سیدی

270

یوں ٹوٹ کے امڈا ہے سیلابِ بلائے اشک
پتھرہی سہی دیوار دل ہار گیا پھر بھی

پیارا تو ہر کارکن ہے اور عزیز ساری قیادت ہے!!! کسی کی بھی جدائی ہوتی ہے دل روتاہے۔ سید الانبیا ؐ کے قافلے کا ایک اک فرد عزیز بھی ہے اور بیش قیمت بھی… مگر مجھے یاد ہے وہ وقت جب سید مودودیؒ کی وفات کی خبر سنی تھی جو دل کے ڈوبنے کی کیفیت تھی آنسوئوں کی برسات تھی آج لگتا ہے کہ وہی زخم پھر سے کھل گیا ہے… کئی دنوں سے دل کی حالت دگرگوں تھی۔ کیفیت بے یقینی کی تھی مگر دل کو امید اور دعائوں نے سنبھالاہوا تھا۔ یہی خواہش تھی کہ بس خیریت کی خبر آتی رہے۔۔مگر موت کے آگے توکوئی سفارش نہیں ہے۔ آج وہ دل خراش اطلاع سننے پر ہم سب چاروناچار مجبور ہی ہوگئے۔
ہمارے محبوب ترین قائد ہم سب سے منہ پھیر کر رب کی ملاقات کو چل دیے اورکیوں نہ جاتے جب ساری زندگی اسی ملاقات کی توتیاری کی تھی… اور اب جبکہ وہ مطلوب لمحہ آیا تھا کہ محبوب پروردگار نے اذنِ باریابی بخشا تو کون انکار کرتا ہے…؟ یا اللہ تو ہم سے بہت زیادہ محبت کرنے والا اور اپنے بندے کا قدردان ہے تیری آغوشِ رحمت میں سر رکھ کے آرام کرنے گیا ہے تیرا بندہ… تیرے ہی لیے تو سب سے نبرد آزما ہوتا تھا… نڈر‘ دلیر‘ متوکل علی اللہ! تیرے دشمنوں کے لیے برقِ تپاں…! تیرے دوستوں پر مہربان رہتا تھا… تجھے ہی تو احوال سنانے گیا ہے سارے کے سارے۔۔۔۔!!! تو یقینا اس کا دل خوش کردے گا کیوں نہیں تُو تو ارحم الرحمین ہے‘ تُو غفور ہے‘ شکور ہے… اور جو ہر ایک سے بے نیاز ہوکر تجھے چن لے تو تُو اس کا صلہ دینے میں بے انتہا فیاض ہے۔ پس مولاہماری گواہی لکھ لے کہ ہمارا مرشد تیرا بندہ یکسو تھا‘ مجاہد تھا‘ فنافی اللہ تھا۔ آدھی صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ زندگی کی آسائشیں تو کیا‘ ضرورتوں پر بھی اس نے تیرے دین کے لیے جاں فشانیوں کو مقدم رکھا‘ خود کو گھلا دیا۔ چوتھائی صدی سے زیادہ دفتر کے ایک کمرے میں اقامت رکھنا قرونِ اوّل کے مسلمانوں کے نقش قدم پرکاربند ہونا کھیل نہیں ہوتا۔
اے اللہ! بے شک تمام جاں فشانیوں کی جزا دینے کے لیے تیرے پاس وسعت ہے… تو نواز دے مولا اپنے بندے کو‘ راحت دے دے کہ تھک کر سوگیا ہے‘ بلکہ تیرے بلاوے پر تیرے حضور حاضر ہوگیا ہے۔ ہماری گواہیوں کو قبول فرما لے مالک! ہماری دعائوں کو قبول فرما لے ! ہمارے مرشد کو بھی بخش دے اور ہماری بھی مغفرت فرما کر سید منور حسن جیسا دل وجگر اور رجوع و فقر عطا فرما دے۔ آمین ثم آمین۔

حصہ