میں 14جون کو گھر سے روانہ ہوئی اور 15جون کو اپنی منزل راولپنڈی نانی کے گھر پہنچ گئی‘ موجودہ صورت حال کی وجہ سے سفر میں کافی احتیاطی تدابیر بھی اپنانی پڑیں۔ شروع کے ایک دو دن خوش گوار گزرے پھرگھر اور اپنوں کی یاد ستانے لگی۔ اپنا گھر تو اپنا ہی ہوتا ہے کہیں بھی چلے جائیں آپ نے گھر آکر ہی سکون ملتا ہے۔ پھر امی‘ ابو کے بغیر جانا دل کو اور بے قرار کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ دن گزرتے گئے۔ گھر والوں سے رابطے کا سلسلہ بھی جاری رہا ایک دفعہ چاچو سے بات ہوئی تو منور حسن کے حال احوال کا ذکر ہوا تو کہنے لگے کے وینٹی لیٹر پر ہیں‘ دُعا کرو اللہ جلد صحت یاب کرے۔
26 جون جمعہ کے دن کام سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے کہ موسم یک دم بدل گیا۔ اندھیرا چھا گیا اور بارش اور تیز ہواؤں نے لطف اندوز ہونے کا بھرپور موقع دیا۔ بارش ختم ہوئی تو موبائل اٹھایا اسکرین پر دیکھا تو حیران کُن خبر آنکھوں کے سامنے تھی کے سید منور حسن عظیم رہنما،‘ اللہ کا ولی اور مرشد‘ آنکھوں کا تارا دنیائے فانی سے کوچ کر کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آنکھیں اشک بار تھیں اور زبان سے دعائیں جاری کہ اللہ ان کی بہترین مہمان نوازی کرے اور ان سے راضی ہوجائے اور ان کا استقبال ان الفاظ میں کرے کہ اے نفس مطمئنہ ! چل اپنے رب کی طرف کہ تیرا رب تجھ سے راضی ہے۔ کیا خبر تھی کہ آسمان بھی بارش کی صورت ان کے لیے اشک بار تھا۔
سوشل میڈیا پر تین‘ چار دن سید کی یادوں کا پرچار رہا۔ نمازِ جنازہ اگلے دن ناظم آباد عید گاہ گراؤنڈ میں رکھی گئی۔ میرا دل چاہا کہ میں بھی کسی طرح اُڑ کر پہنچ جاؤں اور اُن کو اُن کی ابدی منزل کی طرف رواں دواں کروں۔ آنکھیں آنسو سے بھری ہوئی اور دل غمزدہ تھا۔
اگلے دن چاچو سے بات ہوئی‘ حال احوال پوچھا تو کہنے لگے دُعا کرو کہ اللہ مجھے صبر دے۔ مزید کہا کہ آج میری کیفیت ویسی ہے جیسے اس دن تھی جب تمہارے دادا کے انتقال کے وقت تھی۔ مجھے کسی کروٹ چین نہیں آ رہا۔ اپنی اور اپنے قائد کی کچھ یادیں مجھے سنانے لگے کہ ہم کہیں دورے پر گئے تو مجھے اس شرط پر ساتھ لے جانے کے لیے راضی ہوئے کہ تم مجھے روز مسجد لے جایا کرو گے‘ میں بھی راضی ہو گیا۔ ہم سب سے پہلے مسجد پہنچ جایا کرتے یہاں تک کہ مسجد کا دروازہ ہمارے بجانے سے کھلتا تھا‘ پھر ہم نماز کا انتظار کرتے اور نماز پڑھ کر قرآن کی محفل سجاتے اور وہاں سے ہم سب ساتھی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے۔ ایک وڈیو انہوں نے بھیجی کہ جب وہ جماعت اسلامی کے امیر بنے تو ذمے داری کے خوف سے کاندھے جھکے پڑتے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ اللہ نے مجھ پر اتنی بھاری ذمے داری کا بوجھ ڈالا ہے۔ دُعا کی کہ اللہ مجھے اس عہد کو نبھانے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے۔
پھر چاچو نے ڈھیروں دعائیں اپنے مخلص ساتھی کے لیے مانگی اور میں آمین کہتی رہی۔ ان کے پاس اسی طرح کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کی بہت سی یادیں تھیں جو پھر میں کبھی ان سے سنوں گی۔ اللہ سے بہت ساری دعائیں ہیں کہ اللہ ان کی بہترین مہمان نوازی کریں، ان کے درجات بلند کرے اورہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل دے‘آمین۔