سب سے پہلے راقم الحروف نثار احمد نثار عرض کرنا چاہتا ہے کہ میں اجمل سراج کی محبتوں کے طفیل گزشتہ چھ برس سے جسارت سنڈے میگزین میںادبی ڈائری لکھنے کے ساتھ ساتھ انٹرویوز بھی کر رہا ہوں۔ کچھ لوگ اپنی کتابیں مجھے عنایت کر دیتے ہیں کہ میں ان پر تبصرہ کروں‘ میں اردو زبان و ادب کا طالب علم ہوں‘ نقادِ سخن نہیں تاہم جو کچھ مجھے نظر آتا ہے میں لکھ دیتا ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب شائسہ سحر کی غزلوں کا مجموعہ ’’بے دھیانی‘‘ ہے جو کہ 160 صفحات پر مشتمل ہے خوب صورت گیٹ اَپ کے ساتھ رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی نے اسے شائع کیا ہے جس کی قیمت چار سو روپے رکھی گئی ہے‘ اس کتاب میں ایک نعت رسولؐ اور 94 غزلوں کے علاوہ 140 نظمیں بھی شامل ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت سے قبل شائستہ سحر کے تین شعری مجموعے عذاب آگہی‘ متاع فکر اور کرب آرزو کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں رحمن حفیظ نے لکھا ہے کہ شائستہ سحر وقت گزاری کے لیے شاعری نہیں کرتیں بلکہ شاعری ان کا وظیفۂ حیات ہے‘ ان کے کلام میں انسانی جذبات و کیفیت کو بنیاد بنایا گیا اس کے ساتھ ساتھ عہد حاضر کے مسائہل بھی نظر آتے ہیں۔
ایک جگنو تھا میری مٹھی میں
اک ستارہ مری نظر میں رہا
گفتی ہیں تمام تصویریں
اب ہر اک بات دیدنی ہوگی
خدا جانے مری آنکھیں کہاں ہیں
بلا کی ایک حیرانی یہاں ہے
تری چاہت میں جتنے موڑ آئے
مری زلفوں میں اتنے خم نہیں تھے
ایک دن میں بھی سوکھ جائوں گی
مجھ سے پائے گا تو نمو کب تک
ان اشعار کے علاوہ بھی ان کی شاعری میں بہت سے اشعار ایسے ہیںجو قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں‘ وہ جس ہمت‘ اعتماد اور جذبے کے ساتھ مستقبل کی شعری منازل کی طرف رواںدواں ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت جلد شعر و ادب میں اپنی شناخت بنا لیں گی ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے شائستہ سحر کے لیے کہا کہ وہ شاعرات میں ایک توانا آواز ہیں‘ وہ اپنی بات کہنے کا حوصلہ رکھتی ہیں‘ ان کے اشعار میں گہرائی اور گیرائی ہے وہ مشکل زمینوں میں بھی آسانی سے شعر نکال لیتی ہیں۔ روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ وہ انسانی نفسیات کو بیان کر رہی ہیں‘ وہ کرب ِ ذات اور آشوبِ فکر و ادراک کی شاعرہ ہیں‘ ان کی شاعری میں جذبوں کی حدت اور عشق کی شدت موجود ہے‘ ان کا لہجہ تر و تازہ اور پُر تاثیر ہے‘ ان کی شاعری میں موجودہ عہد‘ مستقبل اور ماضی کے اہم مسائل نظر آتے ہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک شائستہ سحر ایک باصلاحیت شاعرہ ہیں‘ انہوں نے زندگی کے نشیب و فراز کا مطالعہ کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے اشعار زمینی حقائق سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خواتین پر ہونے والے مظالم بھی لکھے ہیں‘ وہ کہتی ہیں:۔
میرے بنا ادھوا ہے مضمونِ کائنات
میں حرفِ ناگزیر ہوں نفسِ بیان میں
ان کی غزلوں میں کلاسیکل انداز پایا جاتا ہے ان کے یہاں متنوع موضوعات بھی ہیں اور غزل کا روایتی انداز بھی۔ ان کی نظموں میں زندگی رواں دواں ہے ہر نظم کی پنچ لائن متاثر کن ہے‘ ان کے یہاں نارسائی کے غم بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیے جاسکتے ہیں‘ ان کے کلام میں لفظوں کی نشست و برخاست کا اہتمام نظر آتا ہے۔ امید ہے کہ یہ مزید ترقی کریں گی۔
قلم کاروں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ ظہورالاسلام جاوید
ہر زمانے میں‘ ہر معاشرے میں قلم کاروں نے اپنے اردگرد پھیلے ہوئے مسائل پر بحث کی ہے‘ یہ وہ طبقہ ہے جو معاشرے کے عروج و زوال میں اہم کردار کا حامل ہے‘ قلم کاروں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں‘ ہمارے ملک میں بھی شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو کہ اپنے طور پر بہت کچھ لکھ رہے ہیں۔ دبستان کراچی کے قلم کاروں میں جون 2020ء میں پروفیسر انوار زئی‘ پروفیسر منظر ایوبی اور سرور جاوید انتقال کر گئے‘ یہ ایسا سانحہ ہے کہ جس کے باعث ایک ادبی خلاء پیدا ہو گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ کورونا وائرس نے ہماری زندگی کی مصروفیات کو ڈسٹرب کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و صحافی ظہور الاسلام جاوید نے ایک شعری نشست میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اردو زبان و ادب کے لیے کیا کر رہے ہیں‘ ہمارے میڈیا اینکرز اردو تلفظ کا خیال نہیں رکھتے اور غلط تلفظ سے ہماری نوجوان نسل متاثر ہورہی ہے۔ دوسری طرف ہم اردو کو رومن انگلش میں لکھ رہے ہیں جب کہ اردو کا اپنا رسمِ الخط موجود ہے۔ عدالتی فیصلے کے باوجود آج تک اردو کا نفاذ نہیں ہو پایا اس سلسلے میں بھی ہمیں کوشش کرنی ہے۔ گزشتہ ہفتے راقم الحروف نثار احمد نثار نے اپنے دفتر میں کچھ دوستوں کو بلایا تھا کہ کچھ گپ شب رہے گی اور شاعری بھی ہوگی۔ ظہور الاسلام جاوید اس شعری نشست کے صدر تھے جب کہ اختر سعیدی اور سلمان صدیقی مہمانانِ خصوصی تھے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس فروری میں آیا تھا جس نے زندگی کے تمام شعبوںکو متاثرکیا‘ ہماری ادبی تقریبات بھی اس وائرس کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہیں‘ آرٹس کونسل کراچی اور پریس کلب میں بھی کوئی مشاعرہ منعقد نہیں ہوا‘ اکادمی ادبیات پاکستان کراچی ہر مہینے میں چار مرتبہ مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کر رہی ہے لیکن وہاں بھی بہت کم لوگ آرہے ہیں۔ بہت سی تنظیمیں آن لائن مشاعرے ترتیب دے رہی ہیں جس سے تھوڑا بہت کام چل رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعروں کے مسائل بڑھ گئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ حکومتی سطح پر شعرا کی مدد کی جائے۔ حکومت نے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے جن اداروں کو نامزد کیا ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے کام میں سو فیصد دل چسپی لیں‘ فی زمانہ ہم کورونا کی وجہ سے بہت سی پریشانیوں کا شکار ہیں کاروبارِ زندگی ابھی تک بحال نہیں ہوسکا۔ بزمِ یارانِ سخن کے صدر سلمان صدیقی نے کہا کہ ہماری تنظیم کُل سندھ مشاعرے کا پروگرام رکھتی ہے لیکن حالات ہمیں اجازت نہیں دے رہے ان شاء اللہ ہم بہت جلد یہ مشاعرہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ادب ایک جمالیاتی قدر ہے اس لیے اسلوب کی اہمیت اور لفظ کی حرمت کا خیال رکھا جائے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ شاعر کسی ادبی تخلیق کے لیے جس کرب سے گزرتا ہے اس کا اندازہ شاعر ہی کر سکتا ہے یہ سچ ہے کہ شاعری تو ودیعت الٰہی ہے لیکن مشاعروں میں متشاعر بھی آرہے ہیں کچھ لوگ فی سبیل اللہ متشاعرہ بنا رہے ہیں اور کچھ لوگ پیسے لے کر متشاعرہ بنا رہے ہیں یہ سلسلہ بند نہیں ہو سکتا۔ ناظمِ مشاعرہ رانا خالد قیصر نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں بھی اردو زبان و ادب کا سلسلہ جاری ہے لیکن تعلیمی ادارے فروری 2020 کے آخری ہفتے سے تاحال بند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت مذاکرے‘ مشاعرے اور تنقیدی نشستیں کر رہی ہیں وہ قابل ستائش ہیں لیکن مشاعروں سے سامعین غائب ہیں اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کر رہے۔ شاعروں کو چاہیے کہ وہ آسان زبان استعمال کریں تاکہ ابلاغ میں آسانی ہو۔ نئے لکھنے والوں کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنے سینئرز کا احترام کریں اور سینئرز کو چاہیے کہ وہ جونیئرز سے محبت سے پیش آئیں۔ عارف شیخ نے کہا کہ ہماری کوشش اور خواہش ہے کہ ہم اسکول کے طالب علموں کو غیر نصابی سرگرمیوں میں شاعری سے بھی روشناس کرائیں۔ آج یہ صورت حال ہے کہ زندگی کے تمام شعبے کورونا کے باعث اپنی افادیت کھو رہے ہیں امید ہے کہ ہم بہت جلد کورونا پر قابو پالیں گے حکومت سندھ نے لاک ڈائون کے ذریعے ہمیں ایک بڑی تباہی سے بچایا ہے تاہم ہمارا فرض ہے کہ ہم حکومت کے ساتھ تعاون کریں‘ خود بھی ماسک استعمال کرنے کے علاوہ سماجی فاصلہ بھی برقرار رکھیں۔ اس موقع پر جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں ظہور الاسلام جاوید‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ نثار احمد نثار‘ اسرار ضیائی‘ اجمل شاہین‘ عارف شیخ اور خالد رانا قیصر شامل تھے۔
عارف زیبائی کے ’’نور وظہور‘‘ میں حقیقت پسندانہ شاعری ہے‘ محسن اعظم ملیح آبادی
محترم اکرم رازی نے مجھے عارف زیبائی کا شعری مجموعہ ’’نور و ظہور‘‘ اس ہدایت کے ساتھ عنایت فرمایا کہ میں اپنے کالم میں اس پر بات کروں۔ میں نے اس مجموعۂ حمد و نعت کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے‘ یہ کتاب جہانِ حمد پبلی کیشنز نے شائع کی ہے‘ 232 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں تین باب ترتیب دیے گئے ہیں اس میں 85 حمد‘ 67 نعتیں اور 11 مناقب شامل ہیں۔ صاحب کتاب عارف زیبائی ناظم آباد کراچی میں رہائش پزیر ہیں‘ وہ 1970 سے شاعری کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سچے عاشق رسول ہیں‘ ان کے کلام میں کوئی ابہام نہیں ہے‘ بہت آسان زبان میں انہوں نے بہت اچھے اشعار کہے ہیں‘ ان کے اشعار پڑھ کر ایمان تازہ ہوتا ہے‘ ان کے بارے میں معروف شاعر‘ نقاد‘ محقق اور ماہر تعلیم محسن اعظم محسن ملیح ابادی نے لکھا ہے کہ عارف زیبائی کی شعر گوئی کا دورانیہ پچاس برس پر محیط ہے‘ مشقِ سخن اور جہد مسلسل کے سبب ان کی شاعری میں تازگی در آئی ہے‘ یہ ایک دین دار آدمی ہیں‘ ان کی شاعری حیات و کائنات سے جڑی ہوئی ہے‘ سادہ اور سہل ممتنع میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں اور قارئین کے دلوں میں اتر جاتے ہیں۔ ان کے یہاں ربِ کائنات کی حمد و ثنا‘ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نعتیں اور کچھ مناقب پڑھنے کے بعد مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ان کے اشعار عروضی اور فنی خرابیوں سے محفوظ ہیں‘ ان کے فکر و بیان سے اچھا شاعر ہونے کی تصدیق ہو رہی ہے‘ ان کی نعتوں میں صداقت کی چمک بہ درجہ اتم موجود ہے۔ انہوں نے عبد و معبود کے فرق کا خیال رکھا ہے‘ ان کی نعتوں میں غلو نہیں ہے‘ زبان و بیان کا جھول نہیں ہے۔ ان کی شاعری حمد و نعمت کے دیگر شعرا سے کمزور نہیں‘ وہ توانا فکر و خوش بیاں شعرا کی صف میں شامل ہیں‘ ان کے یہاں شاعری کے محاسن کی افراط ہے‘ وہ بڑی بیدار دماغی سے شعر کہہ رہے ہیں۔ عارف زیبائی کے بارے میں طاہر سلطانی نے لکھا ہے کہ ان کی شاعری میں سچائیاں رقم ہیں۔ شیخ محمد عارف دہلوی 15 دسمبر 1940ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے‘ وہجرت کے بعد کراچی میں رہائش پزیر ہیں‘ وہ حمد و نعت کے شاعر ہونے کے علاوہ ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ کامیابیاں ان کی قدم چوم رہی ہیں‘ ان کی کتاب ’’نور و ظہور‘‘ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ یاسین خان شاہ جہاں پوری کہتے ہیں کہ عارف زیبائی سادہ اور شگفتہ انداز میں دل کو چھو لینے والے اشعار کہہ رہے ہیں‘ ان کے شعروں میں شریعت بھی نظر آتی ہے‘ سہل ممتنع میں شعری صورت گری کے ہنر پر دسترس بھی‘ ان کے حمد و نعتیہ اشعار میں زندگی ہے‘ بعض اشعار نہایت فکر انگیز بھی ہیں یہ عہد حاضر کے خوش فکر و خوش ادا شاعروں میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ رونق حیات نے کہا کہ عارف زیبائی سوجھ بوجھ کے ساتھ شعر کہنے کی مہارت رکھتے ہیں‘ ان کی حمد اور نعتوں میں سادگی کی چاشنی رواں دواں ہے‘ ان کے اشعار میں قرآن و سنت کی آوازیں موجود ہیں۔ انہوں نے سچائی سے کام لیا ہے کسی بھی شعر میں جھوٹ کا شائبہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی و شہرت عطا فرمائے۔