افضال صدیقی
وہ علم دانش کا اِک جہاں تھا
عظیم جذبوں کا پاسباں تھا
فصاحتوں کا رواں سمندر
بلاغتوں کا وہ آسماں تھا
بیاں کرے تو کمال کر دے
مجال کس کی سوال کر دے
مباحثوں میں‘ مذاکروں میں
بڑے بڑوں کو نڈھال کر دے
اجالا افکار کا منور
منارہ کردار کا منور
زبانِ اردو کا ناز تھا وہ
اُفق تھا معیار کا منور
دہن پہ الفاظ کا چنائو
کہ جیسے لہروں کا ہو بہائو
وہ اہلِ حق کے دلوں میں اترے
لگائے باطل کو سیدھے گھائو
وہ اپنی قد کا ٹھ میں ہمالہ
بہادری کا نڈر حوالہ
اٹھا ہے افضال اک مجاہد
نہ ہو سکے گا کبھی ازالہ