الف نگر کا مغرور منگو

722

الف نگر جنگل میں ایک بھیڑ رہتی تھی۔ جس کے دو بچے چنگو اور منگو تھے۔ چنگو بھورے رنگ کا بہت پیارا سا میمنا تھا۔سب اُس سے بہت پیار کرتے۔ وہ سب کی بات مانتا اور ہر روز اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگل کی سیر کو نکل جاتا۔ وہ سارا دن خوب مزے مزے کی گھاس کھاتے۔ جھیل کے کنارے ٹھنڈا پانی پیتے اور سرگم بندر میاں کی خوب نقلیں اتار کر اُس کے بچوں کو تنگ کرتے۔ چنگو کے مقابلے میں منگو کی فطرت الگ تھی۔ وہ سفید رنگ کے خوبصورت بالوں والا اور بڑی بڑی سرخ آنکھوں والا میمنا تھا۔ اُس کو اپنی خوب صورتی پر بہت ناز تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سب جانوروں سے الگ تھلگ رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی ساتھی اُس سے بات کرنا اور گھلنا ملنا چاہتا تو یہ منہ بنا کر دوسری طرف نکل جاتا۔ بھیڑ کی ماں نے بارہا اسے سمجھایا کہ میرے سرخ آنکھوں والے میمنے! بیشک تم حسین ہو‘ مگر یہ سب ہمارے مالک کی عطا ہے۔ اس میں تمہارا یا میرا کوئی کمال نہیں‘ کمال تو تب ہے جب تم دوسرے جانوروں کو بھی اپنے جیسا سمجھو۔ ان کی دل آزاری نہ کرو۔ اچھے طریقے سے خوش اخلاقی سے بات کرو۔ غرور اللہ کو پسند نہیں اور نہ ہی ہمارے اس پُر امن جنگل میں کسی اور کو۔ اگر تم ایسے ہی رہے تو ایک دن اکیلے رہ جائو گے اور تمہاری یہ ماں برداشت نہیں کر پائے گی۔
منگو نے ساری باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دی اور چھلانگ لگاتے ہوئے ماں بھیڑ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
…٭…
ایک دن منگو اپنی دھن میں سوار اُچھلتے کودتے جنگل کے دوسرے کونے میں پہنچ گیا… وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ وہ اکیلا ہی اس جانب نکل آیا اور اب واپسی کا راستہ بھی بھول گیا…آہستہ آہستہ سورج بھی اپنے گھر کی جانب چلنے لگا۔ شام ڈھلنے کو تھی کہ ایک شکاری کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ’’…مل گیا… مل گیا… آج کا شکار مل گیا۔‘‘
یہ سنتے ہی منگو نے دوڑ لگا دی‘ مگر بد قسمتی سے بھاگتے ہوئے شکاری کی کمان سے نکلا ہوا تیر اِس کی ٹانگ میں آ لگا۔ منگو نے ہار نہ مانی اور لنگڑاتا ہوا جھاڑیوں میں چھپ گیا اور اندھیرا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں اندھیرا چھانے لگا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ بھی آنا بند ہو گی۔ منگو میمنے کو اندھیرے سے بہت ڈر لگتا تھا مگر اپنی جان بچانا بھی ضروری تھا۔ وہ شکاری کے ڈر سے ایک غار میں چھپ کر بیٹھ گیا۔
اب منگو کو اپنی ماں بھیڑ اور باقی ساتھیوں کی باتیں یاد آنے لگی۔ اگر وہ سب کو اپنا دوست بناتا تو آج وہ تنہا نہ ہوتا۔ زخمی ٹانگ سے خون بہتا دیکھ کر اسے لگا کہ شاید اب وہ اپنی ماں بھیڑ اور باقی جانوروں سے نہیں مل پائے گا اور اسی غار میں پڑے پڑے مر جائے گا۔ یہی سوچتے سوچتے کب غشی طاری ہوئی اُسے پتا ہی نہ چلا۔
سورج کی سنہری کرنیں چاروں جانب بکھری اور اجالا ہوا تو منگو کی آنکھ کھلی۔۔ مگر زخمی ہونے کی وجہ سے وہ اٹھ نا پایا۔
…٭…
دوسری جانب کل سے منگو کے غائب ہونے کی خبر الف نگر جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ صبح ہوتے ہی سب اُس کی تلاش میں نکل پڑے۔
تلاش کرتے کرتے سورج سر پر پہنچ گیا۔ تیز دھوپ کی وجہ سے پیاس کی شدت میں اضافہ ہوا تو چنگو اور اس کے ساتھیوں نے جھیل کے شفاف اور ٹھنڈے پانی سے پیاس بجھائی۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد دوبارہ سے سفر شروع کیا۔ سب ساتھی منگو منگو کی آواز لگانے لگے۔ شور سن کر منگو غار سے باہر تو آگیا مگر زیادہ چل نہ سکا۔ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ تھوڑی دور چل کر زمین پر گر گیا۔
آنکھ کھلی تو منگو نے خود کو اپنے گھر کے نرم بستر پر پایا… اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے گھر میں اپنی ماں اور بھائی چنگو کے ساتھ ہے۔۔ پاس بیٹھی ماں بھیڑ نے اسے پیار سے گلے لگاتے ہوئے بتایا کہ جنہیں تم اپنے سے کم تر سمجھتے تھے۔ ان سب نے مل کر تمہیں تلاش کیا اور تمہاری جان بچائی۔جان تو بچ گئے مگر پہلے کی طرح ٹھیک سے چل نہیں سکتے۔
یہ سنتے ہی منگو نے اپنے برے رویے کی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ سب کو اپنا دوست بنائے گا اور کبھی غرور نہیں کرے گا۔
دیکھا بچو! منگو کو کیسے عقل آگئی اگر وہ پہلے ہی سب کو اپنا دوست بناتا تو اسے وہ بُرا دن نہ دیکھنا پڑتا اور نہ ہی تیر لگنے کی وجہ سے اسے پوری زندگی کے لیے لنگڑا ہونا پڑتا۔ہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت اللہ کا شکر ادا کریں۔ کسی کی دل آزاری نہ کریں۔

حصہ