کورونا وائرس متاثرین کی مدد کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے‘ کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے‘ اس وبا سے جہاں زندگی کے ہر شعبے کو نقصان ہوا ہے‘ وہاں ادبی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں‘ بہت سے قلم کار کورونا کے سبب انتقال کر گئے اور بے شمار لوگ اس وائرس کا شکار ہیں‘ ہم کورونا متاثرین سے اظہار یکجہتی کے طور پر آج یہاں جمع ہوئے ہیں ہمارا پیغام ان تک پہنچ جائے کہ ہم کورونا متاثرین کے شابہ بہ شانہ کھڑے ہیں‘ ہم ان کی ہر ممکن امداد کے لیے تیار ہیں۔ ان خیالات کا اظہار اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر قادر بخش سومرو نے اپنے آفس میں ہونے والے پروگرام میں خطبۂ استقبالیہ دیتے ہوئے کیا انہوں نے مزید کہا کہ چین کے شہر ودہان سے اٹھنے والے کورونا وائرس نے اس وقت 180 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے‘ وہ عالمی طاقتیں جو اپنے ماتھے پر شکن برداشت نہیں کرتی تھیں‘ اس وائرس کے آگے بے بس نظر آتی ہیں اب صورت حال یہ ہے کہ G-20 ممالک سے لے کر سارک ممالک تک ہر ایک اس وائرس سے پریشان ہے پاکستان میں اس وبا کا آغاز26 فروری 2020 کو ہوا تھا اور تادم تحریر تمام اداروں میں کوئی کام نہیں ہو رہا۔ معیشت بدحالی کی طرف گامزن ہے۔ مارکیٹیں‘ شادی ہال‘ ریسٹورینٹ اور پارک بند ہیں لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں ایسا لگتا ہے کہ اب ہمیں کورونا کی ساتھ اپنی زندگی گزارنی ہوگی ہمارا فرض ہے کہ ہم ماسک کا استعمال کریں Hand Sanitieizar سے ہاتھ صاف کریں۔ سوشل ڈسٹینس کا خیال رکھیں‘ کسی سے گلے نہ ملیں اور نہ ہی ہاتھ ملائیں‘ ہم نے لاک ڈائون میں کوئی مشاعرہ نہیں کیا تھا تاہم اب ہم دس افراد پر مشتمل مشاعرہ کر رہے ہیں‘ ہم نے ایس او پیز کا خیال رکھا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس وبا سے نجات عطا فرمائے۔ مشاعرے کے صدر اختر سعیدی نے کہا کہ کورونا وائرس ایک زندہ حقیقت ہے جس کے بے شمار نقصانات ہمارے سامنے آچکی ہیں‘ ترقی یافتہ ممالک بھی اس وبا کا تدارک نہیں کر سکے‘ ہماری حکومت نے اسمارٹ لاک ڈائون کیا جس کے باعث اموات کی شرح کم رہی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم تمام تر احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں‘ ہماری زندگی بہت قیمتی ہے‘ جان باقی رہے گی تو کاروبار ہوسکے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ قادر بخش سومرو نے اپنی پوسٹنگ کے دوران ادبی تقاریب کا سلسلہ شروع کیا جس سے کراچی کے بے شمار شاعروں کو مشاعرہ پڑھنے کے مواقع میسر آئے انہوں نے اپنے دفتر میں ہونے والے کچھ مشاعروں کا احوال کتابی شکل میں شائع کرکے خوش آئند کام کیا ہے۔ یہ شاعری بھی کر رہے ہیں اور کتابوں پر تبصرے بھی لکھ رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مزید ترقی عطا فرمائے۔ اس موقع پر جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں اختر سعیدی‘ نشاط غوری‘ راقم الحروف نثار احمد‘ سید اوسط علی جعفری‘ سیف الرحمن سیفی‘ انور حسین انوار‘ سید ضیا حیدر زیدی‘ محمد رفیع مغل‘ عارف شیخ اور قادر بخش سومرو شامل تھے۔ مشاعرے میں معروف سماجی رہنما الطاف احمد کی سالگرہ منائی گئی اور حاضرین میں مٹھائی پیش کی گئی۔ مشاعرے کے سامعین میں محسن نقی بھی شامل تھے جو کہ علم دوست شخصیت اور صحافی ہیں۔ راقم الحروف ان کی خوب صورت رپورٹنگ کا مداح ہے‘ ان جیسے بے لوث کارکن ہمارے لیے بہت محترم ہیں۔
سرور جاوید کھرے انسان تھے‘ محمود احمد خان
سرور جاوید کھرے انسان تھے‘ انہوں نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی‘ ان کی زندگی حق بیانی میں گزری‘ وہ بہترین شاعری‘ صحافی‘ نقاد اور ماہر تعلیم تھے‘ ان کی شاعری کی دو کتابیں اور نقد و نظر کے حوالے سے متاعِ نظر اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین میں سچائیاں رقم ہیں۔ ان خیالات کا اظہار معروف سماجی رہنما محمود احمد خان نے ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کراچی کے تحت سرور جاوید کی یاد میں منعقدہ مشاعرے میں بحیثیت مہمان خصوصی نے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرور جاوید نے تمام عمر علم و ادب کی آبیاری کی وہ ہر پندرہ دن بعد آزاد خیال ادبی فورم کے پلیٹ فارم سے کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ میں ادبی چوپال سجاتے تھے جس کے پہلے دور میں مذاکرہ اور دوسرے حصے میں مشاعرہ ہوتا تھا اس پروگرام میں نوجوان نسل شعرا بڑے اہتمام سے اپنا کلام سناتے تھے۔ سرور جاوید کے بعد یہ محفلیں اجڑ گئی ہیں۔ ان کی کمی محسوس ہو رہی ہے‘ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مظہر ہانی نے کہا کہ جو لوگ زبان و ادب کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہیں‘ ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن ان کے اعزاز میں پروگرام ترتیب دیتی ہے ہم نے سرور جاوید کے لیے سمندری مشاعرہ رکھا جو بوجوہ ملتوی ہوگیا پھر فارم ہائوس میں سرورجاوید کے لیے ایک تقریب ارینج کرنی چاہی تو بھی ملتوی ہوگئی پھر کورونا وائرس نے معاشرتی زندگی متاثر کی جس کی وجہ سے کوئی پروگرام نہیں ہو سکا اب سرور جاوید کی رحلت پر یہ تعزیتی اجلاس منعقد کیا ہے اس میں کورونا کے خوف سے کم لوگوں کو بلایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہانی آرگنائزیشن ہر غریب قلم کار کی بیٹی کے لیے پچاس ہزار روپے کا جہیز عطیہ کرتی ہے لہٰذا ہم سے رابطہ کیا جائے ہم ہر ممکن امداد کریں گے۔ مشاعرے کے صدر انور انصاری نے کہا کہ مظہر ہانی سماجی خدمات کے علاوہ تعلیم کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں ان کے زیر اہتمام ریڑھی گوٹھ لانڈھی میں ایک اسپتال‘ ایک اسکول اور مدرسہ قائم ہے۔ مظہر ہانی خدمتِ خلق کے تناظر میں عبدالستار ایدھی کے نقش قدم پر گامزن ہیں انہوں نے مزید کہا کہ مظہر ہانی ایک شاعر بھی ہیں لہٰذا وہ ادبی پروگرام بھی منعقد کرتے رہتے ہیں جو کہ ایک قابل ستائش عمل ہے۔ مہمان اعزازی توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ مظہر ہانی قلندر صفت انسان ہیں ان کی شخصیت کا ہر پہلو قابل تحسین ہے انہوں نے آج یادِ رفتگاں کے حوالے سے سرور جاوید کا تعزیتی اجلاس رکھا ہے بلاشبہ سرور جاوید بہت اچھے انسان تھے۔ مشاعرے کی نظامت رشید خان رشید نے کی۔ سرور جاوید کو منظوم خراج عقیدت پیش کرنے والوں میں اختر سعیدی‘ تنویر سخن اور گل انور شامل تھے۔ مشاعرے میں انور انصاری‘ اختر سعیدی‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ رشید خان رشید‘ توقیر اے خان‘ یوسف چشتی‘ افضل ہزاروی‘ مظہر ہانی‘ گل انور اور زبیر احمد صدیقی نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ اس موقع پر گڈاپ ٹائون سے آئے ہوئے مہمانوں کو اجرک پیش کی گئی۔ مظہر ہانی کے کلمات تشکر پر یہ پروگرام اختتام پزیر ہوا۔
نادرن یونیورسٹی نوشہرہ کے زیر اہتمام کل پاکستان آن لائن مشاعرہ
گزشتہ ہفتے نادرن یونیورسٹی نوشہرہ (شعبہ اردو) کے زیر اہتمام کل پاکستان آن لائن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر منور ہاشمی نے کی۔ مہمانان خصوصی میں راقم الحروف نثار احمد‘ یونس متین اور نسیم سحر شامل تھے۔ یوسف خالد‘ محبوب صابر اور شہزد نیّر مہمانان اعزازی تھے۔ ثمینہ گل مشاعرے کی نظامت کار تھیں جنہوں نے بڑی عمدگی سے ڈھائی گھنٹے تک مشاعرہ چلایا اور کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو خراب نہیں ہونے دیا۔ مشاعرے میں بہت اچھے اشعار پیش کیے گئے اور آن لائن سامعین بھی بھرپور داد و تحسین سے نوازا۔ صاحب صدر نے کہا کہ وہ اپنی طرف سے اور نادرن یونیورسٹی کے تمام عہدیداران کی طرف سے شرکائے مشاعرہ کے ممنون و شکر گزار ہیں اور نادرن یونیورسٹی کے ڈائریکٹر کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان کے تعاون سے یہ مشاعرہ ممکن ہوا۔ اس وقت کورونا وائرس کے سبب تمام شعبے متاثر ہیں فروری 2020ء سے تاحال کوئی کاروبار زندگی پوری طرح فعال نہیں ہوا ہے اس صورت حال میں آن لائن مشاعرہ بہت غنیمت ہے اس زمانے میں وڈیو لنک سے یہ سہولت حاصل ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سن اور دیکھ سکتے ہیں۔ سائنسی ایجاد نے بہت سی سہولیات فراہم کی ہیں ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس موقع پر منور ہاشمی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ شاعری ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے شعرا پر بھی معاشرتی تبدیلیوں کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا ہر دور میں شاعری کا مزاج بدل جاتا ہے آج کورونا وبا کی وجہ سے ہم جن مشکلات کا شکار ہیں اس کا اظہار ہم اپنے اشعار میں کر رہے ہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ شاعر معاشرے کا نباض ہوتا ہے وہ اپنے اردگرد کے ماحول بہ غور جائزہ لیتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے وہ نظم کر دیتا ہے‘ شاعر کا کام یہ بھی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرے اور لوگوں کو نیک عمل کی دعوت دے تاکہ معاشرے میں امن وامان قائم رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صنفِ سخن میں غزل کا کینوس بہت وسیع ہے تاہم غزل کہنا اس حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اس کا ہر شعر نئے مضمون کا متقاضی ہے۔ غزل کے دو مصرعوں میں بڑے سے بڑا مضمون باندھا جا سکتا ہے۔ مشاعرے میں جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں صاحب صدر‘ مہمانانِ خصوصی‘ مہمانانِ اعزازی‘ مشاعری کی ناظمہ کے علاوہ محبوب صابر‘ آسناتھ کنول‘ ضیا المصطفی ترک‘ وقاص انمول‘ ناز مظفر آبادی‘ شمسہ نورین‘ تسلیم اکرام اور معراج الدین شامل تھے تاہم جن لوگوں کے نام نوٹ نہ کرسکا اور انہوں نے بھی مشاعرہ پڑھا تھا میں ان سے معذرت خواہ ہوں۔