ایک سچے شاعر کا المہ

472

گزشتہ سے پیوستہ

فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیراترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے———یہ نکتہ میں نے سیکھا بوالحسن سےکہ جاں مرتی نہیں مرگِ بد سےمیں نے ان مثالوں کو سطحی اس لیے کہا تھا کہ یہ صرف نظموں کی تعداد کو ظاہر کرتی ہیں۔ زیادہ گہری بات یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کے تقریباً تمام بڑے مسائل، ان کی شاعری کی فضا، لب و لہجہ اور اسلوب سب اسی مسئلے سے اُلجھنے کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی وہ اپنی شاعری کے ہر جزو کے ذریعے موت سے جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔موت اقبال کے وجود کا سب سے زیادہ گہرا، سب سے زیادہ بنیادی اور سب سے زیادہ فعال مسئلہ ہے۔ انفرادی موت، اجتماعی موت، جمود، انحطاط، بے عملی، موت ہی کی شکلیں ہیں۔ یہ موت ہی ہے جو مختلف درجنوں میں ان برائیوں میں ظاہر ہوتی ہے جن سے جنگ کے لیے اقبال نے خودی، عشق اور عمل کی فوجیں میدان میں اُتاری ہیں۔ خودی کا استحکام اس لیے ضروری ہے کہ حیاتِ ابدی کی ضمانت ہے۔ عشق اس لیے محبوب ترین چیز ہے کہ اصلِ حیات ہے۔ عمل اس لیے لازمی ہے کہ انسان صرف عمل ہی کے ذریعے فنا کے دام سے آزاد ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کہ شہادت کا مقصود بھی تب و تابِ جاودانہ کے سوا اور کچھ نہیں۔ اقبال دوسروں پر جو تنقید کرتے ہیں، اس میں بھی یہی نقطئہ نظر موجود ہوتا ہے، مثلاً اقبال کو حافظ پر اعتراض ہے کہ ’’جامش از زہرِ اجل سرمایہ دار۔‘‘ افلاطون سے اختلاف ہے کہ ’’حکمتِ او بود را نابود گفت۔‘‘ بانسری کی لَے انھیں یوں پسند نہیں آتی کہ خواہشِ حیات کو گھٹا کر آرزوئے مرگ پیدا کرتی ہے۔ وہ ہند کے شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں سے اس لیے بے زار ہیں کہ وہ اپنے صنم خانوں میں موت کی نقش گری کرتے ہیں۔ وہ فرد اور اجتماع دونوں کو موت سے بچانا چاہتے ہیں کہ موت ہی تو ان کی حریف ہے۔ میرا خیال ہے کہ اتنے اشارے کافی ہیں۔ ان اشاروں کی مدد سے آپ اقبال کی کائناتِ شعری کی تمام تفصیلات کو دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کائنات جو موت کے طوفان میں تحفظ کی ایک کشتی بنا کر چھوڑی گئی ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اقبال کے وجود میں موت کا یہ مسئلہ اتنی شدت کیوں رکھتا ہے؟ کیا اس کی وجہ موت کا عام تجربہ ہے یا کسی عزیز، قریب یا دوست کی موت کا المیہ؟ میرے ذہن میں کئی بار یہ خیال پیدا ہوا کہ اقبال اس مسئلے سے کہیں اپنی ماں کی موت کی وجہ سے تو دوچار نہیں ہوئے۔ لیکن ’’بانگِ درا‘‘ میں ان کی نظم ’’والدۂ مرحومہ کی یاد میں‘‘ اس خیال کی تغلیط کرتی ہے۔ اس نظم میں وہ ماں کی موت سے متاثر نہیں ہیں۔ ماں کا ذکر تو صرف برائے بیت ہے۔ یہاں وہ کسی فرد کی موت کے بجائے خود موت کے مسئلے سے اُلجھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ موجود شواہد کی روشنی میں اقبال کی موت سے یہ وابستگی کسی خارجی محرک سے نہیں پیدا ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سوتا خود اُن کے اندر ہے۔ کیا اقبال کے اندر خواہشِ مرگ موجود تھی؟ یا کبھی موجود رہی تھی؟ افسوس ہے کہ اقبال نے خود اپنی ذاتی زندگی پر کبھی روشنی نہیں ڈالی اور بعد میں تو بقولِ منٹو انھیں دھو دھلا کر رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پر ایسا ٹانگا گیا کہ ان کی ذاتی نفسیات کے بارے میں کچھ کہنا یا سوچنا بھی گناہ ہوگیا۔ لیکن پھر بھی مکتوبات میں ان کی خواہشِ مرگ کا ایک تاثر مل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہم ’’بانگِ درا‘‘ کی ایک دو نظموں کو اور ملا لیں تو تاثر ذرا زیادہ گہرا نظر آنے لگتاہے۔ مثلاً:۔
اقبال کی خود سے یہ لڑائی ان کی پوری شخصیت کا نمایاں ترین پہلو ہے۔ وہ شاعر ہیں اور علم الکلام کے خلاف ہیں، فلسفی ہیں اور فلسفے کے خلاف ہیں، متکلم ہیں اور علم الکلام کے خلافہیں، عالم ہیں اور علم کے خلافہیں، عقل کے پتلے ہیں اور عقل کے خلاف ہیں۔ ڈبلیو بی ییٹس نے کہا تھا کہ دوسروں سے لڑنے سے خطابت پیدا ہوتی ہے اور خود سے لڑنے سے شاعری۔ اقبال کی اپنی ذات سے لڑائی ان کی شاعری کی بنیاد ہے۔ اقبال موت کی خواہش کے باوجود موت سے لڑتے ہیں۔ یہی ان کی شاعری کا سب سے بنیادی محرک ہے۔میں نے کہا ہے کہ موت اقبال کی شاعری کی بنیاد ہے۔ اب اس کے ساتھ ایک اور مسئلے کو دیکھیے۔ اقبال ایک زمانے میں شاعری ترک کردینا چاہتے تھے۔ بظاہر اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ شعر و شاعری کی افادیت کے قائل نہیں رہے تھے اور اسے ایک کارِ بے کاراں تصور کرنے لگے تھے۔ لیکن اقبال نے جیسی شاعری کی ہے، اُس کی روشنی میں یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں رہتا۔ وہ اتنے بڑے شاعر ہیں کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ان کے دل میں ترکِ شاعری کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ ہمیں اقبال بات کو تیسرے درجے کے سماجی اصلاح پسندوں اور بازاری قسم کے لیڈروں سے نہیں ملانا چاہیے۔ اقبال جیسے شاعر سے زیادہ اس بات کو کون جانتا ہے کہ شاعری اپنے وجود کو پا جانے کا نام ہے۔ تو کیا اقبال ترکِ شاعری کرکے اپنے وجود سے بھاگنا چاہتے ہیں؟ اقبال اپنی خواہش کے باوجود شاعری ترک نہیں کرسکے اور یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے کہ ’’میرے قلب کی کیفیت بعض اوقات ایسی ہوجاتی ہے کہ میں شعر کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ اُن لوگوں کو، جو اچھے یا برے کسی بھی معنوں میں اقبال کی شاعری کے منکر ہیں، اقبال کے اس قسم کے اعترافات کو زیادہ توجہ کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔ اقبال شاعری چھوڑنا چاہتے تھے تو اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں تھی کہ وہ اس تجربے کے اظہار سے ڈرتے تھے جس نے انھیں اپنے وجود کی اندرونی تہوں میں موت سے دوچار کردیا تھا۔ میرے نزدیک جس طرح اقبال کی شاعری ان کی خواہشِ مرگ سے لڑائی کا نتیجہ ہے، اسی طرح اُن کی ترکِ شاعری بھی اسی خواہش سے لڑنے کا ایک مظہر تھی۔ اقبال شاعری نہیں چھوڑ سکے اور موت سے دوچار ہوکر زندگی کے اور زیادہ رستار ہوگئے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اُنھوں نے اپنے ذہنی عمل کے ذریعے ایک ایسی چیز کوں، جو اُنھیں شاعری اور زندگی دونوں میں منفیت کی طرف لے جاسکتی تھی، ایک مثبت قوت میں بدل دیا۔ اقبال کی شاعری خواہشِ مرگ کی منفیت کو زندگی کے اثبات میں بدلنے کا عمل ہے۔اب ہم اس مسئلے کو ایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں۔ افلاطون نے کہا تھا کہ فلسفہ موت کی تیاری کا نام ہے۔ نبیِ کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ موت سے پہلے مر جائو۔ مہاتما بدھ کی زندگی موت سے دوچار ہوکر انھیں نروان کی طرف لے گئی۔ ہائیڈیگر کہتا ہے کہ انسان اپنے حقیقی وجود کو موت کے روبرو ہوکر ہی پاکستا ہے۔ اقبال بھی موت ہی کے ذریعے اپنے حقیق وجود تک پہنچتے ہیں۔اس بحث کی حدود میں حقیقی وجود اور غیرحقیقی وجود کے کیا معنی ہیں؟ ہم اُس انسان کی مثال پیش کرچکے ہیں جو کسی سہارے کے بغیر طوفان سے لڑنے کی کوشش کر رہا ہو۔ یہ حقیقی انسان ہے۔ اس انسان کو دریا کی حقیقت بھی معلوم ہے اور خود اپنی بھی۔ وہ جانتا ہے کہ وہ کتنا کم زور اور کتنا طاقت ور ہے۔ ہر قسم کے مصنوعی تحفظ سے آزاد ہو کر وہ اپنی حقیقت کے روبرو دریا کی حقیقت سے دوچار ہے اور اس کے طوفان میں خود اپنی توانائی کے ذریعے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ طوفان سے مقابلے کی کشاکش میں وہ اپنے جسم اور روح کے ذرے ذرے سے آشنا ہوجاتا ہے اور اس خود آگہی کے ذریعے وہ قوت پیدا کرتا ہے جو مانگے تانگے کی چیز نہیں۔ خود اس کے وجود کی قوت ہے۔ اس کے مقابلے پر وہ آدمی جو ساحل پر کھڑا ہوکر طوفان کو دور سے دیکھتا ہے، غیرحقیقی آدمی ہے۔ وہ ایک مصنوعی تحفظ کے تودے پر کھڑا ہو کر صرف ایک تماشائی کی طرح ہے۔ اس پر ابھی دریا اور اس کے طوفان کی حقیقت نہیں کھلی۔ اور چونکہ وہ اس کی حقیقت سے ناآشنا ہے، اس لیے خود اپنے وجود کو بھی نہیں جانتا۔ وہ اگر کوئی طاقت محسوس بھی کرتا ہے تو یہ ایک مستعار طاقت ہے جیسے کسی مفلوج انسان کی بیساکھی۔ ابھی اس کی زندگی کم زور سہاروں سے باہر نہیں نکلی۔ آپ اس انسان کو اچانک ساحل سے دریا میں دھکا دے دیجیے۔ وہ بچائو بچائو چلائے گا اور ہاتھ پائوں مارنے لگے گا۔ لیکن جب اس کو معلوم ہوجائیگا کہاس کا بچائو باہر سے نہیں ہوسکتا تو پھر وہ اپنے وجود کی پوری قوت سے پانی سے ابھرنے کی کوشش کرے گا۔ تب اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیا ہے اور دریا کیا ہے؟ وہ حقیقی انسان بننے لگے گا۔ ہرمن ہیسے نے کہا ہے کہ انسان اپنے مصائب کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔ نٹشے کہتا تھا کہ ہمیشہ خطرے میں زندہ رہنے کی کوشش کرو۔ یہ سب اسی انسان کی وارداتیں ہیں جو غیرحقیقی انسان سے حقیقی انسان بن رہا ہے۔ اقبال زندگی کے شاعر ہیں، اس لیے کہ موت کے طوفان کی شدت و قوت کو اپنے وجود کی گہرائیوں میں دریافت کرچکے ہیں۔ زندگی، قوت اور عمل یہ سب موت کے چیلنج کا جواب ہیں۔ اقبال نے موت کو محسوس کیا ہے اور اس کی ہمہ گیر قوت کے سامنے اپنی کم زوریوں کے اندر سے اپنی قوت پیدا کی ہے۔ میں نے کہا ہے کہ اپنی کم زوریوں کے اندر سے،یہ ایک اہم بات ہے۔ سچی قوت ہمیشہ کم زوری کے باطن سے پیدا ہوتی ہے۔ ہمیں اقبال کی کم زوریوں کا اندازہ ان مقامات سے ہوتا ہے جہاں وہ ’’تو‘‘ سے مخاطب ہوتے ہیں اور ان کے ’’تو‘‘ کے پیچھے ’’میں‘‘ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ وہ ساری کم زوریاں جو انھیں دوسروں میں نظر آتی ہیں، مثلاً بے عملی، جذبے کی کمی، شدید اور مستقل خواہشات کا فقدان وہ سب ان کی اپنی کم زوریاں بھی ہیں۔ اقبال نے انھیں اپنے ذریعے دوسروں میں دریافت کیا ہے اور اقبال ان سے لڑتے ہیں۔ یہ لڑائی اقبال کی شاعری کی روح ہے۔ اسی لڑائی کے ذریعے وہ حقیقی شاعر بھی بنتے ہیں اور حقیقی انسان بھی۔اقبال اپنے تجربے کے ذریعے اپنی اور اس لیے سارے انسانوں کی سب سے بڑی کم زوری دریافت کرتے ہیں، موت— موت، ناپائیداری، بے ثباتی۔ یہ کم زور اپنے جواب میں ثبات کی خواہش پیدا کرتی ہے۔ اقبال اس کی تعمیم کردیتے ہیں۔ انسان کو ثبات کی طلب ہے۔ اقبال کے سارے مرکزی تصورات اسی تعمیم سے پیدا ہوتے ہیں۔ ثبات کی طلب افراد کو بھی ہے، اور اقوام کو بھی۔ اقبال کی فکر کا بڑا حصہ اسی طلب کے ذرائع سوچنے پر صرف ہوا ہے۔ بہت جلد وہ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ قوموں کو اگر کوئی ثبات حاصل ہوسکتا ہے تو صرف کسی دستورِ حیات کے ذریعے۔ دستورِ حیات کے بغیر قومیں زندہ نہیں رہ سکتیں۔ بلکہ دستورِ حیات کی عدم موجودگی ہی قوموں کی موت ہے۔ اقبال کے نزدیک وہ دستورِ حیات، جو اقوام کو ثبات عطا کرسکتا ہے، اسلام ہے۔ اس کا ثبوت وہ تاریخ سے پیش کرتے ہیں— ’’یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے‘‘— سب مٹ گئے لیکن مسلمان باقی ہیں— مسلمان اس لیے باقی ہیں کہ ان کے پاس ایک ایسا دستورِ حیات ہے جو خود خدا نے انسان کو عطا کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک دنیا کی دوسری قومیں بھی اسلام کے ذریعے ثبات حاصل کرسکتی ہیں۔ اور فرد کے لیے اقبال کا پیغام یہ ہے:
چناں بزی کہ اگر مرگِ تست مرگِ دوامخدا ز کردۂ خود شرمسار تر گرددفرد کس طرح زندہ رہ سکتا ہے؟ یہ اقبال کی فکر کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ اقبال کے نزدیک فرد خودی کے استحکام کے ذریعے زندہ رہتا ہے۔ ان کے نزدیک انسانی ذات کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو وہ جس کے ذریعے وہ عام کاروبارِ حیات میں شریک ہوتا ہے اور دوسرا پہلو وہ جس کے ذریعے وہ اقدار کی تخلیق کرتا ہے۔ انسانی ذات کا وہ پہلو، جس کا تعلق عام زندگی سے ہے، فنا پذیر ہے لیکن وہ پہلو، جو اقدار کی تخلیق کرتا ہے، ایک طرح کا دوام رکھتا ہے۔ مولانا حامد حسن قادری نے ایک مرتبہ اقبال پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اقبال حیاتِ مابعد الموت کو خودی کے استحکام کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک خودی کا استحکام اور عدمِ استحکام ہی کافر و مومن کا امتیاز پیدا کرتا ہے۔ گویا دوسرے لفظوں میں اقبال کے نزدیک حیاتِ مابعد الموت اس کے لیے ہے جو خودی کے استحکام کے ذریعے مومن بنا، جب کہ قرآنِ حکیم میں حیاتِ مابعد الموت کافر و مومن دونوں کے لیے ہے۔ اور دونوں کے لیے جنت اور دوزخ میں ’’خالدین فیہا ابداً‘‘ کا حکم لگایا گیا ہے۔ یہ اعتراض کئی لحاظ سے اہم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال حیات مابعد الموت کے عقیدے کو روایتی معنوں میں تسلیم نہیں کرتے۔ یہ کوئی استحقاق نہیں ہے جو بلاتخصیص ہر فردِ انسانی کو حاصل ہوا۔ چنانچہ خطبات میں انھوں نے صاف لکھا ہے کہ نوعِ انسانی ابدیت کی امیدوار ہے۔ بہرحال اقبال کے نزدیک موت سے تحفظ خودی کے استحکام کا آخری ثمر ہے۔ خودی کے استحکام کے لیے اقبال عشق و عمل، فقر و استغنا اور اسی قسم کی دوسری اقدار کی تخلیق ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ سب ’’چناں بزی‘‘ کی تفسیریں ہیں۔میں نے مضمون کی ابتدا میں کہا تھا کہ میرے سامنے بنیادی سوال صرف ایک ہے۔ اقبال کے باطن میں اقبال کی شاعری کا سرچشمہ کہاں ہے۔ یہ سوال میں نے اس پس منظر میں اٹھایا تھا جس سے اقبال جیسے شاعر کا یہ المیہ پیدا ہوا کہ ان کے مداح اور مخالف دونوں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ وہ شاعر نہیں تھے۔ مداح انھیں شاعری سے بلندتر سمجھتے ہیں، مخالف شاعری سے کم تر۔ چنانچہ کبھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے فلسفہ پیش کیا ہے، پیغام دیا ہے، شاعری تو صرف ثانوی چیز ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ وہ شاعری تو کر نہیں سکے، منظوم خیالات البتہ پیش کیے ہیں۔ اقبال جیسے شاعر کے ساتھ ہمارا یہ سلوک اقبال کا المیہ تو ہے ہی، شاعری اور ہماری تہذیبی زندگی کا بھی المیہ ہے۔ ہم اقبال جیسے شاعر کی قدر شاعرانہ حیثیت سے نہیں کرسکے تو تہذیبی مظاہر کی کیا قدر کرسکیں گے۔ میں نے اقبال کی شاعری کی بنیاد اُن کے تجربے کی گہرائی میں اُتر کر تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن یہ حرفِ آخر نہیں۔ اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے، اور جہاں تک مجھے اندازہ ہے، اختلاف کیا بھی جائے گا۔ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ میں نے یا کسی نے ان کی شاعرانہ واردات کی تشخیص کس مسئلے کے ذریعے کی ہے۔ اصل مسئلہ ان کو شاعر سمجھ کر ان کی شاعرانہ حقیقت اور حیثیت کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے۔ میں نے ایک ابتدائی کوشش کی ہے اور خدا کا شکر ہے کہ حرفِ آخر کہنے کا خبط مجھے کبھی نہیں رہا۔

حصہ