گزشتہ سے پیوستہ
صدرالخدمت فاؤنڈیشن صوبہ سندھ اور پیما کے رکن ڈاکٹر تبسم جعفری جو اس وباء کے دنوں میں فرنٹ لائن ڈاکٹروں میں بھی شامل ہیں، ابھی وبائی مرض کورونا سے صحت یاب ہوئے ہیں۔ وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ”سید صاحب سے تعلق ایسا تھا کہ مجھے لگتا تھا مجھ سے ہی سب سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ شاید بڑے لوگوں کی یہ ایک خاص بات ہوتی ہے کہ ہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ شاید مجھ ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ ان سے تعلق جمعیت کی نسبت جماعت میں زیادہ مضبوط رہا۔ ان کے ڈاکٹر واسع شاکر بھی ان کی ادویہ کے حوالے سے مجھے اپنے مشوروں میں شامل رکھتے تھے۔ سید صاحب خود بھی کبھی مجھے اکیڈمی طلب کرلیا کرتے اور میں انہیں ان کی بیماری سے متعلق اپنی بہتر معلومات میں سے ادویہ تجویز کردیا کرتا۔ بس یہی تعلق میرا ان سے سب سے مضبوط تھا۔ لیکن آخری دن جو ان کے ساتھ بہتر گزارنے تھے، اپنی بیماری کے باعث نہیں گزار پایا جس کا دکھ مجھے ہمیشہ رہے گا۔ وہ میری بیماری کے دنوں ہی میں شدید علیل، پھر وینٹ پر اور بالآخر انتقال کرگئے۔ بہرکیف وہ ایک مشنری آدمی تھے، جو عہد انہوں نے اپنے دین اور تحریک سے کیا اسے آخر تک نبھایا۔ اپنے آپ کو فنا فی الجماعت کردیا۔ خصوصیت کے ساتھ وہ ایک تنظیمی آدمی تھے۔ تنظیم پر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ دعوت کے چار پہلو دعوتی، تربیتی، تنظیمی و سیاسی میں سب سے زیادہ گرفت تنظیم پر تھی، اسی پر لوگوں کو راغب کرتے۔ انسان کی حیثیت سے بہت سے افراد کی معاونت کرتے تھے۔ مختلف افراد سے پیسے وصول کرتے تھے اور ان افراد کی معاونت کرتے تھے۔ یہ بہت کم لوگ جانتے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ نماز کے معاملے میں ان کا رویہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں جیسا تھا۔ اس کی گواہی سب دیں گے۔ میں ان کے تمام چاہنے والوں سے یہی گزارش کرتا ہوں کہ ہم بھی اپنی نمازوں کو اسی طرح مضبوط کریں، تاکہ سید صاحب کے لیے صدقہ جاریہ بن سکیں۔“
شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسامہ شفیق کہتے ہیں: ”دل مغموم ہے کہ اپنے قبیل کا آخری فرد رخصت ہوا۔ فقر، سادگی، متانت، سنجیدگی اور سب سے بڑھ کر بے خوفی۔۔۔ اتنا بے خوف، نڈر اور بے باک اگر سالار ہو تو بکریوں کا لشکر بھی شیروں کا سامنا کرتا ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا سامنا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ قیادت بے باک نہ ہو! پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، عبدالستار افغانی، نعمت اللہ خان کے بعد سید منور حسن صاحب اس قافلے کے آخری فرد تھے جو رخصت ہوئے۔
۔2002ء کے الیکشن میں سید برسرِ میدان آئے۔ نہ کوئی خوف، نہ خوف کا شائبہ۔ لوگ کہتے ہیں کہ مقتدر قوتوں نے شہر کراچی کو ایم کیو ایم کی فسطائیت سے آزاد کروایا اور ان کو زبان دی۔ میں کہتا ہوں کہ شہر کراچی میں اس کا سہرا نعمت اللہ خان اور سید منور حسن صاحب کو جاتا ہے۔ جب ایم کیو ایم کے خلاف کوئی بولتا نہیں تھا تو اُس وقت یہ اذانیں دے رہے تھے۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب اللعالمین کی زندہ تفسیر تھے۔ میرا منصورہ جانا ہوا تو ان سے ملنے گیا، انہوں نے ایک لفافہ مجھے دیا کہ کراچی میں ایک کارکن کی بیٹی کی شادی ہے اُسے یہ پہنچادو۔ میں حیرت سے کھڑا اس عظیم انسان کو دیکھ رہا تھا۔
تقویٰ اور بے خوفی کا ایک تابناک باب بند ہوا۔ وہ مردِ قلندر جو سرتاپا ہدایت تھا۔
جو بادہ کش تھے پُرانے، وہ اُٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی“
عالیہ شمیم صدر حریم ادب پاکستان ہیں، ان کے مطابق سید منور حسن کیا تھے، وہ کہتی ہیں: ”تعمیر انسانیت سے تعمیر کردار ہوتا ہے، سید منور حسن جن کو مرحوم کہتے ہوئے دل ڈوبتا ہے ان کا اعلیٰ کردار، سادگی، خلوص، احترام انسانیت، ملک و قوم کے لیے دعوتِ دین پہنچانے کی تڑپ اور لگن نے ان کو ہر فرد کے لیے دھڑکتا دل بنادیا۔ قدرت نے انہیں دردمند دل بخشا تھا۔ گھر ہو، خاندان ہو یا پاس پڑوس۔۔۔ اپنے ہوں یا غیر۔۔۔ ان کے حسنِ سلوک کی ڈھیر ساری گواہیاں اس امر کا ثبوت ہیں کہ منور حسن صاحب قول و فعل میں یکساں تھے۔ دو رنگی و منافقت سے دُور ان کی تابناک شخصیت ان کے حسنِ سیرت و حسنِ عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ نظم و ضبط پر مبنی زندگی، مشنِ نبوی سے عشق، اور مشن کے حصول کے لیے بھرپور تحریکی زندگی بدرجہ اتم موجود تھی۔ ان کی آئیڈیل زندگی اور خاندان کے افراد کو تحریک سے جوڑے رکھنا۔۔ محبت، شفقت۔۔ بیٹی، بیٹا، بہو سب منور صاحب کے معترف تھے اور ہر پہلو سے ان کے شب و روز وقت کے مؤثر استعمال سے بھرپور منصوبہ عمل اور اعلیٰ اہداف کے حصول پر صرف رہے۔ مجھے اچھی طرح آج بھی ان کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ یاد ہے جس کی دعوت کے کارڈ بجائے چھپوانے کے خود ہاتھ سے مضمون لکھ کر دیا تھا اور فاران کلب کے سبزہ زار میں ہونے والی دعوتِ ولیمہ میں ہر خاص و عام مدعو تھا۔ دعوت کا مینو چائے و بسکٹ تھے۔ ٹھوس انسانی تعلقات، طویل المعیاد، درمیانی مدت اور فوری نوعیت کے اہداف سے ان کی زندگی ہم آہنگ تھی۔ وقت کی مستعد پلاننگ، ٹھوس اصول پر اثرانداز گفتگو، مستقل مزاجی ان کی شخصیت تھی۔ انہوں نے اپنے خاندان کو احساسِ تحفظ کا گہوارہ بنا رکھا تھا۔“
بلاگر، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عامر اسحاق بزنس ریکارڈ سے وابستہ ہیں، وہ اپنی کچھ یادیں ہم سے شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”جماعت اسلامی بے مثال لوگوں کی جماعت ہے۔ بے مثال لوگوں میں مرحوم منور حسن کا نام بھی شامل ہے، جن کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو کہ اسلامی نظام کے منشور کے بانیان میں سے ہیں۔ مرحوم کی سیاسی اور علمی بصیرت کا ہر خاص وعام معترف رہا۔ ان سے بالمشافہ ملاقات کا موقع تو نہیں مل سکا مگر ان کو سننے کا موقع بہت بار ملا۔ اللہ نے ان کو سحر انگیز خطابت کی صلاحیت بخشی تھی۔ مرحوم نے کشمیر کے مؤقف پر بھی ہمیشہ صف اول کے سپاہی کا کردار ادا کیا، انہوں نے اپنی تقاریر و خطابت سے عملی جہاد کی طرف رہنمائی کی۔“
ڈاکٹرعزیزہ انجم کو اللہ نے بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے، نہ صرف یہ کہ ڈاکٹر ہیں بلکہ ایک حساس ادبی شخصیت بھی ہیں۔ بہترین شاعرہ، مضمون نگار و مقالہ نگار ہیں۔ منور حسن صاحب کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: ”بیسویں صدی کے آغاز میں اس صدی کے مجدد مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اسلام کے سیاسی غلبے اور اپنے نظریے کی سچائی سے ایک بے مثال جماعت بنائی اور ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔ تقریباً ایک صدی ہونے کو ہے مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت اسلامی نے عوام کے فکر و کردار کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ سید منور حسن پاکستان کی قومی اسمبلی کے سب سے زیادہ ووٹ لے کر منتخب ہونے والے ممبر تھے۔ کراچی کے رہنے والے خاص طور پر اسمبلی میں منور حسن اور ان کے رفیق پروفیسر غفور احمد کی حق گوئی اور بےباکی کے چشم دید گواہ ہیں۔ سید منور حسن نے اسلام اور تحریک اسلامی کے پولیٹکل اسلام کے تصور کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔ وقت کے شدید مخالف ماحول میں اپنی بات پر قائم رہے۔ آج بدلا ہوا زمانہ ان کی بے باکی کی مثال دے رہا ہے۔ اسمبلی کی ممبر شپ، دینی جماعت کی قیادت، ایک بھرپور، مکمل ذاتی زندگی۔۔۔ سارے پہلو، سارے رنگ ان کی اجلی، سفید، باکردار زندگی کے آئینہ دار ہیں۔ تحریک سے وابستگی کے حوالے سے جذباتی تعلق رکھنے والے تو محبت کا احساس رکھتے ہی ہیں، زمانہ ان کی سچائی کا علَم بردار بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ منور حسن اور ان کے تمام رفقاء کی نیکیاں، ان کی جدوجہد، ان کی محنتیں اور قربانیاں قبول فرمائے اور اس ملک کو اسلام کا گہوارہ بنادے-“
صبوح طلعت گزشتہ10 سال سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں اور عثمان کالج میں بحیثیت لیکچرر اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہیں۔ سید صاحب کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ”بہرکیف منور صاحب کی زندگی کو سمجھنے سے کلمہ لا الٰہ الا اللہ کی تفسیر سمجھ میں آتی ہے، لوگ بزبانِ قال جو کہتے ہیں سید صاحب نے اسے فی الواقع بزبانِ حال سمجھایا ہے۔ پھر اس قدردان رب نے ہم دنیا والوں کو بتایا کہ جو رب کا ہوجاتا ہے رب اُس کو ہلکا نہیں ہونے دیتا۔ یقیناً محفلِ ملائک میں رب نے اپنے بندے کا خوب ہی تعارف کرایا ہوگا اور علیین میں بھی رب کا بندہ داخل ہوا ہوگا تو رب کے خاص مہمان کا استقبال ایسے ہی ہوا ہوگا ان شاء اللہ
سید صاحب کی حق گوئی اور جرات نے بزدلوں کی نقاب نوچ ڈالی، مداہنت کرنے والوں کو چھپنے کی جگہ نہ ملی، یہاں تک کہ اخلاق کے پیمانے بھی ایسے مرتب کیے کہ اپنوں کا بھرم بھی رکھا اور غیروں کےلیے لقمہ تر بھی نہ بنے۔ جس کا درس دیا زندگی کے اوراق پہ وہ ساتھ ساتھ ثبت کرتے گئے… ان الذین قالو ربناللہ ثم استقامو.. تتنزل علیھم الملائکہ..الا تخافوولا تحزنو،آہ سیدی مرشدی،اب کون ڈنکے کی چوٹ پہ سچ بولے گا؟“
سیدی ہم آپ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ آپ کے چھوڑے ہوئےنقوشِ پا کو کبھی فراموش نہ کریں گے۔ اپنی تحریک کو اپنا کریئر، اپنی نمازوں کو اپنی مضبوطی کا ذریعہ بنائیں گے اور اپنے لوگوں کی خبر گیری کرتے رہیں گے۔ جہاں میں اکیلے بھی ہوجائیں تو حق بات پر ڈٹے رہیں گے تاکہ روزِ محشر اس کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں۔ ان شاء اللہ جماعت میں آپ کے چاہنے والے آپ کے نقشِ قدم پر چل کر ایک دن غلبہ دین کا مشن پورا کریں گے۔ اِس دنیا میں نفاذِ اسلام کی کاوشوں کو جاری و ساری رکھیں گے۔