۔”مائی کولاچی گوٹھ”۔

381

’’خمیسو بھائی السلام علیکم …کیا حال ہیں۔‘‘
’’خیریت ہے، تم سناؤ کہاں چلے؟‘‘
’’جانا کہاں! بازار گیا تھا، وہیں سے آرہا ہوں۔ تم سناؤ خمیسو بھائی آج تو چارپائی باہر نکال لی ہے، خیر تو ہے، کیا آج میدان میں ہی سونے کا ارادہ ہے!‘‘
’’ہاں بابا، آج باہر ہی سوئیں گے۔‘‘
’’نہ نہ خمیسو بھائی، آپ مہمان ہو، گھر میں آرام کرو۔‘‘
’’ارے کیسا مہمان! جس دن سے کراچی آیا ہوں اُس دن سے سوائے بجلی بند ہونے کے کچھ نہیں دیکھا، گھنٹوں بعد بجلی آتی ہے، جیسے ہی لیٹنے لگتا ہوں پھر چلی جاتی ہے، عجیب مذاق چل رہا ہے۔ تمہارے شہر سے اچھا تو ہمارا گوٹھ ہے جہاں کم سے کم پنکھا چلتا ہے۔ ہم تو مہمان ہے چلا جائے گا، بلکہ کل صبح ہی چلا جائے گا، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس بدترین لوڈشیڈنگ میں تمہاری زندگی کیسے گزرتی ہے! خدا کی پناہ، یہاں رہنا تو کسی عذاب سے کم نہیں۔‘‘
’’خمیسو بھائی ابھی دو دن قبل ہی آئے ہو، کچھ دن تو رہو، پھر چلے جانا۔ کراچی شہر گھومو پھرو۔ بجلی کا کیا ہے، زندگی تو گزار رہی ہے ناں۔‘‘
’’تمہاری زندگی گزر رہی ہوگی، ہماری نہیں گزرتی۔ دیکھتے نہیں کتنا گرم موسم ہے، آگ برس رہی ہے، ایسی صورت حال میں بھلا کون گھر سے نکل سکتا ہے! ایسے میں دوپہر گھروں میں کاٹی جاتی ہے، لیکن تمھارے شہر میں تو گھر بھی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تندور بنے ہوئے ہیں۔ تمہارے شہر سے تو ہمارا گوٹھ اچھا ہے جہاں بجلی نہیں جاتی، اگر کبھی کسی خرابی کے باعث بند ہو بھی جائے توہم اپنی چارپائیاں درختوں کے نیچے لے جاتے ہیں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے مزے لیتے ہیں۔ بس بس، ہم نے سوچ لیا ہے کہ اب یہاں نہیں رکنا، صبح ہوتے ہی پہلی گاڑی سے نکل جانا ہے۔‘‘
’’اچھا خمیسو بھائی، اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو چلے جانا، میری تو خواہش تھی کہ کچھ دن اور رک جاتے۔‘‘
’’تمہاری بڑی مہربانی، خدا تمہیں اور دے۔ میں ضرور رک جاتا، لیکن یہاں پر ہونے والی بدترین لوڈشیڈنگ نے مجھے واپس جانے پر مجبور کردیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے خمیسو بھائی تم آرام کرو، صبح ملاقات ہوگی۔‘‘
خمیسو بھائی تو اپنے جذبات کا اظہار کرکے صبح پہلی گاڑی سے ہی گوٹھ واپس چلے گئے لیکن مجھے سوچنے پر مجبور ضرور کر گئے کہ کراچی جیسا بین الاقوامی شہر لوڈشیڈنگ کے باعث کسی گوٹھ گاؤں سے بھی بدتر ہوچکا ہے، بلکہ صدیوں پرانا مائی کولاچی گوٹھ بن چکا ہے۔ کراچی شہر کے بارے میں جو کچھ بھی خمیسو بھائی نے کہا میرے دل پر تیر کی طرح پیوست ہے، لیکن میری مجبوری ہے کہ اُن کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ ظاہر ہے، حقائق تو یہی ہیں کہ کبھی گیس تو کبھی آئل کی کمی کے نام پر، یا پھر بجلی کی چوری کا بہانہ بناکر شہر کراچی میں بدترین لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، بلکہ بعض علاقوں میں تو کئی کئی گھنٹوں کے لیے تکنیکی خرابی کے نام پر بجلی کی فراہمی معطل کردی جاتی ہے، جس سے نہ صرف بجلی کا مصنوعی بحران پیدا کردیا جاتا ہے بلکہ پانی کا بحران بھی خوفناک حد تک جنم لے لیتا ہے۔ اِس مرتبہ بھی موسم گرم ہوتے ہی کراچی کے بیشتر علاقوں میں اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بے رحمی کے ساتھ جاری ہے، کئی علاقوں میں تو رات رات بھر بجلی بند کی جارہی ہے۔ لیاقت آباد، نارتھ کراچی، گلستان جوہر، نئی کراچی، کھارادر، لیاری، لاندھی،کورنگی، اورنگی ٹاؤن، ملیر، گلشن اقبال اور فیڈرل بی ایریا کے مختلف علاقوں سمیت پورے کراچی میں لوڈشیڈنگ کے سبب شہریوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے، درجہ حرارت38 سے 40 ہونے کے باوجود یہاں 9 سے 11 گھنٹے تک بجلی معطل رہتی ہے، جبکہ مسئلہ حل کرنے کے بجائے ’کے الیکٹرک‘ کی جانب سے شہریوں کو ایک پیغام بھیج دیا جاتا ہے کہ آپ کے علاقے کی بجلی فرنس آئل کی کمی یا مینٹی نینس کی وجہ سے بند رہے گی۔ یہاں کے رہنے والے رات دن اس عذاب سے گزر رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ سے بچے، خواتین، بزرگ اور بیمار سب پریشان ہیں۔ پہلے ہی لوگ کورونا وائرس کے باعث ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے انتہائی معاشی تنگی کا شکار ہیں، روزگار بند ہوچکے ہیں، اس پر اِس ادارے کی جانب سے اووربلنگ بھی کی جارہی ہے۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے! ایک تو بجلی نہیں، اوپر سے اضافی بلنگ… کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسی صورت میں عوام جائیں تو جائیں کہاں، کس سے فریاد کریں! نیپرا کی جانب سے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ اور زائد بلنگ پر ’کے الیکٹرک‘ کو جاری کردہ نوٹس کے بارے میں تو سنا تھا، لیکن کیا ہوا، کچھ نہیں۔ ایسے نہ جانے کتنے نوٹس اور کتنی باتیں ماضی میں ہوچکی ہیں، مگر اس ادارے کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔ نوازشریف دور میں بجلی کے بحران پر قابو پانے یا یوں کہیے کہ ملک سے بجلی کی قلت کو دورکرنے کے لیے خاصا کام کیا گیا۔ بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے کئی منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچے، جس سے ملک میں کئی کئی گھنٹے ہونے والی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا، لیکن اُس دور میں بھی ’کے الیکٹرک‘ کا قبلہ درست نہ ہوا۔ ملک سے بجلی کا بحران ختم کرنے والی نواز حکومت بھی اِس ادارے کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’کے الیکٹرک‘ ایک مافیا کی طرح لوگوں کی زندگی چھینتا جارہا ہے اور اسے پوچھنے اور سزا دینے والا کوئی نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ نہ جانے کتنے ہیٹ اسٹروک آئے، نہ جانے کتنی بارشیں برسیں جس میں درجنوں بے گناہوں اور معصوم عوام کی جانیں گئیں۔ نہ جانے کتنے لوگ اس مافیا کے ستم کا شکار ہوئے، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ مجھے یاد ہے بلکہ ہر شخص خوب جانتا ہے کہ گزشتہ سال کراچی میں مون سون بارشوں نے تباہی مچادی تھی اور دو ہفتے میں تقریباً 33 افراد کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہوئے تھے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، جب کہ کرنٹ لگنے سے کئی علاقوں میں قربانی کے جانور بھی ہلاک ہوئے، جس کے بعد ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف رجسٹرڈ ہونے والے کیسز کی تعداد 7 تک پہنچ گئی تھی۔ ’کے الیکٹرک‘ کی لاپروائی اور غیر ذمہ دارانہ طرزعمل نے نہ جانے کتنی ماؤں سے اُن کے لختِ جگر چھین لیے، کتنے معصوم بچوں سے ان کے ماں، باپ کا سایہ چھین لیا۔ اسی طرح 2015ء کے ہیٹ اسٹروک میں بھی کراچی کے عوام کو اسی ادارے کی نااہلی کے باعث شدید گرمی کے موسم میں ہزاروں لاشیں اٹھانی پڑی تھیں۔ اُس وقت بھی بجلی نہ ہونے کے باعث لوگ ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوئے تھے، اور صورتِ حال اس قدر خراب ہوگئی تھی کہ جنازے گھروں میں رکھنا ناممکن ہوگیا تھا اورکراچی کے شہریوں کو اپنے پیاروں کی لاشیں سرد خانوں میں رکھوانی پڑیں تھیں، یہاں تک کہ سرد خانوں میں بھی جگہ نہ تھی۔
’کے الیکٹرک‘ کا یہ بھی وتیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ہمیشہ بجلی کی بندش کا ذمہ دار گرم اور مرطوب موسم کو ٹھیراتا ہے، بجلی کی طلب و رسد کا رونا روتا ہے، جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ایک پڑھا لکھا شہری خوب سمجھتا ہے کہ ’کے الیکٹرک‘ ہمیشہ ایسی ہی باتیں کرکے لوگوں سے نہ صرف ناجائز طور سے پیسے بٹور رہا ہے بلکہ مال کمانے کے لالچ میں انسانی زندگیاں تک نگلتا جارہا ہے۔ یہ اتنا مضبوط مافیا ہے کہ ماضی میں اس محکمے نے سارے شہر سے تانبے کے تارے اتار کر اس کی جگہ انتہائی ناقص سلور کے تار نصب کردیے، یوں اعلیٰ قسم کے تانبے کی مد میں اربوں روپے کی ڈکیتی ماری گئی۔ عوام کی جیبوں پر اگلے مرحلے میں میٹر تبدیلی کے نام پر ڈاکا مارا گیا، اس طرح اربوں روپے مزید کمائے گئے۔ خالص تانبا کہاں گیا، اس کے پیسے کس کس کی جیبوں میں گئے؟ کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ نصب کیے گئے میٹروں کی رفتار کیا ہے، ان میں کیا خرابی ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایک بلب اور ایک پنکھا چلانے والے گھر میں پانچ ہزار سے سات ہزار کے درمیان بل بھیجا جاتا ہے، شکایت کرنے پر وہی پرانا گھسا پٹا جواب ’’یہ بل تو آپ کو ادا کرنا ہوگا‘‘ دیا جاتا ہے۔ اس محکمے نے لوگوں کو ناجائز طور پر اس قدر مقروض کردیا ہے کہ لوگ اپنے گھر تک بیچنے پر مجبور ہیں۔ ظاہر ہے بیس سے پچیس ہزار روپے ماہوار کمانے والا شخص کس طرح پانچ سے سات ہزار روپے کا ناجائز بل ادا کرسکتا ہے! یہی وہ ناانصافی اور ظلم ہے جو عوام کو ایسی راہ کی جانب دھکیل رہا ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا، یعنی تنگ آمد بجنگ آمد۔ ایسے حالات لوگوں کو انقلابی راستے پر گامزن کردیا کرتے ہیں، پھر ایسا انقلاب آتا ہے جو اپنے سامنے آنے والوں کو بہا کر لے جاتا ہے۔ ایسا انقلاب، جس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی قوت بھی نہ ٹھیر سکے۔ میرے نزدیک اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف سڑکوں پر آنا پڑے گا، اس غیر منصفانہ نظام کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی، ایسے ادارے کے خلاف تو ضرور نکلنا ہوگا کہ جب کورونا وائرس کے باعث حکومتِ سندھ کی جانب سے صارفین سے بجلی کے بل نہ لینے کا اعلان کیا گیا تو ’کے الیکٹرک‘ نے وزیراعلیٰ سندھ کی ہدایت کے باوجود غریب عوام سے بجلی کے تمام واجبات مع لیٹ فیس وصول کیے، یہاں تک کہ بھیجے گئے ناجائز بلوں کی 10 ماہ کی اقساط کرنے سے بھی انکار کردیا۔عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر اس ادارے میں ایسا کیا ہے، یا اس کے پیچھے ایسی کون سی طاقت کھڑی ہے جس کی بنیاد پر یہ ادارہ کسی کے کنٹرول میں نہیں؟اس بدترین صورتِ حال میں ملک کے حکمران محلوں میں سے جھانکنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کررہے۔مجھے لگتا ہے وہ وقت دور نہیں جب روشنیوں کے شہر کراچی کو اندھیروں میں ڈبو دینے والے ادارے ’کے الیکٹرک‘ سے عوام خودحساب لیں گے۔

حصہ