پہلوان کون ہے؟۔

351

سر احمد بریک ٹا ئم میں راحیل کی حرکتوں کو مسلسل نوٹ کر رہے تھے ۔اس کی ایک وجہ تھی ۔چند دنوں سے راحیل کی طبیعت میں بہت زیادہ تبدیلی آگئی تھی اور وہ معمولی سی بات بھی برداشت نہیں کرپا تا اور سامنے والے سے فورا لڑنا شروع کر دیتا ۔ سر احمد چونکہ اسکول کے پریفیکٹ انچارج تھے اس لیے تمام پریفیکٹ را حیل کی شکا یت انھیں سے کرتے تھے ۔ان شکا یتوں میں روز بروز اضافہ ہو تا جا رہا تھا ۔ سر احمد نے اسکول کے پرنسپل سے بھی راحیل کے سلسلے میں بات کی تھی کہ وہ اسے ایک دفعہ وارن کر دیں ۔ مگر پرنسپل صاحب نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ راحیل کے والد کی پرنسپل صاحب سے پرانی جان پہچان تھی ۔ سر احمد کو یہ بات بالکل گوارا نہ تھی کہ ان کے اسکول کا شاگرد مستقبل میں کسی مشکل میں گرفتار ہو ۔کیونکہ پرنسپل صاحب سے میٹنگ کے دوران ان کو پتہ چلا تھا کہ راحیل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے اس لیے انھوں نے اس کی ہر جائز اور نا جائز بات مان کر اس کو کافی حد تک بگاڑ دیا ہے۔ راحیل کا جب سے اسکول میں داخلہ ہوا تھا یہ اس کا تیسرا اسکول ہے ۔وہ اسکول کے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈ جسٹ ہی نہیں کر پا رہا تھا ۔ اس کو اپنے کسی بھی کام میں دوسرے کی مداخلت بالکل بھی برداشت نہیں تھی ۔
سر احمد راحیل کو ایک کیس اسٹڈی کے طور پر مشاہدہ کر رہے تھے ۔ بریک ٹائم میں ان کی ڈیوٹی روزانہ ہی ہوتی تھی اس لیے وہ با آسانی راحیل کے رویے کو نوٹ کر رہے تھے ۔مشکل یہ تھی کہ وہ کس طرح راحیل سے بات کریں اور اسے سمجھائیں کیو نکہ وہ راحیل کی کلاس میں کوئی پیر یڈ نہیں لیتے تھے ۔وہ اس کا مسئلہ سمجھ چکے تھے اور اب اس مسئلے کو حل کرنے کے طریقے پر غور کر رہے تھے۔سر احمد کے خیال میں آج کل کے بچے لیکچر پر بالکل بھی تو جہ نہیں دیتے ، اسلیے کو ئی ایسی حکمت ِ عملی اپنا ئی جا ئے جس میں بچہ دلچسپی لے ۔ اتفاق سے ایک دن ان کا انگیج پیریڈ راحیل کی کلاس میں لگ گیا ۔وہ سائنس کا پیر یڈ تھا ۔سر احمد نے بچوں سے ان کے پچھلے اسباق میں سے کچھ سوالات پوچھے ۔ پھر انھوں نے بچوں سے کہا کہ ” اپنے بیگ پیک کر لیں آج ہم ایک سرگرمی کریں گے ۔آج ہر بچے کا انٹرویو لیا جا ئے گا ۔ پہلے میں ایک بچے کا انٹرویو کروں گا پھر وہ اپنی مرضی سے کسی بھی بچے سے وہی سوالات پو چھے گا ۔ اس طرح ایک کے بعد ایک پوری کلاس کا انٹرویو ہو جا ئے گا “۔ اس انٹرویو کے دوران انکشاف ہوا کہ راحیل کو مار دھاڑ والے گیمز بہت پسند ہیں اور وہ اپنا بیشتر وقت موبائل پر گیم کھیلنے میں گزارتا ہے ۔ یہی اسکا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ٹی وی پروگرام میں اسے ریسلنگ بے حد پسند ہے۔ در اصل سر احمد نے انٹرویو کے سوالات اس طرح ترتیب دیے تھے کہ راحیل کی پسند اور نا پسند کا اندازہ ہو جا ئے۔ ان کی یہ حکمتِ عملی کا میاب ہوئی تھی ۔ راحیل کے انٹرویو کے دوران انھوں نے ایک عجیب سوال کا اضافہ کیا کہ ” پہلوان کسے کہتے ہیں ؟” تما م بچوں نے ایک ساتھ کہا ” جو بہت طاقتور ہو ” ۔راحیل نے اس میں اضافہ کیا کہ ” جو اپنے سامنے والے کو گرادے اور ہمیشہ دوسروں سے جیت جائے “۔ سر احمد کو راحیل سے اسی جواب کی توقع تھی انھوں نے موقع کی مناسبت سے آپ ﷺ کی حدیثِ مبارکہ تمام بچوں کو سنائی ۔ ” حدیث ِ نبویﷺ ہے کہ پہلوان وہ شخص نہیں جو پچھاڑے یعنی سامنے والے کہ گرا دے ، پہلوان وہ شخص ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پہ قابو پا لے “۔ انھوں نے یہ حدیث سنانے کے بعد بورڈ پر بھی تحریر کردی اور تمام بچوں کو ہدایت کی کہ اس کو اپنی نوٹ بک میں لکھ لیں اور اس پر عمل کر نے کی کوشش کریں۔ اس دوران پیریڈ ختم ہونے کی بیل بج گئی ۔سر احمد نے بچوں سے اگلے ہفتے ان کا پیریڈ لینے کا وعدہ کیا اور کہا کہ اگلے ہفتے میں تمام بچوں سے پوچھوں گا کس نے حدیث پر عمل کیا اور اسکی وجہ سے کتنی لڑائی جھگڑوں سے بچت ہوئی۔ تمام بچوں نے انکے پیریڈ میں بہت دلچسپی اور گرم جوشی دکھائی ۔ وہ اگلے ہفتے کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے ۔
سراحمد نے پورے ہفتے بریک ٹائم راحیل کے رویے کا مشاہدہ کیا ۔انھیں یہ دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے ۔اس نے کئی دوست بنا لیے تھے اور اس کے رویے میں مثبت تبدیلی آرہی ہے۔ایک دن راحیل اپنے دوستوں کے ساتھ بریک ٹائم میں سر احمد کے پاس آیا اور ان سے گزارش کی کہ “آپ اسمبلی میں ایک دن کو ئی اچھی بات بتایا کریں تاکہ اسکول کے تمام بچے اس سے فائدہ اٹھا سکیں سر نے اتنا اچھا مشورہ دینے پر راحیل کو شاباشی دی ۔انھوں نے اسمبلی انچارج سے بات کر کےہفتے میں ایک دن ہر کلاس کی باری لگادی کہ کوئی بھی بچہ اسمبلی میں ایک اچھی بات بتائے گا۔ تمام اسکول کے طلباء اس سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے ۔
سر احمد آج بے حد خوش تھے کہ ان کی ذرا سی توجہ سے نا صرف راحیل بلکہ اسکول کے تمام بچوں کے کردار میں نکھار آنا شروع ہوگیا تھا ۔ سراحمد کے مطابق بچے آج بھی اتنے ہی معصوم ہیں جتنے پرانے زمانے کے۔غلطی ہم بڑوں کی ہے جو انھیں وہ توجہ نہیں دیتے ،جس کے وہ حقدار ہیں چاہے وہ والدین ہوں یا اساتذہ۔اقبال نے سچ ہی کہا ہے کہ “ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی”۔

حصہ