(سولہویں قسط)
روس اپنے بے پناہ دفاعی اخراجات اور اسلحہ کے ڈھیر لگانے کی پالیسی کے باعث انتہائی معاشی مشکلات کا شکار تھا۔ اس کے لیے اُس کے اپنے وسائل ناکافی تھے، لہٰذا اب وہ اپنے اتحادی ممالک کے وسائل پر بھروساکرنے لگا تھا، لیکن اس کی وسعت پسندی اور لالچ کے باعث یہ وسائل بھی اس کے لیے ناکافی ثابت ہورہے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے افغانستان میں تیل کی تلاش کی تجزیاتی رپورٹیں یہ ظاہر کرتی تھیں کہ افغانستان بے شمار قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔
یہ 1958ء کی بات ہے کہ دائود خان افغانستان کا وزیراعظم تھا۔ ظاہر شاہ اور دائود نے روس کے ساتھ ایک جغرافیائی سروے کا معاہدہ کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ معدنی ذخائر کے سروے کا معاہدہ تھا۔ روس کی افغانستان میں مداخلت اور بالآخر تسلط کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔ روس کو اس بات کا علم تو تھا کہ افغانستان تیل، گیس اور دیگر معدنی دولت سے مالامال ہے، لیکن اس معاہدے کے بعد ہونے والے سروے سے یقین ہوگیا۔ لہٰذا عیار روسی حکمرانوں نے افغانستان میں تیل کے ذخائر اور معدنی کانوں کا مکمل سروے کیا لیکن اس کی تمام رپورٹیں اپنے پاس محفوظ کرلیں، اور گیس کے سوا باقی تمام جعلی رپورٹیں افغانستان کو تھما دیں، جن میں یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ گیس کے سوا دیگر ذخائر کا نکلنا انتہائی مہنگا اور غیر سودمند ہوگا۔ روس اس طرح ان تمام معدنی ذخائر کو اپنے لیے محفوظ کرنا چاہتا تھا تاکہ ان ذخائر کو اُس وقت تک نہ چھیڑا جائے جب تک اس کا افغانستان میں مکمل قبضہ نہ ہوجائے۔
افغانستان میں قدرتی گیس اور تیل کے وسیع ذخائر کے علاوہ سونا، یورینیم، لیکشیئم، بیمریم (جو ہائیڈروجن بم بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے)، قیمتی پتھروں (زمرد، یاقوت، کندن، فیروزہ اور ہیرے) اور لوہے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ یہ ذخائر روس نے دریافت کرلیے تھے اور ان کے بارے میں افغانستان کے روزنامہ ’’اصلاح‘‘ نے لکھا تھا کہ ’’افغانستان میں روسی ماہرین نے جو معدنی وسائل و ذخائر دریافت کیے ہیں، اگر ان کو استعمال میں لایا جائے تو افغانستان دنیا کا امیر ترین ملک بن سکتا ہے‘‘۔
بعد میں ایک جاپانی کمپنی نے1970ء میں صوبہ لوگر میں تانبے کے وسیع ترین ذخائر دریافت کیے۔ اسی سال صوبہ جوزجان اور صوبہ فاراب میں تیل کا پانچواں بڑا ذخیرہ دریافت ہوا، لیکن روس نے چال بازی کے ساتھ ایسی پالیسی اختیار کی کہ افغان قوم اپنے ذخائر کا ایک قطرہ تیل بھی استعمال نہ کرپائی۔
روس چاہتا تھا کہ افغانستان مکمل طور پر اس کی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کرے، لیکن ظاہر شاہ نے دو کشتیوں پر قدم رکھنے کی کوشش کی، اور نتیجے کے طور پر اس کو بزدلوں کی طرح حکومت اور اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑا۔
افغانستان پر اپنی پٹھو حکومتوں کے دس سالہ دور میں روس یہاں سے بہت زیادہ مقدار میں خام تیل، کندن، ڈائمنڈ، یورینیم، لوہا، تانبا، زمرد اور دیگر قیمتی دھاتیں اپنے ملک میں منتقل کرتا رہا۔ یہ سراسر ایک قوم کے وسائل پر دوسری قوم کا ڈاکا تھا، لیکن جب اپنے ہی غیروں کا ساتھ دیں تو ایسا ہونا بڑا آسان ہوجاتا ہے۔
حملہ آور اور قابض ممالک کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی آزادی اور خودمختاری سلب کرکے ان کے قدرتی اور اقتصادی وسائل پر پوری طرح قبضہ کرلیتے ہیں، زیرِ قبضہ ملک کے عوام کو بھوکا رکھتے ہیں اور خود ان کے وسائل سے انہی کا خون چوس کر منافع حاصل کرتے ہیں۔ سیکولرازم ہو یا سرمایہ داری، دونوں کا مقصد صرف اپنے مفادات کی نگرانی اور دوسروں کے وسائل کو اپنے اور صرف اپنے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔
…٭…
زینب کے پاس ابھی تک جمال اور کمال کی کوئی خبر نہ پہنچی تھی، نمازوں میں دعائوں کے ساتھ ساتھ اپنے رب پر یقین ہی تھا جو اسے روز اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے مستعد کردیتا تھا، ورنہ اب وقت نے اسے کمزور کر ڈالا تھا۔
فاطمہ اور بلال کی شادی کے بعد اب اسے ہلال کی شادی کا ارمان تھا لیکن ساتھ ہی چاہتی تھی کہ زبیر اور جمال، کمال کی کوئی خبر مل جائے تو کتنا اچھا ہو، اور باپ بیٹے کی شادی میں شریک ہوجائے تو کیا بات ہو۔
اپنے رب سے دعائیں اور باتیں کرنا اسے بے حد اچھا لگتا تھا، وہ کسی کام میں مصروف ہوتی لیکن دھیان وہیں رہتا اور باتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔
’’میری جان میرے کمال اور جمال…! میرے مجاہدو…! ذرا ایک دفعہ مجھے اپنی شکل تو دکھا جائو۔ دیکھو اتنے سال گزر چکے ہیں، پتا نہیں اب تم لوگ کب چھٹی لے کر آئو گے۔ میں آج ہی بلال سے کہتی ہوں، مجاہدین کے دفتر میں جا کر معلومات کرے۔‘‘
زینب کتنی ہی دفعہ اس معاملے میں ہلال اور بلال دونوں سے بات کرچکی تھی اور دونوں دفتر کے چکر بھی لگا چکے تھے، لیکن کسی کی کوئی اطلاع نہ تھی۔
وہ دن جب جمال اور کمال کی شہادت کی خبر ہلال کو ملی، اسی دن بلال کے گھر چاند سا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ یہ بلال اور گل افروز کی شادی کے بعد دوسری خوشی تھی۔ زینب نے پوتے کو گود میں لے کر شہد چٹایا، کان میں اذان دلوانے کے لیے کیمپ کے امام صاحب کو بلوایا گیا تھا۔ انہوں نے بچے کو گود میں لیا، اذان دی اور پھر بولے ’’بہن مبارک ہو، خدا نے تمہارے خاندان کو ایک اور مجاہد سے نوازا ہے۔ نام کیا رکھا ہے؟‘‘ زینب سوچ میں پڑ گئی۔
گل جانہ نے پھوپھی کے گلے میں بانہیں ڈال کر لاڈ سے کہا ’’پھوپھو! خدا کے لیے ہم قافیہ نام نہ سوچیے گا کہ اب تو ’’ملال‘‘ ہی رہ جاتا ہے‘‘۔ سب کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’نہیں، میں نے اس کا نام ’’مجاہد‘‘ رکھا ہے۔ نانا مجاہد، دادا مجاہد اور تایا مجاہد… اس ننھے فرشتے کو مجاہد کہلوانے کا پورا حق ہے‘‘۔ زینب نے جھک کر ننھی سی جان کا بوسہ لیا اور نانی کی گود میں ڈال دیا۔
صفیہ آج کل بہت کمزور ہوگئی تھی۔ کیمپ میں یرقان کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد بیمار پڑا تھا۔ یوں بھی صفیہ کھانا جیسے زبردستی ہی کھاتی تھی، لیکن جب سے بیمار پڑی تھی گویا حلق سے دو نوالے اتارنے دوبھر ہوگئے تھے۔ دو دن پہلے مہروز کیمپ کے مطب سے دوا لے کر آیا تھا۔ ڈاکٹر نے مریضہ کو معائنے کے لیے بھی بلایا تھا، لیکن صفیہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے تیار نہ تھی۔ وہ جیسے زندگی سے بے زار ہوگئی تھی۔ جب سے شیردل کی خیر خبر نہیں مل رہی تھی، اس کا یہی حال تھا۔ پہلے تو ہر ڈیڑھ دو ماہ میں اس کا کوئی نہ کوئی خط آ ہی جاتا تھا، لیکن اب تو مہینے کیا سال گزر گئے تھے۔
ایک ہفتے سے فاطمہ بھی نڈھال ہورہی تھی۔ الٹیوں کی وجہ سے اس کی بھی حالت خراب تھی۔ زینب نے گل روز کو کہہ رکھا تھا کہ کل جب فاطمہ کو لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے جائے تو صفیہ کو بھی کسی سہارے سے لے جائے۔ ’’اللہ جانے یہ کیسا یرقان ہے جو پیچھا ہی نہیں چھوڑتا‘‘۔ زینب دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔
ہلال بہت دفعہ ماں سے تنہائی میں میدانِ جہاد میں جانے کے لیے ضد کرچکا تھا۔ کمال اور جمال کی خبر جہاد کیمپ کے ذمہ داروں سے اسے بہت پہلے مل چکی تھی لیکن ابھی تک یہ بات ماں کو بتانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ کئی دفعہ اس نے ارادہ کیا لیکن پھر یہ سوچ کر منہ بند رکھا کہ یہ خبر ملنے کے بعد تو ماں اور بھی زیادہ مخالفت کرے گی۔ کئی دفعہ اس کا دل سرحد پار سے آنے والی خبریں سن کر بے قابو ہوجاتا، وہ سوچتا کہ ’’کچھ فاصلے پر شر اور خیر کی جنگ ہورہی ہے، تیرے بھائی اور باپ اس کے لیے جان لڑا رہے ہیں اور تُو اطمینان سے اپنے گھر میں بیٹھا تماشا دیکھ رہا ہے!وطن کا کوئی کوہ و دمن باقی نہیں کہ جہاں شہیدوں نے اپنے خون سے آزادی کی دلہن کو سرخ جوڑا نہ پہنایا ہو۔ کوئی وادی نہیں کہ جہاں شہیدوں کے خون کی لالی موجود نہ ہو، لیکن ایک تم ہو جو اس بات پر مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ہو کہ تمہارا باپ اور بھائی تو جہاد کررہے ہیں۔ آخر تم کیا کررہے ہو؟
بتائو آخر تم کیوں اس معرکہ کارزار میں نہیں اتر سکے؟
ہلال بہت دیر سے بستر پر لیٹا سوچ رہا تھا۔ سورج کی گرمی میں ابھی تیزی نہیں آئی تھی لیکن ہلال کے اندر گویا ایک الائو تھا جو دہک رہا تھا۔
’’اللہ کے راستے میں لڑو۔ تم پر اپنے سوا کسی کی ذمہ داری نہیں ہے، البتہ مومنین کو لڑنے کی ترغیب دو۔ ممکن ہے اللہ کفر کرنے والوں کا زور توڑ دے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا زور سب سے زیادہ اور اس کی سزا سب سے سخت ہے‘‘۔
جمعہ کے دن مولوی صاحب کا خطبہ جہاد کے موضوع ہی پر تھا۔ اس کا دل تو یوں بھی بے چین و بے قرار تھا، اب توگویا وہ رات دن اسی سوچ میں رہنے لگا تھا۔ اِس وقت بھی وہ ذہنی طور پر میدانِ جہاد کے خواب دیکھ رہا تھا۔
زینب بہت دیر سے اس کے لیے دودھ لیے کھڑی تھی۔ ہلال کو سوچ و فکر میں ڈوبا دیکھ کر حیران ہورہی تھی ’’خدا جانے کیا پریشانی ہے؟‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ آگے بڑھ کر بستر کے قریب آگئی، لیکن ہلال ابھی تک اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا، اسے تو ماں کے آنے کی خبر تک نہ تھی۔
کیا بات ہے بیٹا؟ کن الجھنوں کا شکار ہو، ماں کو نہیں بتائو گے؟ زینب نے ہلال کو پکارا۔
’’ارے امی آپ کب آئیں، مجھے تو خبر ہی نہیں ہوئی‘‘۔ ہلال بستر سے اٹھ بیٹھا۔
’’بیٹا خبر کیسے ہوتی، نہ جانے تم کن خیالوں میں گم تھے!‘‘ ہلال نے ماں کا ہاتھ تھام کر بستر پر بٹھا لیا۔ اس نے آج ماں سے بات کرنے کا ارادہ کرلیا تھا۔
’’امی کیا آپ مجھے جنت میں داخل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں؟‘‘ اس نے زینب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
زینب سمجھ گئی کہ بیٹا کس چیز کی تمہید باندھ رہا ہے۔
’’بیٹا جب تک مجھے کمال اور جمال کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملتی، میرا دل تم کو بھیجنے کے لیے آمادہ نہیں ہوگا‘‘۔
’’امی جان! وہ تو کب کے کامیابی حاصل کر چکے‘‘۔ ہلال ایک ذومعنی جملہ بول کر خاموش ہوگیا۔ وہ ماں کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا۔
زینب ایک لمحے کو چونکی، اس نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کو دیکھا ’’کیا کوئی خبر آئی ہے؟‘‘
’’ماں میرے پاس تو عرصہ ہوا خبر آگئی تھی، بس آپ سے کہتے ہوئے ڈر لگتا تھا‘‘۔ ہلال نے ماں کے پتھر کی طرح ساکت چہرے کو دیکھا۔
’’امی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شہید کے لیے چھ چیزیں اللہ میاں کے پاس ہیں، ایک یہ کہ خون کا پہلا قطرہ بہتے ہی اس کو معاف کردیا جاتا ہے، دوسرے وہ شہادت پاتے ہی جنت میں اپنا مقام دیکھ لے گا، تیسرے اسے عذابِ قبر سے بچا لیا جاتا ہے، چوتھے وہ قیامت کی ہولناکیوں سے بچا لیا جائے گا، پھر اس کے سر پرعزت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا ایک ایک یاقوت دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہوگا۔‘‘
ہلال شہید کے مقام و مرتبے کے بارے میں باتیں سبق کی طرح ماں کے سامنے دہرانے لگا، جس کی تیاری اس نے پہلے سے کر رکھی تھی۔
ہلال نے دیکھا کہ ماں کا چہرہ چمک اٹھا ہے، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
’’میرے جگر گوشے شہید ہوگئے!‘‘ وہ زیر لب بولی جیسے یقین حاصل کرلینا چاہتی ہو۔
’’ہاں… ہاں وہ شہید ہوگئے‘‘۔
’’تو مبارک باد دو ناں ہلال، تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتایا، یا اللہ تیرا شکر ہے‘‘۔ زینب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگی تھی اور لبوں پر شکر کے کلمات تھے۔ اس نے ہلال کو بھی سینے سے لگا کر مبارک باد دی: ’’تجھے بھائیوں کی شہادت مبارک ہو۔ رب نے میرے بیٹوں کو شہادت کے لیے پسند کیا‘‘۔
زینب بہت خوش تھی، بہت نازاں تھی۔ اب اس نے بلاحیل و حجت ہلال کو جانے کی اجازت دے دی تھی، لیکن ایک شرط لگا دی تھی کہ جانے سے پہلے شادی کرکے جائو۔
’’امی آپ یہ کیسی بات کررہی ہیں؟‘‘ ہلال ماں کی شرط پر حیران تھا۔
’’بیٹا جمال اور کمال اپنی کوئی نشانی مجھے دے کر نہیں جاسکے لیکن تم ایسا نہ کرو، مجھے تمہارے جانے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ایک ننھا مجاہد تو دیتے جائو‘‘۔
ماں کی انوکھی فرمائش پر ہلال نے سر جھکا لیا۔
زینب نے صفیہ کے ساتھ مل کر ہلال کے لیے دلہن ڈھونڈنا شروع کردی تھی۔ آگے پیچھے خیموں میں ایک دنیا آباد تھی۔ لٹے پٹے خانماں برباد خاندان جو اپنا گھر بار اور پیاروں کی قربانی دے کر یہاں آئے تھے اور جن کے بہت سے پیارے رشتے ابھی بھی وطن کی خاک پر نچھاور ہونے کے لیے آگ اور بارود کے آگے سینہ سپر تھے۔
پلوشہ جان اپنے بوڑھے بابا کے ساتھ سامنے والی خیموں کی لائن کے آخری خیمے میں رہتی تھی۔ پانچ چھ سال پہلے اس کا باپ ابراہیم خان اس کو لے کر اِس خیمے میں آباد ہوا تھا تو اس کا پائوں شدید زخمی تھا۔ زخم مشین گن کی گولیوں کا تھا۔ روسیوں نے افغانستان میں اپنے ہر قسم کے اسلحہ کو آزمایا تھا۔ یہ گولیاں بھی ایسی تھیں جو جسم میں داخل ہوکر لٹو کی طرح گھومتی تھیں، اور جن کے اندر لوہے کے باریک بلیڈ لگے ہوتے تھے، لہٰذا وہ جسم کو لگ کر عام گولی کے مقابلے میں بہت زیادہ نقصان پہنچاتی تھیں۔ گوشت، رگوں اور پٹھوں کو وہ اس طرح قیمہ کرتی تھیں کہ زخم بھرنا ممکن نہیں رہتا تھا اور عموماً اعضا کو کاٹ کر علیحدہ کرنا پڑتا تھا۔ ابراہیم خان کا ایک ہاتھ اور ایک پائوں اس کی نذر ہوچکا تھا۔
شروع شروع میں جب وہ اپنی معصوم چھوٹی سی بیٹی کے ساتھ کیمپ میں آیا تو ہر کام میں اس کو مشکل پیش آتی تھی۔ پلوشہ اکثر اپنی کسی نہ کسی مشکل کے حل کے لیے زینب اور صفیہ کے پاس چکر لگاتی رہتی تھی۔
اب تو پلوشہ نے قد نکال لیا تھا۔ لہٰذا باپ کی ہدایت کے مطابق بہت کم خیمے سے باہر قدم نکالتی تھی۔ ابراہیم خان بھی کمزور اور بوڑھا ہوچکا تھا، پھر جوان بیٹی کا بوجھ اس کو تڑپاتا تھا۔ وہ زینب اور صفیہ سے اس کے لیے کسی رشتے کی تلاش کے لیے کہہ چکا تھا۔
دو چار جگہ دیکھنے کے بعد ایک دن اچانک زینب کو پلوشہ کا خیال آیا۔ ’’بھابھی میرے ہلال کے لیے پلوشہ کیسی رہے گی؟‘‘ زینب جھٹ مشورے کے لیے صفیہ کے پاس پہنچی۔ صفیہ نے کچھ غور کے بعد منظوری دے دی۔ فاطمہ بھائی کی شادی اتنی جلدی میں کرنے پر خوش نہ تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ خوشی کو خوشی کی طرح منایا جائے۔ لیکن ہلال نے چونکہ ماں سے چھ ماہ بعد جہاد کے لیے جانے کا وعدہ لے لیا تھا، لہٰذا زینب چاہتی تھی کہ جلدازجلد اس فرض سے سبکدوش ہوجائے۔
(جاری ہے)