معروف شاعر و صحافی اختر سعیدی سے جسارت میگزین کی گفتگو
نثار احمد نثار
دبستانِ کراچی کے ادبی منظر نامے کی ایک اہم شخصیت اختر سعیدی محبتوں کے سفیر ہیں‘ وہ صحافت و شاعری کا معتبر حوالہ ہیں‘ وہ ینگ ویلفیئر کلچرل سوسائٹی کے پلیٹ فارم سے خدمتِ خلقِ خدا میں مصروف ہیں اس کے ساتھ ساتھ ادارۂ فکرِ نو کراچی کے تحت اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں‘ وہ ادبی پروگراموں کے بہترین منتظم ہیں۔ میرے نزدیک اختر سعیدی ان شعرا میں شامل ہیں جو سادے کاغذ پر بھی اصلاح دینے سے گریز نہیں کرتے۔ ان کے تین شعری مجموعے ’’چراغ جلنے تک‘‘ ’’فراق سے وصال تک‘‘ ’’ہوا‘ چراغ‘ آئینہ‘‘ منظر عام پر آچکے ہیں۔ آج کل ایک سہ ماہی رسالہ نکالنے کی تیاری کر رہے ہیں اس کے علاوہ وہ رائٹرز کلب کے نام سے ایک ادارہ ترتیب دے رہے ہیں جس کا بنیادی ڈھانچہ مکمل ہو چکا ہے۔ راقم الحروف نثار احمد نثار نے جسارت سنڈے میگزین کے لیے ان سے مکالمہ کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے تاہم یہ انٹرویو نامکمل ہے اس گفتگو میں ان کے فن اور شخصیت کے بہت سے پہلوئوں کا احاطہ نہیں ہو سکا۔ ان شاء اللہ آئندہ اس پر تفصیلی بات ہوگی۔
جسارت میگزین: اپنے حالاتِ زندگی اور خاندانی پس منظر کے حوالے سے کچھ فرمائیں؟
اختر سعیدی: ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی معاشی طور پر مستحکم ہو جاتا ہے تو وہ اپنے ماضی کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا۔ اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی بتانے سے گریز کرتا ہے‘ تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے پیغمبر اور اولیا بھی کڑی آزمائشوں سے گزرے۔ مجھے اپنا ماضی یاد کرکے تقویت ملتی ہے‘ عملی جدوجہد کے بعد ہی انسان کوئی مقام حاصل کرتا ہے‘ میرے حالاتِ زندگی‘ میری زندگ کا آئینہ ہیں۔ میرے آبا و اجداد کا تعلق ہندوستان کی ایک سابق مسلم ریاست ’’ٹونک‘‘ (راجستھان) سے ہے۔ میں 16 اکتوبر 1958ء کو سندھ کے ایک خوب صورت شہر ٹنڈو آدم میں پیدا ہوا۔ پرائمری کی تعلیم لانڈھی کے ایک اسکول میں حاصل کی‘ جہاں ڈاکٹر شاداب احسانی اور عزم بہزاد مرحوم میرے کلاس فیلو تھے۔ مجھے اپنے ان دوستوں کی دوستی پر فخر ہے۔ میں نے کراچی سے ’’سی گریڈ‘‘ میں میٹرک کیا۔ بعدازاں ادیب اردو فاضل اردو کے امتحانات بھی پاس کیے۔ اس کے بعد حالات کچھ ایسے ہوئے کہ تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ ابتدا میں ہمارے معاشی حالات بہت اچھے تھے‘ میٹرک تک بڑی پُر تعیش زندگی گزاری‘ والد صاحب نے ہماری ضروریات کا بہت خیال رکھا۔ انہوں نے تین چچائوں‘ تین بھائیوں اور تین بہنوں کی بڑی دھوم دھام سے شادیاں کیں‘ لیکن اس کے بعد گھر کو معاشی پریشانیوں نے گھیر لیا اور ہمیں بدترین آزمائشی دور سے گزرنا پڑا۔ اس دور میں بڑے بھائی ثروت سعیدی (مرحوم) روزنامہ جنگ سے وابستہ تھے‘ دو بڑے بھائی ملازمت کے لیے سرگرداں تھے کہ والد صاحب کو بھی ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا۔ میں اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں‘ میں نے اس وقت ملازمت کا سوچا بھی نہ تھا‘ انہی دنوں میری ایک چھوٹی بہن شدید بیمار ہوئی اور بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث انتقال کر گئی۔ والد صاحب کے پاس اس کے کفن کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میت سامنے رکھی تھی اور والد‘ والدہ دھاڑیں مر مار کر رو رہے تھے۔ ایک تو بچی کی موت کا غم‘ دوسرے اس کی تدفین کی فکر۔ بہرحال یہ مسئلہ میرے چچا لیاقت علی نیر نے حل کیا اور بہن کی تدفین عمل میں آئی‘ اس صورت حال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چنانچہ میںدوسرے ہی دن ملازمت کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ چار‘ پانچ روز کی تگ و دو کے بعد مجھے ’’نقش بندی مل‘‘ لانڈھی میں ’’پیون‘‘ کی ملازمت مل گئی جسے میں نے نعمتِ خداوندی سمجھتے ہوئے قبول کیا۔ ایک دن میں لیبر آفیسر کی میز صاف کر رہا تھا کہ ایک شناسا کی نظر مجھ پر پڑ گئی جو کسی کام سے وہاں آئے ہوئے تھے‘ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے‘ انہوں نے میری غیر موجودگی میں لیبر آفیسر کو میرے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتایا۔ چنانچہ دوسرے دن مجھے کلرکی پر لگا دیا گیا۔ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ جب لوگوں کو ذرا سی شہرت‘ عزت یا دولت مل جائے تو وہ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں‘ وہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم منہ میں سونے کا چمچہ لے پیدا ہوئے ہیں۔ میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ میرے والد نے بڑی محنت اور جدوجہد سے معاشرے میں اپنی جگہ بنائی‘ ان کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے اپنے معاشی حالات بہتر بنانے کے لیے ڈبل روٹی بیچی‘ پان کا خوانچہ لگایا‘ پرچون کی دکان کھولی‘ ریڑھی پر کپڑا بیچا‘ مزدوری کی‘ چائے کا کیبن لگایا‘ ایک یونانی دوا خانے میں نسخے باندھے اور ایک مل میں پیون بھی رہا۔ آج مجھے جو عزت اور شہرت ملی ہے وہ والدین کی خدمت اور ان کی دعائوں کا فیض جاریہ ہے‘ ورنہ میں کیا‘ مری بساط کیا۔
جسارت میگزین: وہ کیا محرکات تھے‘ جنہوں نے آپ کو شعر و ادب کی طرف متوجہ کیا؟
اختر سعیدی: یہ بات درست ہے کہ مجھے شاعری ورثے میں ملی ہے‘ میرے والد جوہر سعیدی کا نام ادبی دنیا کے لیے نیا نہیں‘ دادا سید سلامت سلامت بھی کہنہ مشق شاعر تھے۔ چچا لیاقت علی نیر اور بڑے بھائی ثروت سعیدی بھی شاعری میں جداگانہ آہنگ رکھتے تھے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن میں خود کیا ہوں‘ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب مجھے اپنی شاعری کے حوالے سے دینا ہوگا‘ صرف وراثت سے بات نہیں بنتی‘ آدمی کو اپنے زندہ رہنے کا جواز فراہم کرنا ہوتا ہے۔ میں اپنی شاعری کے حوالے سے کسی خوش گمانی یا احساسِ برتری میں مبتلا پہلے تھا نہ اب ہوں‘ مجھے اپنے ادبی قدوقامت کا بھی اندازہ ہے‘ مجھ جیسے بے مایہ اور کم عمل آدمی سے ’’بڑی شاعری‘‘ کی توقع رکھنا خام خیالی ثابت ہوگی۔ میں شاعری اپنے ذوق کی تسکین کے لیے کرتا ہوں اور بس۔ ’’چراغ جلنے تک‘‘ میری شاعری کا نقشِ اوّل تھا‘ جس کے ذریعے میں ادبی دنیا سے متعارف ہوا‘ دوسرا شعری مجموعہ ’’فراق سے وصال تک‘‘ تھا جب تیسرا مجموعہ کلام ہوا‘ چراغ‘ آئینہ ہے۔ میں 1970ء سے شاعری کر رہا ہوں لیکن آج بھی خود کو مبتدی سمجھتا ہوں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد میں نے اپنی شاعری پر کسی سے اصلاح نہیں لی اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں ’’فارغ الاصلاح‘‘ ہو گیا‘ انسان کو تمام زندگی طالب علم رہنا چاہیے‘ انسان کے لیے طالب علم ہونا ہی سب سے بڑا اعزاز ہے‘ کبھی کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے تو جناب ظفر محمد خان ظفر اور ڈاکٹر شاداب احسانی سے رجوع کر لیتا ہوں۔ اس سب کے باوجود میری شاعری میں غلطیوں اور خامیوں کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ شاعری الگ چیز ہے اور فن الگ چیز۔ میں اس کا قائل نہیں ہوں کہ شاعری پیچھے رہ جائے اور فن آگے چلا جائے‘ اس میں بھی توازن کی ضرورت ہے‘ مجھے اپنی شاعری پر نازہے اور نہ فن کا دعویٰ۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
اختر سعیدی: ہر شخص کا کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے‘ جو اس کی تحریروں اور گفتگو سے ظاہر ہو جاتا ہے‘ کچھ اپنے نظریے کو دوسروں پر تھونپنے کی کوشش کرتے ہیں‘ یہ روش غلط ہے‘ میرا نظریۂ ادب یہ ہے کہ ہر اچھے کام کو بلا تخصیص سراہا جائے۔ اگر آپ کو کسی کی تخلیق میں کوئی خامی نظر آئے تو اس کی نشاندہی اس انداز سے کی جائے کہ تخلیق کار اپنی ہتک محسوس نہیں کرے‘ سچائیوں کو فروغ دینا‘ نفرتوں کو ختم کرنا اور محبتوں کو عام کرنا میرا نظریۂ ادب ہے۔ میں نے جب خالد علیگ کا انٹرویو کیا توا نہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میں ان ترقی پسندوں میں سے نہیں ہوں کہ جماعت اسلامی کے کسی شخص کے گھر میں آگ لگ جائے تو میں تالیاں بجائوں‘ میری نگاہ میں انسانیت مقدم ہے‘ جو لوگ ایسا کرتے ہیں‘ میں انہیں ترقی پسند نہیں‘ روس پسند کہتا ہوں۔ خالد علیگ نظریاتی طور پر ترقی پسند تھے لیکن انہوں نے اپنے نظریات کو اپنی ذات تک محدود رکھا۔ ادب تخلیق کرنے والے کا تعلق‘ خواہ کسی بھی نظریے سے ہو‘ میں اسے اپنے قبیلے ہی کا فرد سمجھتا ہوں‘ کیوں کہ تمام لکھنے والے ایک ہی منزل کے مسافر ہیں‘ ہمیں اپنی سوچوں میں توازن پیدا کرنا چاہیے۔ میرا ترقی پسند تحریک یا نظریے سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا‘ بعض باتوں پر ان سے شدید اختلاف بھی ہے‘ لیکن میں ان بڑے ترقی پسند شاعروں‘ ادیبوں‘ صحافیوں اور دانشوروں کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہوں‘ جنہوں نے اردو ادب کو بہترین تخلیقات سے نوازا۔ میں اسلامی نظریات کے حامل ان قلم کاروں کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے لادینی نظریات پر مشتمل تحریروں کو رد کیا اور اسلامی ادب کے فروغ کے لیے عملی جدوجہد کی۔ اس حوالے سے مولانا ماہر القادری‘ نعیم صدیقی‘ اسد گیلانی‘ لالہ صحرائی‘ رحمان کیانی‘ حکیم سروسہارن پوری‘ اعجاز رحمانی اور مظفر احمد ہاشمی کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پروفیسر عنایت علی خان‘ قمر محمد خان‘ قیصر خان‘ جہانگیر خان‘ نظر فاطمی‘ نجیب ایوبی اور سہیل احمد جمال بھی ادبی دنیا میں اسلامی فکر کے نمائندے ہیں‘ ایک زمانے میں ’’حلقۂ ادب اسلامی‘‘ بہت فعال تھا‘ اس کے مولانا ماہر القادری کی قیادت میں ’’ادارۂ تعمیر ادب‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی‘ مولانا ماہر القادری کی وفات کے بعد اداۂ تعمیر ادب پاکستان کو مظفر احمد ہاشمی اور حکیم مجاہد محمود برکاتی نے نہایت مؤثر انداز میں چلایا‘ حلقۂ ادب اسلامی‘ پہلے ہی جمود کا شکار ہو گیا تھا‘ مظفر احمد ہاشمی اور حکیم مجاہد محمود برکاتی کے بعد اب یہ ادارہ بھی قصۂ پارینہ ہوتا جارہا ہے۔ ان دونوں اداوں کو دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ادب کے فروغ کے حوالے سے جمعیت الفلاح کراچی کی خدمات لائق تحسین ہی نہیں قابل تحسین بھی ہیں۔ قمر محمد خان اور قیصر خان اس ادارے کو فعال رکھے ہوئے ہیں۔ دیگر سرگرمیوں کے علاوہ مشاعروں اور ادبی موضوعات پر نشستوں کا اہتمام کرنا‘ ان کے منشور کا حصہ ہیں۔
جسارت میگزین: کیا کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت صحافت کو ذریعۂ معاش بنایا؟
اختر سعیدی: مجھے لکھنے‘ پڑھنے کا ابتدا ہی سے شوق تھا‘ ادبی نشستوں کی روداد لکھ کر‘ مختلف اخبارات میں اشاعت کے لیے بھیجا کرتا تھا‘ جہاں وہ رپورٹس میرے نام سے آتیں تو میں بہت خوش ہوتا تھا‘ اس دوران اخبارات کے ادبی صفحات میرے مطالعے میں رہتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے علاوہ تمام اخبارات کے ادبی ایڈیشنوں میں ادبی سرگرمیوں پر مشتمل ایک کالم ضرور آتا ہے‘ چنانچہ میں نے اس وقت کے مدیر جسارت جناب محمد صلاح الدین صاحب کو ایک خط لکھا‘ جس میں اُن سے درخواست کی گئی تھی کہ مجھے جسارت کے ادبی ایڈیشن میں ہفتہ وار ادبی کالم لکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ انہوں نے مجھے اجازت دے دی‘ اس طرح میں نے ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کے عنوان سے تقریباً چار برس تک کراچی کی علمی و ادبی سرگرمیوں پر مشتمل ہفت روزہ کالم لکھا جس سے کراچی کے ادبی حلقوں میں میری شناخت ہوئی اور مجھے ادبی محافل میں بلایا جانے لگا۔ میں 1976ء میں روزنامہ جسارت سے باقاعدہ وابستہ ہو گیا تھا‘ مجھے ایک ماہ بعد ریگولر کر دیا گیا‘ اس طرح میں نے پانچ سال جسارت کے میگزین سیکشن میں گزارے۔ اس وقت جسارت کا میگزین سیکشن آرام باغ پر ہمدرد دوا خانے کی گلی میں ہوا کرتا تھا‘ میں ملازمت کے ساتھ ساتھ کالم بھی لکھتا رہا‘ لیکن بعد میںیہ کالم پروفیسر علی حیدر ملک کو دے دیا گیا‘ ممکن ہے اس میں بھی کوئی مصلحت ہو‘ ان دنوں ادبی صفحے کے انچارج ڈاکٹر معین الدین عقیل تھے‘1981ء میں جسارت بحران کا شکار ہوا‘ دیگر لوگوں کے ساتھ مجھے بھی فارغ کر دیا گیا‘ بے روزگاری بھی کیا بلا ہے‘ خدا کسی کو اس عذاب میں مبتلا نہ کرے‘ ایک ماہ بڑی کسمپرسی میں گزارے۔ پھر جناب محمد صلاح الدین کی سفارش پر مجھے روزنامہ حریت میں ملازمت مل گئی‘ جہاں جناب رسا چغتائی‘ جناب عبدالرئوف عروج‘ جناب غلام محی الدین اور جناب طاہر حبیب کی رفاقت میں ایک سال بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ گزرا۔ 28 نومبر 1982ء کو میں روزنامہ جنگ کراچی سے منسلک ہوا‘ یہ میری خوش بختی تھی کہ مجھے 90 دن میں ریگولر کر دیا گیا‘ میں اپنی زندگی کے 36 برس روزنامہ جنگ کے میگزین سیکشن میں گزارنے کے بعد 31 دسمبر 2016ء کو ریٹائر ہوگیا‘ ان دنوں بے روزگار ہوں‘ جب میں میگزین میں گیا تو اس وقت میگزین ایڈیٹر شفیع عقیل تھے‘ ان کے بعد یکے بعد دیگرے جناب محمود شام‘ جناب نذیر لغاری‘ جناب نظام صدیقی‘ جناب محمد زمان خان‘ مرزا سلیم بیگ بھی میگزین ایڈیٹر رہے۔ میں نے ان سب سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ جناب نذیر لغاری نے اپنے دور میں کچھ ادبی صحفات بھی ترتیب دلوائے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دن نہ چل سکا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں نے جناب نذیر لغاری کے ساتھ بھی کچھ پینل انٹرویو کیے۔ جناب نظام صدیقی نے بھی کوشش کی کہ میں پروف ریڈنگ کے بجائے ادبی صفحات مرتب کروں‘ پروفیسر جاذب قریشی کے جانے کے بعد انہوں نے مجھے ایک موقع بھی دیا‘ پھر جناب منظر امکانی کو ادبی صفحے کی ذمے داریاں سونپ دی گئیں‘ ان کے ساتھ بھی میں نے کئی اہم انٹرویوز کیے جو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ منظر امکانی کی شہادت کے بعد اُس وقت کے میگزین ایڈیٹر جناب احفاظ الرحمن نے مجھے حکم دیا کہ آپ پروف ریڈنگ کے ساتھ ساتھ ادبی صفحہ بھی مرتب کریں۔ چنانچہ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر انہوں نے مجھے پروف ریڈنگ کی ذمے داری سے سبکدوش کر دیا‘ اس کے بعد میں پوری یکسوئی کے ساتھ ادبی صفحات کی نشوونما میں لگ گیا۔ تین سال بعد اس وقت جنگ کے گروپ ایڈیٹر جناب محمو شام اور جناب احفاظ الرحمن کی ذاتی کوششوں سے مجھے سب ایڈیٹر بنا دیا گیا‘ میں یہ اعتراف کرنے میں فخر محسوس کر رہا ہوں کہ جناب محمود شام نے مجھے آگے بڑھنے کے مسلسل مواقع فراہم کیی‘ مجھے حوصلہ بھی دیا اور ساتھ ہی سرپرستی بھی کی۔ جناب احفاظ الرحمن کی دس سالہ رفاقت میری زندگی کا اہم ترین دور ہے‘ میں نے ان سے زبان سیکھی‘ نثر نگاری کے اصولوں سے آگاہ ہوا‘ صحافتی اقدار کو بھی پہچانا‘ اب ایسے ہمہ جہت اور بااصول لوگ خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں‘ خدا ان کی مغفرت فرمائے‘ آمین۔ سابق میگزین ایڈیٹر جنگ جناب غلام محی الدین بھی میرے لیے استاد کا درجہ رکھتے ہیں‘ ان سے پہلے بھی سیکھا اور اب بھی سیکھ رہا ہوں‘ فیچر کیسے تیار کیا جاتا ہے‘ اس میں کن کن چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہی‘ میرے قلم میں یہ وصف ان کہی کا ودیعت کردہ ہے۔ میں نے جنگ کراچی کے مڈویک میگزین کے لیے دنیائے ادب کی تقریباً 480 علمی و ادبی شخصیات کے انٹرویوز کیے ہیں جن میں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے ادیب‘ شاعر اور دانشور بھی شامل ہیں۔ میں نے 180 انٹرویز کو کتابی صورت دینے کا فیصلہ کیا ہے‘ تمام انٹرویوز کو ایک کتاب میں سمونا ایک دشوار گزار مرحلہ تھا‘ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کتاب کو تین جلدوں میں لایا جائے‘ اس کتاب پہلا حصہ ’’دنیائے سخن کے تابندہ ستارے‘‘ کے نام سے بہت جلد منظر عام پر آجائے گا جسے میرے محسنِ دیرینہ‘ ملک کے معروف شاعر‘ ادیب و دانشور نازش حیدری دہلوی‘ جناب ظفر محمد خان ظفر اپنے ادارے ’’دبستان غزل‘‘ کراچی کی جانب سے شائع کر رہے ہیں‘ بقیہ دو حصے بھی کسی نہ کسی کے تعاون سے شائع ہو ہی جائیں گے‘ امید پر دنیا قائم ہے۔
جنگ کے حوالے سے مجھے جو عزت اور شہرت ملی‘ اسے میں کیسے نظر انداز کر سکتا ہوں‘ لیکن میں نے اس حوالے کو کبھی ذاتی منعفت کا ذریعہ نہیں بنایا‘ اس شہر کا کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کسی مشاعرے میں اپنا نام شامل کرانے کے لیے کبھی کسی کو فون کیا‘ یا منتظمینِ مشاعرہ کی خدمت میں ’’سفارشی پرچی‘‘ لے کر گیا‘ میرا نظریہ ہے کہ تمام عہدے اور مناصب عارضی ہوتے ہیں۔ فرد‘ معاشرے میں اپنے اچھے رویوں اور تخلیقی قوت کے حوالے سے زندہ رہتا ہے‘ صحافت میرا ذریعہ معاش ہے‘ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میری تخلیقات میری شناخت بنیں۔ میرے والد گرامی جوہر سعیدی کا شمار اساتذۂ فن میں ہوتا تھا‘ وہ گوشہ گیر ضرور تھے لیکن غیر معروف نہیں تھے‘ ان کی زندگی میں ’’ساکنانِ شہر قائد‘‘ کے سات عالمی مشاعرے ہوئے لیکن انہیں ایک میں بھی مدعو نہیں کیا گیا‘ لیکن جس سال مجھے روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کا انچارج بنایا گیا‘ اسی سال مجھے عالمی مشاعرے میں مدعو کر لیا گیا۔ شاعر تو میں اس سے پہلے بھی تھا‘ لیکن اتنے عرصے تک مجھے کیوں نظر انداز کیا گیا؟ یہ سوال اپنے اندر گہری معنویت رکھتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ فن سے زیادہ عہدے کی اہمیت ہتی ہے۔ گویا شاعر اختر سعیدی سے صحافی اختر سعیدی زیادہ اہم ہوا‘ میں اس روش کو منافقانہ رویے سے تعبیر کرتا ہوں۔
جسارت میگزین: کتاب سے دوری کا بنیادی سبب کیا ہے؟
اختر سعیدی: عموماً کہا جاتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی برق رفتاری‘ کتاب سے دوری کا بنیادی سبب ہے‘ میرے نزدیک یہ ایک مفروضہ ہے‘ حقیقت اس کے برعکس ہے‘ کتاب کے شائقین پہلے بھی تھے‘ آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ مغربی ممالک میں آج بھی تخلیق اور تخلیق کار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے‘ وہاں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں شائع ہوتی ہیں اور ان کو فروخت کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ بعض کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں صرف چند شاعروں اور ادیبوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ پہلے ایک ہزار کتابیں شائع کی جاتی تھیں‘ اب پانچ سو کتابیں بھی زیادہ لگتی ہیں۔ ہر کتاب فروخت بھی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں اعزازی کاپیاں لینے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر اتفاق سے کوئی شاعر یا ادیب کسی بڑے عہدے پر فائز ہو تو اس کی کتاب تعلقات کی بنیاد پر فروخت ہو جاتی ہے اگر دس افراد نے سو‘ سو کتابیں خرید لیں وہ رائٹر یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ میری کتاب بازار میں دستیاب نہیں۔ پھر دوسرا ایڈیشن بھی اسی طرح ختم ہو جاتا ہے‘ بازار تک نہیں پہنچ پاتا۔ ایسے لوگوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ کتابوںکی دکان پر ہماری کتابوں کا کیا حشر ہوگا۔ بعض رائٹرز کی کتابیں برسوں سے دکانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں اور اتنی شفاف حالت میں ہیں کہ ان پر نئی کتابوںکا گمان ہوتا ہے‘ اگر ان کو ہاتھ لگایا جائے تو ان کی نفاست کو‘ خطرہ لاحق ہو سکتا۔ ہمارے ملک میں مقبول شاعروں اور ادیبوں کی بڑی تعداد موجود ہے اکثر شعرا کو تو شاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی کتابیں بھی برسوں سے اپنے قارئین کے انتظار میں محو استراحت ہیں۔
جسارت میگزین: پہلے کی ادبی روایات اور آج کی ادبی روایات میں آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
اختر سعیدی: پہلے مشاعرے کا صرف ایک صدر ہوتا تھا‘ اب مجلس صدارت ہوتی ہے‘ یہ کوئی اعتراض نہیں‘ نظریہ ضرورت کے تحت‘ کوئی بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ پہلے صدر با اختیار ہوا کرتا تھا‘ مشاعرے میں پیدا ہونے والی اچھائیوں اور برائیوں پر اس کی نظر ہوتی ہوتی تھی‘ آج کا صدر بے بس ہے‘ وہ کسی کی ناراضی مول لینا نہیں چاہتا‘ خاموشی ہی میں بہتری سمجھتا ہے‘ وہ یہ جانتا ہے کہ اگر میں نے کسی غلط بات کی نشاندہی کر دی تو آئندہ مجھے اس سعادت سے محروم کر دیا جائے گا‘ پہلے صدر مشاعرہ کے لیے ضروری تھا کہ وہ خطبہ صدارت پیش کرے لیکن اب یہ روایت بھی آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہے۔ غالباً 1981ء کی بات ہے‘ ناظم آباد میں حضرت تابش دہلوی کی صدارت میں مشاعرہ تھا‘ جس میںشعرا کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تابش دہلوی نے ناظم مشاعرہ سے اعلان کروایا کہ شعرا صرف ایک غزل سنائیں تاکہ مشاعرہ طوالت اختیار نہ کرے‘ پابندی کے باوجود ایک شاعر نے ایک کے بعد دوسری غزل شروع کردی لیکن تابش صاحب نے اسے سختی سے روک دیا۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے اپنی غزل کے صرف پانچ اشعار سنائے‘ سامعین اور منتظمین کے بے حد اصرار کے باوجود انہوں نے دوسری غزل نہیں سنائی۔ صدر مشاعرہ کو اتنا سخت اور با اختیار ہونا چاہیے۔ آج کے صدور زیادہ پڑھنے والوں کو اس لیے بھی نہیں روکتے کہ آخر میں انہیں بھی دو‘ تین غزلیں سنانا ہوتی ہیں۔
ایک زمانے میں ترنم والے شعرا کو مشاعروں کی جان تصور کیا جاتا تھا۔ اب مشاعرہ پرفارمنگ آرٹ بن گیا ہے۔ بڑے مشاعروں میں شاعری نہیں دیکھی جاتی‘ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون سا شاعر کس آہنگ میں غزل سرا ہے‘ اکثر شعرا کلام سناتے وقت ہاتھ‘ پیر اس طرح چلاتے ہیں جیسے کسی سے لڑ رہے ہوں۔ پہلے بیٹھ کر مشاعرہ پڑھنا ایک تہذیب تھی لیکن اب روسٹرم پر کلام سنانے کی روایت زور پڑ رہی ہے۔ پہلے اسٹیج پر شعرا کے لیے گائو تکیے لگائے جاتے تھے‘ اب ان کی جگہ کرسیوں نے لے لی ہے۔ لیکن ایسا عموماً مجبوری کے عالم میں کیا جاتا ہے۔ بعض بزرگ شعرا کے گھٹنے اب اس قابل نہیں رہے کہ وہ فرش یا تخت پر بیٹھ کر مشاعرہ سماعت کریں۔ پہلے فرشی نشست ہوا کرتی تھی‘ جس سے مشاعرے کی فضا میں چار چاند لگ جایا کرتے تھے لیکن اب سامعین کے لیے بھی کرسیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال سے مشاعروںکا استحقاق مجروح ہوا ہے‘ کرسیاں لگنے کے بعد مشاعرہ گاہ‘ جلسہ گاہ معلوم ہوتی ہے۔ پہلے ادبی تقریبات میں میزبان کو سب سے پہلے خطبۂ استقبالیہ کے لیے مدعو کیا جاتا تھا‘ اب میزبان صدارتی خطاب کے بعد اظہار تشکر کے نام پر اتنی طویل گفتگو کرتا ہے کہ سامعین تالیاں بجانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل صاحب صدر کی سراسر توہین ہے۔ پچھلے زمانے میں صدر کے بعد کسی کو ایک حرف بولنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ بعض روایات اتنی مستحکم اور خوب صورت ہیں کہ انہیں جاری رکھنے کو جی چاہتا ہے لیکن افسوس‘ صد افسوس اب ہماری اچھی روایات کو کہنہ روایات کہہ کر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ہماری نئی نسل کو کیا معلوم کہ قدیم ادبی روایات کیا ہیں‘ وہ تو آج جو منظر نامہ دیکھ رہی ہے‘ اس کو محو زندگی بنائے گی۔