ڈور جیون کی ترے ہاتھ میں ہو
اور پتنگوں کی طرح ڈولتے ہم
غیر ممکن ہے ہواؤں کا گذر
جب دریچے ہی نہیں کھولتے ہم
اپنی تنہائی سے وحشت ہے مگر
بے سبب خود سے نہیں بولتے ہم
ہونٹ رکھ لیتا، وہ پلکوں پہ اگر
اپنی آنکھیں ہی نہیں کھولتے ہم
وہ سمجھتا جو نگاہوں کی زباں
اپنے ہونٹوں سے نہیں بولتے ہم
گھر سے نکلے ہیں یہی سوچتے ہم
ہائے کس کس کو بھلا روکتے ہم
چھوٹ بھی جائے اگر دامنِ دل
دستِ امید نہیں چھوڑتے ہم
موڑ ہر ایک تھا، پر پیچ سحر
کیسے تنہائی کا رخ موڑتے ہم
یاد کرتے ہیں سحر کس کس کو
اور کس کس کو نہیں سوچتے ہم