۔1989 کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کے عروج کا دور تھا۔ الطاف حسین کامیابی کے نشے میں چور جماعت اسلا می اور اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں اور ہمدردوں کو اغوا کر کے بے دردی سے تشدد کر کے قتل کردیا جاتا یا مردہ سمجھ کر پھینک دیا جاتا۔
اس وقت امیر کراچی منور حسن تھے۔ ایک ایک دن میں کئی کارکنان اور ہمدردوں کو اغوا کیا جاتا۔ الیکشن میں مہاجر قومی موومنٹ کی ’’کلین سوئپ‘‘ کے بعد اس دہشت گرد جماعت اور اس کے کارندوں کی دہشت گرد ی عروج پر تھی۔
نعمت اللہ خا ں صاحب اور منور صاحب اس صورت حال پر خاصے متفکر تھے۔ 90 پہنچے گل دستہ پیش کیا اور الیکشن میں کامیابی کی مبارک باد دینے کے بعد بولے کہ ’’ہم کراچی کی تعمیر وترقی کے لیے آ پ کے شانہ بشانہ ہیں۔ بس آ پ اپنے کارکنان کو یہ سمجھادیں کے وہ ہمارے کارکنان اور ہمدردوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک بند کر دیں۔ ہم آ پ کی فتح قبول کرتے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ کراچی کی بھاری اکثریت آ پ کے ساتھ ہے۔ بس اس ظلم کو ختم کردیں۔‘‘
اس فرعون وقت نے بے نیازی سے تالی بجائی تو ایک خادم ایک موٹا سا رجسٹر لے کر آیا اور اس نے کہا کہ آ پ کے اتنے اتنے درس قرآن ہوتے ہیں اتنی قرآن کلاسز خواتین کی اتنی مردوں کی اتنی… اعانتیں اتنی۔ آ پ آپنی سرگرمیوں کو ختم کردیں۔تو یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔
منور حسن غصے سے بولے کہ ’’یہ کوئی سیاسی کام نہیں‘ یہ دین کا کام ہے اور تم لوگ کتنا بھی ظلم کرو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔‘‘
اس فرعون نے کہا ’’ہم جماعت اسلامی کے ایک ایک کا رکن کا کانام مٹا کر دم لیں گے۔‘‘
’’اسلام کا نام نہیں مٹ سکتا…‘‘ کہہ کر وہ دونوں اٹھ کر باہر آ گئے اور آ سما ن کی طرف دیکھ کر کہا ’’یا ربی !تحریک اسلامی اور اس کے کارکنان کی جان آپ کے ہاتھ میں ہے اورآپ ہی حفاطت کرنے والے ہیں۔‘‘‘