقع پر تمہارے درمیان ہوں گا”۔
خطبۂ حجۃ الوداع کے نکات کا مفہوم مندرجہ ذیل ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’خبر دار! زمانۂ جاہلیت کی تمام رسومات میرے قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں۔ زمانۂ جاہلیت کے تمام خون معاف ہیں اور سب سے پہلے ربیعہ بن الحارث بن عبدالمطلب کے خون کا قصاص موقوف کیا جاتا ہے۔
سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔ لوگو! بے شک تمہارا رب ایک ہے اور بے شک تمہارا باپ ایک ہے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فوقیت نہیں مگر تقویٰ کے سبب۔
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو، ان کے بارے میں اللہ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انہیں اللہ کے نام پر حاصل کیا ہے اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لیے حلال ہوئی ہیں۔ اے لوگو! تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں۔ اسی طرح تم پر بھی ان کے حقوق ہیں۔ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اجازت کے بغیر کسی کو دے۔ عورت کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ کوئی کام کھلی بے حیائی کا کریں۔
غلاموں کا خیال رکھو۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ تم جو کچھ خود کھاؤ انہیں بھی کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی انھیں بھی پہناؤ۔ دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں تلے روند دیا۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگو! (خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ) ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ لوگو! تمہارے خون، مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی ہی محترم ہیں جیسا کہ تمہارے لیے آج کا دن، یہ شہر اور یہ حرمت والا مہینہ محترم ہے۔ تم سب اللہ کے آگے جاؤگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی باز پرس فرمائے گا۔
سود کی حرمت، دور جاہلیت کا سود معاف ہے۔ پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں عباس بن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے۔ اب سود ختم ہوگیا۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’لوگو! اللہ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا اب کوئی کسی وارث کے حق کے لیے وصیت نہ کرے۔ جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا آقا ظاہر کرے گا اس پر اللہ کی لعنت ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قرض ادا کیا جائے، امانت واپس کی جائے، کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور وہ خوشی خوشی دے۔ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنا چاہیے۔ تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کسی کا ضامن ہو وہ تاوان ادا کرے۔
حضور پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر کوئی نکٹا اور سیاہ فام حبشی غلام بھی تمہارا امیر بنادیا جائے اور وہ کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو تم پر اس کی اطاعت لازم ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور تمہارے بعد کوئی اور نئی امّت نہیں۔‘‘ لوگو! مذہب میں غلو اور مبالغے سے بچو کیوں کہ تم سے پہلی بہت سی قومیں مذہب میں غلو کرنے کے سبب برباد ہوگئیں۔
لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، نماز ادا کرو، مہینے بھر کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی سے دیتے رہو۔ اپنے رب کے گھر کا حج کرو اور اپنے اولی الامر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنّت میں داخل ہوجاؤ گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تکمیل دین کے بارے میں سورۃ المائدہ کی آیات نازل فرمائی جس کا مفہوم حسب ذیل ہے
“آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے”۔
پھر حضور پاکﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’خبردار جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ میری بات ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں۔ کیوں کہ بہت سے لوگ جن کو میرا پیغام پہنچے گا وہ ان لوگوں سے زیادہ اسے محفوظ رکھنے والے ہوں گے جو اس وقت سننے والے ہیں”۔
رسول اکرمﷺ نے اس خطبے کے آخر میں ارشاد فرمایا: ’’تم لوگوں سے میرے متعلق پوچھا جائے گا بتاؤ تم میرے بارے میں کیا جواب دو گے”۔ حاضرین نے یک زبان ہوکر عرض کیا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپﷺ نے امانتِ دین پہنچادی اور آپﷺ نے حقِ رسالت ادا فرمادیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی۔
یہ جواب سن کر حضور اکرمﷺ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا
اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا۔
مناسک حج ادا کرنے کے بعد بعض لوگوں کا گمان تھا کہ آپ ﷺ مکہ میں ہی رہیں گے مگر آپ ﷺ نے انصار سے جو وعدہ کیا تھا اس کی پاسداری کی کہ میرا جینا اورمرنا تمہارے ساتھ ہے میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا ہر ایک کی تمنا ہوتی ہے جس جگہ سے اسے زبردستی نکالا گیا تھا فتح کے بعد وہ اسی جگہ کو اپنا مسکن بنا لے، جس غم اور حسرت انگیز صورت میں آپ ﷺنے کعبۃ اللہ کو خیر آباد کہاتھا اکثر کا گمان تھا کہ شاید آپ مکہ لوٹ آئیں گے مگر آپ نے مقصد زندگی میں جان و مال کی قربانی دینے والوں کا مان رکھا اور مدینہ منورہ کو قیامت تک کے لیئے اپنا مسکن بنا لیا وفا کرنے والوں کے ساتھ وفا بلکہ دل و جان تک کی قربانی دے دی جاتی ہے واپسی پر غدیرخم کے مقام پر ایک بار پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں “ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت، ان دونوں کو مضبوطی سے تھام کر رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے میں تمہیں اپنے اہل بیت علیہم السلام کے معاملے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں،میں تمہیں اپنے اہل بیت علیہم السلام کے معاملے میں اللہ کا خوف دلاتا ہوں”۔
مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ کی طبیعت ناساز ہو گئی بیماری بڑھتی گئی آپﷺ کے صحابہ کرام اور اہل بیت پریشان تھے ہر ایک کو امید تھی کہ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے مگر دن بدن نقاہت بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ امامت کے لئے آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معمور فرما دیا۔ بے چینی میں اضافہ ہوتا اور پھر طبیعت سنبھل جاتی اسی بے چینی کی حالت میں آپ بار بار نماز کی تلقین فرماتے ، غلاموں اور عورتوں سے حسن سلوک کے بارے میں ارشاد فرماتے رہے بالاخر وہ گھڑی بھی آ گئی جب عزرائیل علیہ السلام سراپا سوال بن کر تشریف لائے، معلوم کیا کہ آپ ﷺ مزید کچھ عرصہ قیام کرنا چاہتے ہیں یا آپ اپنے رفیق اعلیٰ سے ملنا چاہتے ہیں ۔
آپ ﷺ نے فرمایا میں مزید رہنا نہیں چاہتا اپنے رفیق اعلیٰ سے ملنا چاہتا ہوں اور چند ہی لمحوں میں آپ ﷺ اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملےصحابہ غم میں ڈوب گئے سراسیمگی پھیل گئی کوئی بھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ آپ ﷺ اپنے رب کے پاس چلے گئے کوئی کہتا تھا کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے عارضی طور پر جدا ہوئے ہیں واپس آ جائیں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو تلوار سونت لی کہ میں اس کی گردن اڑا دوں گا جو کہے گا کہ نبی کریم ﷺ وفات پا گئے ہیں آہ و بکا اور خاموش آنسووں کی یلغار تھی اہل بیت اور صحابہ سب غم سے نڈھال تھے کہ یہ کیا ہو گیا، ہادی عالم ، انسانیت کا نجات دہندہ، انسانیت کو سیدھی راہ دکھانے والا ظاہری دنیا سے رخصت ہو گیا۔ آفتاب عالم نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اللَّهُـمّ صَــــــلٌ علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما صَــــــلٌيت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهم بارك علَےَ مُحمَّــــــــدْ و علَےَ آل مُحمَّــــــــدْ كما باركت علَےَ إِبْرَاهِيمَ و علَےَ آل إِبْرَاهِيمَ إِنَّك حَمِيدٌ مَجِيدٌ
موجودہ دور میں اسلامی انقلاب کے داعیوں اور اقامت دین کی جدوجہد کرنے والوں کو تحریک اسلامی کے مکی دور اور مدنی دور کا اس عزم و یقین اور عہد کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے کہ جس طرح دورِ اول کے اہل ایمان یعنی اہل بیت و صحابہ کرام نے اقامت دین کی جدوجہد کی ہے اسی طرح جم کر پوری استقامت سے جدوجہد کروں گا چاہے مجھے آگ کے انگاروں پر لٹایا جائے ،تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا جائے، پانی میں ڈبویا جائے، مارا پیٹا جائے، میراکاروبار تباہ ہو جائے، میرے بچے چھن جائیں، میرے رشتے دار ساتھ چھوڑ جائیں ، مجھے ہر محفل میں دھتکارا جائے ،میرا معاشی بائیکاٹ کیا جائے، مجھے فقر و فاقہ کی زندگی بسر کرنی پڑے، مجھے لالچ دیا جائے مگر میں کسی قیمت پر اپنے نبی ﷺ کا دامن نہیں چھوڑونگا۔ میں جان تو دے سکتا ہوں مگراپنے ایمان پر سودے بازی نہیں کر سکتا۔ ہر حالت میں “قدافلح المومنون “پر میرا کامل ایمان ہےاور ہر حالت میں رہے گا۔ جس دور میں سورہ المومنون نازل ہوئی ہے اس دور کا باربار مطالعہ کروں گا اور لوگوں کو یقین دلاؤں گا، مال و دولت، حکومت و اختیار، جاہ وحشمت، فلاح و کامیابی کی دلیل نہیں ہے اللہ کے راستے میں جان و مال کی قربانی، دنیا کے وقتی فائدوں کو قربان کر کے نقصانات گوارہ کرنا ،غریبی اور امیری میں، حالات ساعد ہوں یا نامساعد ، کام کی راہیں کھلی ہوں یا بند، لوگ ساتھ دیں یا ساتھ چھوڑ جائیں میں ہر حالت میں اقامتِ دین کی جدوجہد کروں گا یہاں تک کہ اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دوں ۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اس عہد پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین