کورونا وائرس کا خوف… ساری دنیا میں ہلاکتیں… لاک ڈاؤن ہوگیا ہے، سب گھروں میں رہیں… بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھوئیں!! چاہے دل صاف ہوں نہ ہوں، مگر ہاتھ صاف رہیں۔ مرض اُڑ کر آرہا ہے… ہوا میں موجود ہے… منہ پر ماسک لگا کر رکھیں، چھینکیں تو فاصلے سے، کھانسیں تو فاصلے سے، مسکرائیں تو فاصلے سے… چھ فٹ کا فاصلہ… روئیں تو فاصلے سے… گھر میں بند رہیں۔ سچ کہا ہے:۔
رابطے حد سے بڑھ جائیں تو غم ملتے ہیں
ہم اسی واسطے لوگوں سے کم ملتے ہیں
خوف کی فضا بنا دی گئی ہے۔ کہتے ہیں: لوگ مرض سے اتنے نہیں مرتے جتنے مرنے کے خوف سے مر جاتے ہیں۔ اب وہ کیا کریں جو صاحبِ اہل و عیال ہوں! ایک بچے کی ناک پونچھی پھر بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھوئے۔ دوسرے کے ہاتھ دھلائے، پھر بیس سیکنڈ تک اپنے ہاتھ دھوئے۔ تیسرے کے کپڑے گیلے ہوگئے، بدلوائے پھر بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھوئے۔ آٹا گوندھنے سے پہلے بیس سیکنڈ، گوندھ کر رکھا پھر بیس سیکنڈ۔ سالن چڑھایا، پھر بیس سیکنڈ۔ یااللہ! میری عمر کا حساب کتنا مختصر ہوا جا رہا ہے۔ بس بیس سیکنڈ! لیکن پھر بھی وائرس اور اس کا خوف…۔
زندگی کیسے تکلف سے بسر ہوتی ہے
حادثے کیسی نزاکت سے گزر جاتے ہیں
یا اللہ یہ کورونا ہی کیوں نہ چلا جائے بیس سیکنڈ میں…! گھر دیکھو تو دیواروں سے ڈر لگتا ہے۔ دروازے کو ہاتھ لگا دیا ہے۔ اور دروازے کے کنڈے کو بھی… سینیٹائزر سے صاف کرو… یا اللہ اسی گھر کی دعائیں مانگی تھیں ناں۔ اللہ بڑا گھر دے دے، نیا گھر دے دے، اچھا سا گھر دے دے۔ جتنے کمرے اتنے دروازے، جتنے دروازے اتنے ہینڈل۔ جتنی کھڑکیاں، اتنے شیشے… جتنی دیواریں، اتنے بیس سیکنڈ…!
اس چکر میں کتنا پانی بہایا جارہا ہے… ارے موٹر تو چلا دے کوئی!! سوئچ آن کیا ہے، اوہو… پھر وہی بیس سیکنڈ… توبہ توبہ، باہر بیل بج رہی ہے۔ اب نل بند کرو، باہر بھاگو… کون ہے… ؟ ’’باجی راشن دے دو…‘‘ ’’ارے بیٹا! تم روز آجاتے ہو‘‘۔ ’’کل تو نہیں آیا تھا باجی‘‘… میری معلومات روز درست کی جاتی ہیں۔
’’بیٹا!! راشن مسجد میں تقسیم ہورہا ہے۔ یہاں تھوڑی بٹ رہا ہے۔‘‘
’’باجی! پھر آٹا ہی دے دو…‘‘
’’ہیں، پھر وہی بات…‘‘
’’کیا کررہی ہو بیگم!! کون ہے؟ ذرا دیکھ کرکھولنا، آج کل حالات ٹھیک نہیں ہیں‘‘۔ توبہ ہے… کسے جواب دوں اور کسے نہ دوں…! پھر آواز آئی’’دیکھو، ہاتھ دھو لینا۔‘‘ صحیح کہا ہے غالب نے:۔
بے در و دیوار کا اک گھر بنانا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
ویسے آ ج سر پر چھت تو ہے مگر پڑوس کا پتا نہیں… گھر میں رہنا، باہر نہ جانا، پڑوس کی خبر نہ لینا، بات نہ کرنا، کورونا آجائے گا۔ ہوا میں ہے۔ فضا میں ہے۔ میں تو کہتی ہوں کہ ہمارے آپ کے دل میں ہے، دماغ میں ہے، گھر میں ہے، زبان میں ہے، خیال میں ہے، سوال میں ہے۔ سب کچھ بند ہے، مگر وہ کھڑکی تو کھلی ہے ناں جو ہر گھر میں کھلتی ہے، اس کی کوئی حدود نہیں۔ کوئی اس سے پردہ نہیں!! کوئی اس کے پٹ بند نہیں کرتا۔ پہلے تو کہتے تھے کہ ہماری دیوار کی طرف کھڑکی نہ رکھنا، روشن دان نہ بنانا، ہمارے گھر میں جھانکنا نہیں… مگر یہ کھڑکی ہے کہ ہر گھر میں کھلی رہتی ہے، بلکہ ہم خود ہی اس کو کھولتے ہیں۔ ہر تمیزدار، بدتمیز گھسا آتا ہے۔ کوئی کپڑے پہنے، کوئی بغیر کچھ ڈھکے چلا آتا ہے۔ ایسے ایسے لبھاتا ہے کہ پیشانی پر پسینہ آنے لگتا ہے۔ احساس کی موت ہوئی جاتی ہے۔ وقت ہے کہ نکلا جاتا ہے۔ سالن جلنے لگتا ہے، نماز قضا ہونے لگتی ہے، امی ناراض ہونے لگتی ہیں… مگر ابو، وہ تو خود کھڑکی کھولے بیٹھے ہیں… سب کو گھروں میں بند کردیا کہ تسلی سے کھڑکی میں جھانکتے رہو، دیکھتے رہو، ہنستے رہو، سر دھنتے رہو، مگر دیکھو کھڑکی بند نہ کرنا۔ ساری دنیا کی بھی تو خبر رکھنی ہے ناں… وزیراعظم صاحب نے کیا کہا، فلاں نے کیا کہا، فلاں نے… اسے سن کر، اسے دیکھ کر دل نے کیا کہا اور دل… وہ تو دیوانہ ہوا چلا جاتا ہے۔ ایسے کھو گئے کچھ یاد نہ رہا، اپنا آپ بھی بھول گئے۔ ایسا سحر پھونکا کہ ساکت و جامد ہوگئے اور شاید یہی مقصد تھا۔لیکن اگر ان کا وار ان پر ہی الٹ دیا جائے تو کیسا رہے؟میڈیا وار ہے بھی۔