پاکستانی سودی خزانہ اور اسلامی بیت المال کی تسبیح

811

اگر سؤر کی گردن پر تکبیر پڑھ کر چھری چلائی جائے تو کیا اس کے گوشت پر وہی احکاماتِ شریعت لاگو ہوسکتے ہیں، جو بکری کے گوشت پر ہوتے ہیں؟ پاکستان کا خزانہ جس کی بنیادوں میں سود کا ناپاک سرمایہ شامل ہے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات کے مطابق سؤر کے گوشت سے بھی زیادہ نجس و ناپاک ہے، ایک ایسی گندگی اور پلیدی ہے جسے صدقات و خیرات بھی پاک نہیں کرسکتے۔ پاکستان کے آئین میں قراردادِ مقاصد کی شمولیت اورآرٹیکل 2 کے یہ الفاظ کہ ’’اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کُل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے، اس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کا جو اختیار سونپا ہے وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔‘‘ دراصل ویسی ہی تکبیر جسے پڑھنے کے بعد خزانے میں موجود حلال و حرام مال کو اکٹھا کرکے یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ اب یہ سارے کا سارا حلال ہے۔
جس ملک کا وزیر خزانہ ہر سال بجٹ کے مطالباتِ زر (Demand of Grants) منظوری کے لیے پیش کرتے ہوئے بتائے کہ ہمیں محصولات (Taxes) میں سے اس سال اتنے پیسے سود میں ادا کرنے ہیں اور اتنے پیسے اصل زر کے طور پر واپس کرنے ہیں، تو اس خزانے کو ’’بیت المال‘‘ کہنا اور پھر اس کے مصارف کے بارے میں علمائے کرام سے شرعی آرا طلب کرنا دین کے ساتھ ایک مذاق ہے، اور یہ کھلواڑ گزشتہ کئی سال سے اس ملک میں کیا جارہا ہے۔ جس ملک نے اپنے گزشتہ مالی سال میں تین ہزار نوسوچون (3954) ارب روپے سودی قرضہ جات کی ادائیگی پر خرچ کیے ہوں اور تقریباً تین ہزار ارب مزید سودی قرضہ لے کر خزانے کا منہ بھرا ہو، ایسے خزانے کے بارے میں یہ بحث کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ اس سے مندر بننا چاہیے یا گردوارہ، مسجد بننی چاہیے یا گرجا گھر۔ مجھے تو حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب اسی سودی خزانے کو ’’بیت المال‘‘ جیسے پاکیزہ نام سے تشبیہ دے کر اس سے مساجد و مدارس کے فنڈ مانگے جاتے ہیں، حج کی مراعات طلب کی جاتی ہیں۔ مندر کی تعمیر کے بارے میں جتنا شور برپا ہے، کیا اس طرح کا ایک فیصد شور بھی کبھی اس بات پر اٹھایا گیا کہ حکومت بائیس کروڑ عوام کے خون پسینے سے کمائی گئی حلال کمائی میں سود کی ملاوٹ سے اسے مکمل طور پر حرام بنا رہی ہے۔ عام آدمی اگر دارالافتاء سے یہ فتویٰ پوچھے کہ میری کمائی، بینک اکائونٹ یا جی پی فنڈ میں اتنا سود ملا ہوا ہے، تو ہر مکتبۂ فکر کا عالم یہ فتویٰ دے گا کہ دودھ کے جگ میں اگر پیشاب کا ایک قطرہ بھی مل جائے تو پورا دودھ پلید ہوجاتا ہے۔ لیکن پاکستان کا خزانہ جس پر بیت المال کی تہمت لگاکرآپ اس کے مصارف پر بحث کرنے جارہے ہیں، اس خزانے کے دودھ کو تو ہر سال سود کے پیشاب سے غسل دیا جاتا ہے۔
میرے سامنے امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم ؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘ پڑی ہے جس میں انہوں نے بیت المال کے محاصل اور مصارف کی تفصیل مرتب کی ہے۔ یہ کتاب خلیفہ ہارون الرشید کی رہنمائی کے لیے تحریر کی گئی تھی۔آپ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد تھے۔ آپ کا زمانہ تابعین کا زمانہ تھا۔آپ 113 ہجری بمطابق 731 عیسوی کوفہ میں پیدا ہوئے اور 5 ربیع الاوّل 182 ہجری بمطابق 21 اپریل798 عیسوی بغداد میں فوت ہوئے۔ اس دور میں لاتعداد ایسے افراد موجود تھے جنہوں نے صحابہ کرامؓ سے براہِ راست اکتسابِ فیض کیا تھا۔ کیوں کہ آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہؓ 110ہجری میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ امام ابو یوسفؒ کی کتاب دراصل بیت المال اور اسلامی نظامِ معیشت و مالیات کا وہ ڈھانچہ ہے جس پر ایک اسلامی ریاست کے مالیاتی نظام کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ اسلام کا یہ مالیاتی نظام ہر قسم کے سود، کاغذی کرنسی، ٹیکس اور دیگر جدید مالیاتی نظام کی خرافات سے پاک ہوتا ہے۔ یہ نظام تیرہ سو سال کے تواتر کے ساتھ 1918ء تک آخری اسلامی ریاست، خلافتِ عثمانیہ میںْ نافذالعمل رہا۔ میرے سامنے خلافتِ عثمانیہ کے حکومتی قوانین کا مجموعہ ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ بھی پڑا ہوا ہے۔
میں دونوں کتابوں کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلم امہ کے نظامِ معیشت و مالیات میں تیرہ سو سال تک ایک تسلسل رہا ہے۔ جو احکاماتِ شریعت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نافذالعمل تھے اور جنہیں وقت کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین نے قرآن و سنت کے احکامات کے عین مطابق سلطنت کی وسعت کے مطابق اختیار کیا، اور ان کے بعدآنے والی بنوامیہ اور بنو عباس کی بادشاہتوں نے بھی ویسے ہی قائم رکھا۔ تیرہ سو سال کے اس عرصے میں اسلامی ریاست تین براعظموں پر پھیلی، اس میں روم اور ایران کی کروفر والی اور پُرتعیش بادشاہتیں بھی ضم ہوئیں، جدید انقلاباتِ زمانہ بھی آئے اور دنیا میں فرانس، برطانیہ، اسپین، ہالینڈ اور پرتگال جیسی نوآبادیاتی قوتیں بھی وجود میں آئیں، 1694ء میں بینک آف انگلینڈ کی بنیاد کے ساتھ سودی معیشت کا آغاز بھی ہوا جس کے بعد ریاستی ٹیکسوں کا جامع نظام وجود میںآیا، ریاست کی طاقت میں ظالمانہ وسعت آئی اور اس کے پنجے روز بہ روز گہرے ہوتے گئے، لیکن ان تیرہ سو سال میں خلافتِ راشدہ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ جیسی عالمی قوت کے دور تک، کبھی کسی نے دوسروں سے متاثر ہوکر محاصل یعنی آمدن کے ذرائع اور مصارف یعنی اخراجات کا پیمانہ نہیں بدلا۔
وہ اس پر قائم رہے جو قرآن و سنت میں بتادیا گیا تھا، اور جس کے مطابق خلفائے راشدین اپنے مالیاتی امور چلاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے تمام جدید معاشی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ خالصتاً سود سے پاک اور کارپوریٹ اجارہ داری سے آزاد تجارت کا آخری مرکز و محور صرف خلافتِ عثمانیہ کا سوق (بازار) تھا جس پر کسی قسم کا حکومتی ٹیکس نافذ نہیں ہوتا تھا۔ خلافتِ عثمانیہ جیسی عظیم الشان طاقت اور اس کے اخراجات کے لیے کوئی سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور نہ ہی ویلتھ ٹیکس کا طومار تھا۔ ہے ناں حیرانی کی بات۔ یہ اس لیے ہے کہ ان خلفاء تک رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث تواتر کے ساتھ پہنچی تھیں کہ اللہ کے نافذ کردہ محاصل کے سوا ایک اسلامی ریاست کو کسی قسم کا کوئی کاروباری ٹیکس نافذ کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ عربی میں ٹیکس کو ’’المماکسہ‘‘ کہتے ہیں اور تمام فقہا متفق ہیں کہ مسلمانوں سے ٹیکس وصول کرنا اکبرالکبائر یعنی بدترین گناہوں میں سے ایک ہے۔ چند احادیث یہاں درج کرتا ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’صاحبِ مکس (ٹیکس وصول کرنے والا) جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘ (مسند احمد، ابی داؤد)۔ پھر فرمایا ’’جب نصف رات کوآسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، پس منادی کرنے والا ندا دیتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کی دُعا قبول کی جائے، ہے کوئی سائل جس کو عطا کیا جائے، ہے کوئی پریشان حال جس کی کشادگی کی جائے۔ اللہ سب کی دعائیں قبول فرماتے ہیں، سوائے زانیہ جو اپنی طرف بلائے، یا عشار یعنی ٹیکس وصول کرنے والا۔‘‘ (مسنداحمد، الترغیب و الترہیب)
آپؐ نے بازار کے بارے میں فرمایا ’’یہ تمہارا بازار ہے، یہاں لین دین میں کمی نہ کی جائے گی اور اس پر محصول (ٹیکس) مقرر نہ کیا جائے گا‘‘(سنن ابنِ ماجہ)۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے تین معاملات میں اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ’’اے اللہ میں برأت کا اعلان کرتا ہوں تین باتوں سے (1) لوگوں کا گمان ہے کہ میں طاعون سے بھاگا ہوں۔ (2) میں نے طلاء کو حلال کیا حالانکہ وہ شراب ہے، اور (3) میں نے مسلمانوں سے ٹیکس کو حلال کیا حالانکہ وہ نجس ہے‘‘ (شرح معافی الاثار)۔ جس اسلامی ریاست میں نہ ٹیکس ہو اور نہ سودی قرضے، لوگ یقینا سوال کریں گے کہ ایسی ریاست دنیا میں قائم کیسے رہی اور اپنے اخراجات کہاں سے پورے کرتی تھی؟ مگر تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ اسلامی مالیات کے اصولوں پر مبنی مسلمانوں کی حکومت 1918ء تک تیرہ سو سال دنیا کے نقشے پر ایک عظیم طاقت کے طور پر قائم رہی۔ اس اسلامی ریاست کو ورثے میں روم اور ایران کے درباروں کا سرکاری کروفر، ملازمین اور اہلکاروں کی فوج اور پُرتعیش ماحول ملا تھا، لیکن تاریخ اس بات پرآج تک حیران ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ سے لے کر سیدنا علی المرتضیٰؓ تک کئی لاکھ مربع میل پر قائم یہ خلافت چند مرلے کے مکان اور بغیر کسی سیکرٹریٹ کے ایک ایسا نظامِ حکومت چلاتی رہی جسے دنیا آج ابتدائی فلاحی مملکت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
اسلامی ریاست کا بیت المال ایسے کسی ٹیکس سے کمائے ہوئے مال سے پاک ہوتا ہے جس کا حکم شریعت میں موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جدید ریاست کا شہری سوچنے لگتا ہے کہ پھر حکومت کیسے چلتی تھی؟ اسلام نے جس ریاست کا تصور اس دنیا کو دیا ہے وہ انتہائی سادہ، پرامن اور پرسکون ہے۔
ایسی ہی ریاست دنیا کے تمام ماہرینِ سیاسیات کے نزدیک ایک آئیڈیل ریاست ہوتی ہے۔ سقراط سے لے کر کارل مارکس اور ہربرٹ اسپنر تک، سب کے سب ایسے معاشرے کو بہترین قرار دیتے ہیں جہاں ریاست کا وجود بظاہر نظر نہ آئے (State Becomes Invisible) ۔ ایسی حالت ریاست کا وہ بامِ عروج ہے جو کمیونزم اور سرمایہ داری دونوں کا آئیڈیل ہے۔ کارل مارکس کا کمیونزم اس بات کا درس دیتا ہے کہ جب ہم نجی ملکیت ہی ختم کردیں گے تو آپس کی لڑائی بھی ختم ہوجائے گی اور پھر ریاست کے ادارے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ لیکن 1917ء میں جب روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو لوگوں کو راہِ راست پر لانے اور قابو کرنے کے لیے ایک پرولتاریہ کی آمریت (Proletarian Dictatorship) قائم کی گئی، جس کے تحت ریاست پہلے سے بھی زیادہ جابر، ظالم اور آمر بن کر سامنے آئی، اور پچھتر سال بعد اپنے خاتمے تک، یہ آمریت قائم رہی۔ دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کا مقصد و منشا بھی یہی تھا کہ مارکیٹ کی طاقتیں (Market Forces) اس قدر آزادی کے ساتھ معاشرے میں کارفرما ہوں گی کہ ریاست ایک بے معنی سی چیز ہوکر رہ جائے گی۔ طلب (Demand) اور رسد (Supply) ہی خودبخود قیمتوں کا تعین کرے گی۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ریاستوں کی حدود سے ماورا اپنی عالمی سلطنتیں قائم کریں گی، کارپوریٹ اتحاد دنیا کی سیاست کو کنٹرول کرے گا۔ ایسے میں ریاست کا وجود بس علامتی اور دستِ نگر کا سا ہوگا۔
ایسا کرنے کی پوری کوشش بھی کی گئی۔ آسٹریلیا سے لے کر ہوائی تک ایک جیسا لباس اور فیشن، ایک طرح کا برگر، پیزا، ایک طرح کا رہن سہن، ایک طرح کا نظامِ تعلیم، یہاں تک کہ ایک جیسے ہیروز، ولن اور ایک ہی جمہوری طرزِ حکومت… یہ سب کچھ کرلیا لیکن پھر بھی ریاست روز بہ روز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ ان دونوں نظام ہائے زندگی کے مقابلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست تیرہ سو سال تک ایک غیر محسوس مرکزیت (Invisible Centrality) کے طور پر قائم رہی۔ دنیا کا آئیڈیل اختیارات کی تقسیم کا نظام اسلام نے دیا۔ ہر علاقے کا حاکم یا گورنر مرکزی امیر کو جواب دہ بعد میں ہوتا تھا، اپنے اللہ کو جواب دہ پہلے تھا۔ اور اس حاکم یا گورنر کو احکاماتِ شریعت کا پابند رکھنے کے لیے ایک قاضی مقرر کیا گیا تھا جو اسے شریعت سے روگردانی نہیں کرنے دیتا تھا۔
اسلام سے پہلے ریاست کا وجود تقریباً پانچ ہزار سال پرانا ہے، اور اس کی صرف دو ہی ذمے داریاں تھیں، ایک انصاف کی فراہمی اور دوسری امنِ عامہ۔ باقی تمام کام معاشرہ خود کرتا تھا۔ تعلیم کے لیے مدرسے اور صحت کے لیے حکیم تھے۔ لوگ اپنے یتیموں، معذوروں اور بیوائوں کی خود دیکھ بھال کرتے تھے، کنویں خود کھودتے، راستے خود بناتے تھے، کئی سو کلومیٹر لمبی اور کئی سو فٹ گہری کاریزات کسی ریاستی مدد کے بغیر بنائی گئیں۔ آج کی جدید ریاست ایسے انسانی تعاون کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ لیکن انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اسلام نے ریاست کی ذمے داریوں میں رفاہِ عامہ (Welfare) کو بھی شامل کیا۔ یہ وہ اہم ترین ذمے داری تھی جس کے لیے بیت المال قائم ہوا، اور اس کے محاصل کا تعین کیا گیا۔ اس بیت المال کا ایک حصہ زکوٰۃ کے لیے مخصوص کیا گیا جو خالصتاً زکوٰۃ کے لیے تھا۔ اسلام کے نزدیک باقی کاروبارِ سلطنت کے لیے عشر، خراج، سرکاری زمینوں اور املاک سے آمدن ہوتی تھی، جب کہ پانی، زمین سے نکلنے والی معدنیات اور چراگاہیں تمام ریاستی ملکیت یعنی اجتماعی تھیں۔ اسی طرح زمین بھی دراصل اللہ کی ملکیت ہے جو امانتاً لوگوں کے پاس ہے۔ اسے کرائے پر دینا یا مزارعت حرام ہے۔ جو شخص اپنے پاس موجود زمین پر تین سال تک کاشت نہیں کرتا، وہ اس کی ملکیت نہیں رہتی، ریاست کو واپس چلی جاتی ہے۔
یہ تمام ذرائع آمدن اس قدر وسیع اور زیادہ ہیں کہ اگر کوئی ریاست سود، قرضہ جات، بڑی ریاستی مشینری کے بوجھ اور کرپشن میں الجھی نہ ہو تو ان وسائل سے کاروبارِ سلطنت انتہائی شاندار طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔ برطانوی ہندوستان کی مثال اس سے مشابہ ہے کہ جہا ں ذرائع آمدن بالکل اسلامی ریاست جتنے ہی تھے۔ تمام ٹیکس زمینوں سے وصول کیا جاتا، یا پھر معدنیات سے آمدن ہوتی تھی۔ زمینوں سے زیادہ سے زیادہ 12 سے 16 فیصد ٹیکس لیا جاتا۔ اس موصولہ ٹیکس سے بھی کئی کروڑ پائونڈ برطانیہ بھیجے جاتے۔ ان سب کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، ریلوے، ڈاک خانہ جات، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، انسانوں بلکہ جانوروں کے اسپتال اور ان کی تعلیم کے ادارے… یہ سب اسی 12 فیصد زرعی زمینوں کی آمدن سے بنائے گئے اور ملک پر کوئی قرض بھی نہ تھا۔ یہی کیفیت 1918ء تک قائم خلافتِ عثمانیہ کی بھی تھی۔ یعنی کم سے کم ٹیکس لیکن زیادہ سے زیادہ دینے والے۔ اسلام کا یہ اصول آج مالیاتی دنیا کا زریں اصول سمجھا جاتا ہے کہ ٹیکس کا Broad Base ہو، اور کم سے کم (Minimum) ٹیکس لیا جائے تو ریاست خوشحال ہوتی ہے۔
میں بیت المال کے مصارف ڈھونڈتا رہا کہ اس سے مسجد کی تعمیر پر سرمایہ خرچ کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ لیکن مجھے کہیں کوئی فتویٰ ایسا نہیں ملا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر مسجد پر خرچ نہیں ہوسکتا تو پھر مندر پر کیسے ہوسکتا ہے؟ دنیا کی تمام سیکولر ریاستوں، یورپ اور امریکا میں بھی حکومت نہ اقلیت کی عبادت گاہ بناتی ہے اور نہ ہی اکثریت کی۔ یورپ اور امریکہ میں مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں لیکن کسی ایک ملک میں بھی مسلمانوں کی مسجد کسی بھی ریاست نے نہیں بنائی، اور نہ ہی ہندوئوں کا مندر بنایا۔ یہ اور بات ہے کہ مسلمان فراڈ کرکے کمیونٹی سینٹر کے نام پر حکومت سے گرانٹ ضرور لیتے ہیں۔ اسلامی حکومت ہو یا سیکولر ریاست، اکثریت ہو یا اقلیت… مذہبی عبادت گاہ کی تعمیر ہمیشہ عوام کی اعانت سے ہوتی رہی ہے۔ اس لیے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا معاملہ شریعت کا نہیں دینی غیرت و حمیت کا معاملہ بھی ہے۔ ہم یہ مندر تعمیر کرکے ان 25 کروڑ مسلمانوں کی دل آزاری کریں گے جن پرآج صرف اور صرف ہندو بالادستی کا ظلم اور جارحیت جاری ہے۔ یہ ان شہدا کے خون سے بھی غداری ہے جنہوں نے پاکستان کی تخلیق کے لیے خون دیا۔

حصہ