سلیم احمد
سچا شاعر ہمیشہ ایک ایسے آدمی کی طرح ہوتا ہے جو طوفان میں گھرا ہوا ہو، اس کی کشتی ٹوٹ چکی ہو اور تیرنے کے سہارے کے لیے ایک تختہ بھی نہ ہو۔ کوہ پیکر موجیں اس کے وجود کو اُتھل پتھل کر رہی ہوں اور وہ اپنے جسم و روح کی ساری قوتوں کے ساتھ گردابِ فنا سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہو۔ شاعری طوفانِ وجود سے لڑنے کا نام ہے۔ لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی نے شاعر کی اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:شبِ تاریک و بیمِ موج و گردابِ چنیں حائل کی جا دانند حالِ ما سبک سارانِ ساحل ہاعام آدمی شاعر سے اس لیے مختلف ہوتا ہے کہ وہ ساحل کے حصارِ عافیت میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کی زندگی اُتھلی، پُرسکون اور پایاب ہوتی ہے۔ وہ طوفان سے ناآشنا ہوتا ہے اور اس لیے کبھی اپنے وجود کی گہرائیوں میں نہیں اُتر سکتا۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ زمین کبھی اُبلتا ہوا لاوا تھی، پھر ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی اور ٹھنڈی ہوکر اس کی سطح منجمد ہوگئی۔ لیکن زمین کی تہ میں ابھی تک گرم گرم اُبلتا ہوا لاوا موجود ہے اور جب کبھی وہ جوش مارتا ہے تو زلزلہ آجاتا ہے۔ شاعری انسانی وجود کے اسی زلزلے سے پیدا ہوتی ہے۔
عام آدمی اپنے وجود کی اس تہ سے ناواقف ہوتا ہے اور ٹھنڈی اور مردہ زمین پر کاہلی سے چلتا پھرتا رہتا ہے۔ بودلیئر نے کہا تھا کہ خوف و خطر سے بے نیاز ہوکر قعرِ عمیق میں کود پڑو۔ اقبال نے کہا ہے:خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردےغالبؔ کہتا ہے:دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ یہ سب سچے شاعر کے اسی تجربے کے ناتمام بیانات ہیں۔ میں اس مضمون میں اقبال کی شاعری کو اسی نقطئہ نظر سے دیکھوں گا اور کوشش کروں گا کہ ان کیش اعرانہ تجربے کی اس محصوص نوعیت کو آپ کے سامنے پیش کروں جس کے بغیر اقبال فلسفی، متکلم، سیاسی مفکر،ماہراقتصادیات سب کچھ ہوسکتے تھے، شاعر نہیںہوسکتے تھے۔اقبال کی شاعری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فکر کی شاعری ہے۔ مداح اسے اقبال کی تعریف سمجھتے ہیں لیکن مخالفت اسی بات کا سہارا لے کر ان پر فلسفہ موزوں کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ دونوں نقطہ ہائے نظر اقبال تک، اُس اقبال تک جو اوّل و آخر شاعر تھا، نارسائی کا نتیجہ ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اقبال نے، جو بقولِ خود اقبال سے آگاہ نہیں تھا، اس نارسائی کو محکم کرنے میں مدد دی ہے۔ اقبال جب اپنے شاعرانہ ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو اس سے ان کے سطحی مداحوں اور بے تہ مفسروں کو اقبال کی اُس توہین کا موقع ملتا ہے جو ہمیشہ ایک ابلہانہ تعریف کے رنگ میں اپنی تہذیب دشمنی کا اظہار کرتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شاعرانہ تجربے کی ایک نوعیت ایسی بھی ہے جہاں شاعر اپنے وجودکی اُن گہرائیوں سے آشنا ہوتا ہے جن کے سامنے اظہار کی ساری قوتیں پیچ معلوم ہوتی ہیں۔ اور چونکہ شاعری تجربے اور اظہار کا ایک پیچیدہ مرکب ہے، اس لیے شاعر کبھی کبھی اپنے شاعر ہونے سے منکر بھی ہوجاتے ہیں۔ مثلاً میرؔ جیسے سراپا شاعر نے بھی کہہ رکھا ہے کہ:ہم کو شاعر نہ ہو میرؔ کہ صاحب ہم نےدرد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیایہ شاعری کا انکار نہیں ہے، ورائے شاعری اس ’’چیزے دگر‘‘ کا اقرار ہے جو شاعرانہ تجربے ہی کا ایک حصہ ہے۔ اقبال کے شاعر ہونے سے انکار کے نتیجے کے طور پر ہم اقبال کے زندہ تجربات کو، اُن تجربات کو جو اُس کے وجود کی گہرائیوں سے پیدا ہوئے تھے اور اس کے خونِ گرم کا ایک حصہ تھے، بنے بنائے نام نہاد خیالات کی صورت میں دیکھتے ہیںاور ہم میں سے بعض اس تحقیق پر خوش ہوجاتے ہیں کہ اقبال نے یہ خیالات کہاں سے اُڑائے ہیں۔تمہید طویل ہوتی جا رہی ہے، اس لیے آیئے اپنے موضوع کا آغاز کریں۔
میرے سامنے بنیادی سوال صرف ایک ہے:
اقبال کے باطن میں اقبال کی شاعری کا سرچشمہ کہاں ہے؟ یعنی وہ کون سا مرکزی مسئلہ ہے جس سے ان کے وجود میں وہ طوفان یا زلزلہ پیدا ہوتا ہے جو اُن کی شاعری کی بنیاد ہے۔ اس مسئلے کے ساتھ ہم تجربات کے اُس پورے نظام کو بھی دیکھیں گے جو طوفان کی چھوٹی بڑی موجوں کی طرح اقبال کے پورے شعری تجربے کی تشکیل کرتا ہے۔ اقبال کے مسائل کا سوال اُٹھا ہے تو کچھ لوگ ’’زندگی‘‘ کا نام لیں گے، کچھ ’’خودی‘‘ کا، کچھ ’’عشق‘‘ کا، کچھ ’’حرکت و عمل‘‘ کا، کچھ ’’قوت‘‘ کا اور میں ان سے انکار نہیں کروں گا۔ بظاہر یہ اقبال کے موضوعات بھی ہیں اور مسائل بھی۔ لیکن دراصل میں نے جس مسئلے کے بارے میں استفسار کیا تھا، وہ کچھ اور تھا۔ طوفان میں گھرا ہوا آدمی کیا کرتا ہے؟ تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں مارتا ہے اور مثل مشہور ہے کہ ڈوبنے کو تنکے کا سہارا۔ اقبال کے یہ موضوعات، جن کا ابھی ذکر ہوا ہے، اقبال کے وہ سہارے ہیں جن سے وہ طوفان میں تحفظ تلاش کرتے ہیں۔ میرا سوال ان سہاروں کے بارے میں نہیں بلکہ اس طوفان کے بارےمیں ہے جس سے اقبال کی شاعری اور اس کے یہ موضوعات پیدا ہوتے ہیں۔ اپنی بات کی مزید وضاحت کے لیے میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔محمد حسن عسکری نے کسی جگہ لکھا ہے کہ میرؔ کا مرکزی مسئلہ ’’دنیا‘‘ ہے اور حالیؔ کا ’’دنیاداری۔‘‘ حالی کو فی الحال چھوڑیے، لیکن میرؔ کے مخصوص تجربات کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ وہ دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گئے تھے۔ ان کا اپنے ماحول، انسانوں اور روزمرہ زندگی کے واقعات و حوادث سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا تھا، اس لیے ان کے وجود کی سب سے بڑی ضرورت دنیا سے اس ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ جوڑنا تھا۔ ان کی روح کا یہی تقاضا ان کی شاعری کی اساس ہے۔ میرؔ اپنے اس مسئلے کے ساتھ جب شاعری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس سے میرؔ کی وہ مخصوص کائنات پیدا ہوتی ہے جو کارگہِ شیشہ گراں سے بھی نازک ہے اور میرؔ نے اس کائنات کی تخلیق صرف اپنے خیالات کے ذریعے نہیں کی ہے بلکہ ان کی شاعری کی فضا، لب و لہجہ، اسلوب، یہاں تک کہ زبان کا استعمال تک اس کی تخلیق میں حصہ لیتا ہے۔ اس کے مقابلے میں غالبؔ کی شاعری کا مرکزی مسئلہ خود ان کی ذات ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ غالب دنیا میں اتنے جذب ہوگئے تھے کہ دنیا ان کی ذات کے لیے ایک خطرہ بن گئی تھی۔ اس لیے میرؔ کے برعکس غالب کا مسئلہ دنیا سے رشتہ جوڑنا نہیں بلکہ توڑتا ہے:اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہوآگہی گر نہیں غفلت ہی سہی میرؔ کی طرح غالبؔ کے وجود کی یہ ضرورت بھی ان کی کائناتِ شاعری کے ذرّے ذرّے میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے اسلوب تک میں اپنے آپ کو دنیا سے الگ کرلیتے ہیں۔ میں میر انیسؔ کے بارے میں ایک جگہ لکھ چکا ہوں کہ ان کی شاعری کا مرکزی مسئلہ انسانی رشتے ہیں۔ میر انیسؔ نے انسانی رشتوں کو اپنے وجود میں اس طرح زندہ کیا ہے کہ ان کی پوری شاعری ان کے احساس سے ایک دھڑکتے ہوئے دل کی طرح، لیکن میر انیسؔ انسانی رشتوں کی یہ شاعری اس لیے کرسکے کہ ان کی روح کا سب سے بڑا احساس انھی رشتوں کی ناپائیداری ہے۔ اتنا کافی ہے۔ ان مثالوں سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ ہر سچا شاعر اپنے وجود کے طوفانی مسئلے سے دوچار ہوکر اس مسئلے کو اس طرح حل کرنا چاہتا ہے جس طرح طوفان میں ڈوبتا ہوا آدمی کوئی سہارا تلاش کرتا ہے۔ ان معنوں میں اقبال کا مرکزی مسئلہ نہ خودی ہے، نہ عشق، نہ عمل، نہ قوت و حرکت، بلکہ ان سب کے برعکس موت ہے:اوّل و آخر فا، باطن و ظاہر فنانقشِ کہن ہو کہ نو، منزلِ آخر فناموت اقبال کا مرکزی مسئلہ ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو ان کے وجود کو اُس زلزلے سے دوچار کرتا ہے جس سے ان کا پورا وجود متحرک ہوجاتا ہے۔ یہی ان کے شعری تجربے کی وہ بنیاد ہے جس سے اقبال کی مخصوص کائناتِ شعری پیدا ہوتی ہے۔ اس بات کو پہلے ذرا سطحی طور پر یوں دیکھیے کہ صرف ’’بانگِ درا‘‘ میں کم از کم تین نظمیں ایسی ہیں جن کا موضوع ہی موت ہے۔ ’’گورستانِ شاہی‘‘، ’’عشق اور موت‘‘ اور ’’والدۂ مرحومہ کی یاد میں۔‘‘ اس کے علاوہ کئی دوسری نظموں میں بھی ضمنی طور پر یہ مسئلہ درمیان میں آگیا ہے۔ ’’بالِ جبریل‘‘ میں دو بڑی نظمیں جو یقینا اقبال کی بہترین اردو نظمیں بھی ہیں، اسی مسئلے سے متعلق ہیں، یعنی ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’مسجدِقرطبہ۔‘‘ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ میں موت کا جواب عشق سے دیا گیا ہے اور ’’ساقی نامہ‘‘ میں خود زندگی موت کی گھات میں دکھائی دیتی ہے۔ (جاری ہے)۔