اسلامی انقلاب سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روشنی میں

1001

انسانی شعورجب بلوغت کو پہنچ گیااس میں حق و باطل سچ اور جھوٹ ،نیکی اور بدی ، دنیا اور آخرت کی تمیز پیدا ہو گئی ، دنیا کی اکثریت تک اللہ رسول اور آخرت کا پیغام پہنچ گیا لوگوں نے تسلیم کر لیا کہ زمین و آسمان اور پوری کائنات کا خالق و مالک ایک ہے۔مگراس کے باوجود لوگوں نے حق سے انحراف کیا، عدل کی بجائے ظلم کا راستہ اختیار کیا، اختیارات اور وسائل حکومت پر الحاد و دہریت کا قبضہ ہو گیا ،ظالم حاکموں اور بادشاہوں نے اپنی خدائی کا اعلان کر دیا، بندگان خدا کوانہوں نے طاقت کے زور پر اپنا بندہ بنا لیا، ان کے انسانی حقوق غضب کر لیے، ان کی جان و مال آل اولاد اور عزت و آبرو کے مالک بن بیٹھے۔ وہ خود ہی حاکم تھے خود ہی منصف اور وہ لوگوں کے مال و اسباب ہی کے مالک نہیں بنے بلکہ موت و زندگی کے مالک بھی بن گئے جسے چاہتے جب چاہتے اور جس طرح چاہتے موت کے گھاٹ اتار دیتے۔اور جس کی چاہتے جان بخش دیتے، لوگوں کی اکثریت ان کو ان داتا سمجھ بیٹھی اپنی ذلت و نامرادی، بے بسی کمزوری اور غلامی کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر ذلت و غلامی پر رضا مند ہو گئی تھی، مذہب پر جعلی مذہبی پیشواؤں کا قبضہ تھا وہ بندے اور خدا کے درمیان وسیلہ بن کر بیٹھے ہوئے تھے ان کے بغیر اللہ تک کسی کی رسائی نہیں ہو سکتی تھی۔خدا تک داد فریاد پہنچانے کا بھاؤمقررتھا۔ وہ نذرانوں اورچڑھاووں کی صورت میں وصول کیا جاتا تھا۔
ایک خدا کا تصور دھندلا ہو چکا تھا سب کچھ خدا کے قبضہ قدرت میں ہونے اور اس کے حکم سے سب کچھ ہونے کا یقین ختم ہو چکا تھا۔ جو آسمانی بادشاہ چاہتے تھے انہوں نے دنیا اور اسباب دنیا سے کنارہ کر لیا، راہب بن کر شہروں سے جنگلوں پہاڑوں اور غاروں میں چلے گئے۔شریف لوگوں نے ان کی دیکھا دیکھی چپ سادھ لی۔ اور دنیا مکار مذہبی پیشواؤں اور ظالم حکمرانوں کے لیئے چھوڑ دی اور دنیا کے انسان تین حصوں الحاد و دہریت ،شرک و بت پرستی اور رہبانیت میں تقسیم ہو گئے ۔ الحاد و دہریت اور مذہبی پیشواوں نے مل کر انسانیت پر وہ ظلم ڈھائے جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔گویا دنیا انسانیت اور درندوں کا جنگل تھا جہاں درندوں کے سوا کوئی محفوظ نہیں تھا۔ انبیائےسابقین کی امتیں گمراہ ہو چکی تھیں اور آسمانی کتابوں میں تحریف کرنے والوں نے انسانوں کو راہِ راست سے ہٹا کر گمراہی میں دھکیل دیا تھا۔انسان ظلم کی چکی میں پس رہا تھا اور انسانیت تڑپ رہی تھی مگر اندر ہی اندر لاوا پک رہا تھا ساری دنیا میں ظالمانہ نظام چھایا ہوا تھا ہر طاقتور کمزور کا خدا بنا ہوا تھا۔اللہ تعالیٰ نے جن امتوں کو معروف کاحکم دینے اور منکرات کو مٹانے کی ذمہ داری سونپی تھی وہ خود نیکی کے دشمن اور بدی کے علمبردار بن گئے تھے اب کسی علاقے اور قوم کی اصلاح کی نہیں بلکہ عالم انسانی کی اصلاح کی ضرورت تھی۔ دنیا کو ایک عالمگیر اور بین الاقوامی جماعت کی ضرورت تھی جو ساری قوموں علاقوں اور زبانوں کو ایک لڑی میں پرو دے حسب نسب اونچ نیچ، کالے گورے اور دولت کےبتوں کوپاش کر کے طبقاتی تقسیم کو رد کر دے۔جو انسان کو ایک اکائی تسلیم کرے نیکی اور تقوی کے سوا کسی دوسری خوبی پر انسان کو دوسرے انسان پر فوقیت نہ دے۔ اب انسانیت کو اس نظام کی ضرورت تھی جو انسانوں کے درمیان دولت اور وسائل دولت کی منصفانہ تقسیم کرے، قومیت علاقے حسب ونسل اور مذہب کی بنیاد پر انسانوں کے درمیان تفریق نہ کرے سب کے مساویانہ حقوق تسلیم کیے جائیں سب ایک قانون کے مطیع اور ایک رب کے بندے ہوں، کوئی کسی کا ذہنی، معاشی اور سیاسی غلام نہ ہو، قانون کی نظر میں سب برابر ہوں سب کو یکساں مواقع حاصل ہوں، تعلیم، علاج ،لباس، مکان اور خوراک پر سب کا بنیادی حق تسلیم کیا جائے۔ سب سے پہلے ملکی دولت اور وسائل انسانوں کی بنیادی ضروریات پر خرچ ہوں. جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی عظیم اکثریت کو ذہنی ، جسمانی ،معاشی، سیاسی اور سماجی غلامی سے نکلنے کے لیئے بے قرار پایا تو اللہ کی رحمت اور ربوبیت جوش میں آئی اور اس نے بنی نوع انسانی کی تقدیر بدلنے ،اسے بادشاہوں کی غلامی، سماج کی بندشوں، مذہبی پیشواؤں کی مکاری اور جھوٹے خداؤں کی خدائی سے نجات دلانے کا فیصلہ کر لیا۔
انسانیت کی نجات کے لیے اللہ تعالیٰ نے آمنہ کے لعل حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نےآپﷺ کو اپنی آخری کتاب،کتاب ہدایت، کتاب انقلاب عطاء کی اور حکم دیا کہ اس قران حکیم کے ذریعے توحید، رسالت اور آخرت کی دعوت و تبلیغ کا آغاز کرو اٹھو اور آنے والے وقت سے لوگوں کو خبردار کر دو، اللہ کی کبریائی اور اس کی بڑائی کا اعلان کر دو، فاران کی چوٹیوں سے توحید کی صدا بلند ہوئی لا الہ الا اللہ سے ایوانِ کفر و شرک میں زلزلہ آ گیا۔ مشرکوں کے کان کھڑے ہو گئے ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے، ہمارے ہوتے ہوئے ہمارے خداؤں کے مقابلے میں کس کی بڑائی اور کبریائی کا اعلان ہو رہا ہے۔ پہلے تو وہ چونکے کہ کفر و شرک کے اس گڑھ میں کون ہے جو اتنی جرأت و بے پروائی کے ساتھ اللہ کی کبریائی کا اعلان کر رہا ہے۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ ہمارے سب سے زیادہ شریف، صادق و امین محمد ابن عبداللہ ہمارے خداؤں کے مقابلے میں ایک اکیلے اللہ کی بڑائی کا اعلان کر رہے ہیں تو ان کو حیرت اور تعجب کے ساتھ تشویش بھی ہوئی کیونکہ اس آواز میں جوش و ولولہ،رعب اور دلکشی تھی، شروع میں یہ جان کر نظر انداز کر دیا کہ ایک دو کے علاوہ چند سرپھرے نوجوان اور غلام ہیں جو اس بات کی طرف دھیان دے رہے ہیں لیکن جب معلوم ہوا کہ کچھ قابل ذکر لوگ بھی آپﷺ کی دعوت قبول کر رہے ہیں تب ان کی تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا سب سے زیادہ حیرانگی اس بات پرتھی کہ وہ کہتا ہے کہ آقا اور غلام دونوں برابر ہیں ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ دونوں کے حقوق برابر ہیں، انسان بندہ ہے آقا نہیں ہو سکتا اور یہ کہ ایک خدا کے سوا سب کا انکار کر دو۔ یہ دعوت ان پر بجلی بن کر گری کہ ہم اپنے خداؤں کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں جو ہماری بگڑی بناتے ہیں، جو مشکل کو حل کرتے ہیں، جو روزی رساں ہیں، جن کے کہنے سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں، آندھی اور طوفان ان کی مرضی سے آتے ہیں ، جو بے اولادوں کو اولاد عطا کرتے ہیں، جو جنگوں میں ساتھ دیتے ہیں ہمارے باپ دادا جن کو پوجتے آ رہے ہیں۔ یہ کون ہے؟ اور کس حیثیت سے یہ بات کر رہے ہیں؟
جب انہوں نے آپﷺ سے آپﷺ کی حیثیت معلوم کرنا چاہی تو آپﷺ نے فرمایا میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں میرےپاس اللہ کا بھیجا ہوا ایک مقرب فرشتہ آتا ہے اور اللہ کا کلام ساتھ لاتا ہے میں تمہیں اللہ کی طرف اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے تحت بلاتا ہوں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا۔ اگر تم میرا کہنا مان جاؤ تو عرب و عجم تمہارے قدموں میں ہوں گے بس لا الہ الا اللہ کہو اور فلاح پا جاؤ۔۔۔ یہ سن کر وہ آگ بگولہ ہو گئے پھر تشدد کا بازار گرم ہوا، بے سہارا ، مزدوروں اور غلاموں کو مارا پیٹا گیا ،ان کو آگ کے انگاروں پر لٹایا گیا، تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا گیا، ان کی کمر پر تازیانے برسائے گئے ،ان کو پانی میں ڈبویا گیا ، ان کو ہجرت پر مجبور کیا گیا ، بلکہ ان کا تعاقب بھی کیا گیا اور نجاشی بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر ان مظلوموں کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر رحم دل بادشاہ نے مشرکوں کے تحفے واپس کر کےان کا مطالبہ مسترد کر دیا ۔ جولوگ دنیا میں انقلاب لانا چاہتے ہیں وہ اولین اسلامی تحریک کے نقوش پا کو تلاش کر کے غور و فکر کریں کہ انہوں نے کتنا راستہ طے کر لیا۔پہلی ہجرت کے بعد دوسری ہجرت ہوئی ظلم و تشدد میں اضافہ ہو گیا ان کی غنڈہ گردی سے کوئی محفوظ نہیں رہا غلاموں سے لے کر آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کو نشانہ بنایا مار کھاتے رہے آگے بڑھتے رہے ان کے پائے ثبات میں ذرہ برابر بھی لغزش ناآئی۔کفار و مشرکین کے ظلم و ستم میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا مگر مسلمانوں نے جوابی کاروائی نہیں کی، نہ گالی کے جواب میں گالی دی اور نہ ہی کسی قسم کی مزاحمت کی۔ حکم یہی تھا کہ ظلم و تشدد سے ذرا نا گھبراؤ جوابی کاروائی مت کرو صبر کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو جو جہاں ہے جم کر کھڑا رہے اسی سے انسانیت کا ضمیر جاگے گا قیادت کے چشمے پھوٹیں گے سعید روحیں انقلاب کی جانب خود بخود کھنچیں گی اور پھر مکہ کا سب سے جری اور بہادر سپوت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہی دنیائے کفر میں بھونچال آ گیا اور کفار پاگلوں اور وحشیوں کی طرح مظلوم و بے سہارا مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ظلم و تشدد میں اضافے کے ساتھ ہی دعوت و تبلیغ کے کام میں بھی تیزی آ گئی یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا کفار مشرکین کا غصہ مایوسی میں ڈھلنے لگا مکہ کی سنگلاخ زمین سے جو ہیرے موتی چننے تھے وہ چن لیئے اب اس زمین میں ایمان کا بیج قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رہی تو آپ ﷺ نے طائف کا رخ کیا مگر فخر کائنات نبی آخرزمان کے ساتھ وہاں کے ظالم و کافر سرداروں اور اوباش لڑکوں نے جو المناک سلوک کیا وہ ناقابل بیان ہے ان کے اس ظالمانہ اور وحشت ناک سلوک پراللہ تعالیٰ کا قہر جوش میں آیا اور اس نے اپنے پیارے نبی ﷺ کے پاس فرشتہ بھیجا تاکہ اس ظالم قوم پر پہاڑ الٹ کر اس کو نیست و نابود کر دے۔ مگر نبی رحمت ﷺ نے فرمایا مجھے امید ہے کہ ان کی نسل سے کوئی اللہ کا بندہ پیدا ہو گا۔ تحریک اسلامی کے قائد حضرت محمد ﷺ اپنے سرمائے حیات کو یہاں تک لے آئے ۔اسلامی انقلاب کےقائد نبی پاک ﷺ اور صحابہ کرام کے صبر و استقلال، عزم و ہمت ، ان کی ایثار و قربانی اور اطاعت خدا پر غور کریں۔ سخت سے سخت حالات میں بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، پرتشدد دور میں بھی اضطراری کیفیت طاری نہیں ہوئی، کوئی شکوہ کوئی شکایت زبان پر نہیں آئی، نہ بھوک پیاس کا گلہ، نہ روزی چھن جانے کی فکر، نہ ظلم و تشدد کی شکایت تھی، نہ دشمنوں کے سامنے کمزور پڑے، نہ دل میں کمزوری کا گمان گزرا کیونکہ انہیں منزل سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ مکہ اور طائف کے بدبخت اور سنگ دل لوگوں نے جس نعمت عظمیٰ کو ٹھکرا دیا تھااسے یثرب کے خوش نصیب لوگوں نے آگے بڑھ کر تھام لیا۔ اور اسلامی انقلاب کی سعادت یثرب والوں کے نصیب میں آئی وہ دامن مصطفیٰﷺ سے وابستہ ہوگئے۔ مستقبل کا فیصلہ ہو گیا۔
پہلے سال حج کے موقع پر یثرب کے بارہ افراد آئے عقبہ کے مقام پر آپ ﷺ سے ملاقات ہوئی وہ نعمت اسلام سے مشرف ہوئےبیعت کی دوسرے سال پچہتر افراد عقبہ کے مقام پر آئے بیعت عقبہ ثانی ہوئی۔ اس موقع پر آواز آئی ٹھہرو اے اہل یثرب آج تم جو فیصلہ کر رہے ہوایک دفعہ اور ٹھنڈے دل سے غور کر لو اس فیصلے کے نتیجے میں اہل عرب کی تلواریں تمہارے خلاف بے نیام ہو جائیں گی، تمہارے اشراف کو بے آبرو ،املاک کو تباہ اور بچوں کو قتل کیا جائے گا اگر تم محمد ﷺ کی حفاظت کر سکو تو اپنے ساتھ لے جاؤ ،جواب آیا کہ ہم جان و مال کی قربانی دیں گے اپنی املاک کو تباہ ،اشراف کو بے آبرو اور بچوں کی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے ہم ہر حال میں آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے اذن خداوندی سے اہل یثرب کے حق میں فیصلہ ہو گیا وہ انقلاب کے ہراول دستے میں شامل ہو گئے۔
مکہ میں نبی ﷺ کے قتل کی سازش ہو چکی تھی اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے نرغے سے نکال کر اپنے نبی محترم ﷺ کوصحیح و سلامت یارِغار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ یثرب پہنچایا۔ آپ ﷺ کے اصحاب بھی ایک ایک کر کے یثرب پہنچ گئے۔ یثرب پہنچنے پر اہل یثرب نے دل کی گہرائیوں سے آپ ﷺ کو خوش آمدید کہا اور شاندار استقبال کیا اللہ کے حکم سے آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مہمان بنے۔ یثرب پہنچتے ہی اسلام اور اسلامی جماعت دوسرے مرحلے میں پہنچ گئی اب انفرادی دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ مسلمان باقاعدہ ایک جماعت بن گئے حزب اللہ وجود میں آگئی مکہ سے یثرب پہنچنے کے بعد مسلمانوں کی حالت بدل گئی.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دشمنوں کا مقابلے کرنے اور لڑنے کی اجازت دے دی ۔آپ ﷺ نے اہل یثرب سے معاہدہ کر کے ایک شہری حکومت کی بنیاد رکھ دی یثرب کو ایک ریاست کا درجہ دے دیا گیا ۔ معاہدہ کی ایک شق کے مطابق اگر کوئی باہر سے حملہ آور ہوتا ہے تو اہل یثرب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
۔(جاری ہے)۔

حصہ