صائمہ عبد الواحد
میری نظر میں کورونا کسی عذاب سے کم نہیں، جس میں ہر فرد اپنے گناہوں کے حساب سے گرفتار ہے۔ وزیر تعلیم نے لاک ڈاؤن سے قبل ہی تعلیمی ادارے بند کرکے بچوں کو گھر میں مقید کردیا تھا، جیسے ہی لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تمام مارکیٹیں، شاپنگ مال اور دفاتر بند کردیے گئے کہ جتنا سوشل یعنی فزیکل ڈسٹینس ہوگا اتنا کورونا پھیلنے کا خطرہ کم ہوگا۔ ٹی وی پر کورونا کے بڑھنے کی خبریں لگاتار آتی رہیں۔ بازار کھلے تھے جہاں ایس او پیز کی دھجیاں بکھیری جا رہی تھیں۔ تمام چینلز سے یہ ہدایات جاری کی جارہی تھیں کہ سوشل یعنی فزیکل ڈسٹینس رکھنا ضروری ہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ لفظ سوشل ڈسٹینس کی جگہ فزیکل ڈسٹینس استعمال کرنے کی کیا وجہ ہے؟
وجہ صرف اتنی ہی ہے کہ ہمیں کورونا کے حالات میں انسانیت نہیں بھولنی، اور نہ ہی کورونا کے سبب آپس کے تعلقات توڑنے ہیں… صرف اور صرف اپنا آپ دوسرے خاندان کے فرد سے دور رکھنا تھا، مگر سوشل ڈسٹینسنگ کا لفظ استعمال کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے، ہر شخص نفسا نفسی کا شکار نظر آیا۔ عوام کے معاش پر چوٹ پڑی تو سب سے پہلے اپنی فیملی کی بھوک کی فکر ہونے لگی۔ کراچی میں بڑے پیمانے پر راشن کی تقسیم ہوئی مگر یہ دیکھنے میں آیا کہ ایک خاندان سے دس لوگوں نے راشن وصول کیے اور دوسرے لوگوں کا حق مارا۔
معاملہ کچھ آگے بڑھا اور حکومت نے معاشی بدحالی کا رونا روتے ہوئے نجی دفاتر کھولنے کی اجازت دے دی۔ ٹیکسٹائل ملز، فارماسیوٹیکل کمپنیاں اور مختلف ادارے کھولے گئے، مگر بازار اور شاپنگ مال نہیں کھولے گئے کہ ان سے کورونا کے پھیلنے کا خدشہ زیادہ تھا۔
رمضان کے دوسرے عشرے میں بازار ہفتے میں چار دن کھولنے کی اجازت دی گئی، مگر 21 رمضان کو نکلنے والے جلوس کے باعث کورونا ایک سائیڈ رہ گیا۔ کون سی ایس او پی اور کیسی ایس او پی…! عید سے ایک دن قبل بازار کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے اور کورونا ان سے دور کسی کونے میں آرام فرما رہا تھا کہ عید کے بعد تو اسے نکلنا ہی ہے۔ جیسے ہی عید کے ایام ختم ہوئے پھر سے کورونا کا رولا ڈالا گیا، کیوں کہ یہ خبر منظرعام پر آئے بغیر عوام الناس نے محسوس کی کہ تین مہینے مزید کورونا کے نام پر عوام کو بلیک میل کیا جائے گا، پھر محرم الحرام کے مہینے میں کورونا دوبارہ غائب ہوجائے گا۔
عید کے بعد صوبے بھر میں، خصوصاً کراچی میں، کورونا کے باعث صبح آٹھ سے شام سات بجے تک کی چھوٹ دی گئی، مگر اکثر علاقے رات ایک بجے تک کھلے نظر آئے۔
عید کے بعد کورونا کے کیسز میں تیزی دیکھی گئی اور کورونا نچلی سطح پر پھیلنا شروع ہوگیا، اور اس دوران حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ تمام سہولیات ٹی وی اور میڈیا پر دکھائی گئیں، عوام الناس کو اس کے کوئی فوائد نہ ملے۔ اب یہ حال ہوگیا کہ ڈاکٹر مشورہ دینے لگے کہ اگر آپ کو کورونا کی علامات ہیں تو گھر پر ہی کورنٹائن ہوجائیں۔
اسی دوران بہت سی چیزوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس عرصے میں بھائی کی اہلیہ کو پیٹ کے درد کے باعث اسپتال لے جانا پڑا۔ اسپتال کو اندر سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اسپتال کا اندرونی عملہ کسی بھی ایس او پی کو فالو نہیں کررہا تھا، اور پھر رونا اس بات کا کہ ہمارے ڈاکٹرز کی جان خطرے میں ہے، پیرا میڈیکل اسٹاف اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کررہا ہے۔
اسی عرصے میں اسکن ڈاکٹر کے کلینک جانے کا موقع ملا۔ ماسک سب نے لگائے ہوئے تھے مگر چھ فٹ کا فاصلہ کہیں نظر نہ آیا۔ رش کا یہ عالم تھا کہ کورونا اب پھیلا کہ تب پھیلا۔
ایک رشتے دار کے ہاں فوتگی ہوئی، گھر والے سب کو اسپتال کی رپورٹ دکھا رہے تھے کہ ہماری والدہ کا انتقال کورونا سے نہیں ہوا، یعنی آپ نے ہمارے گھر آکر کوئی غلطی نہیں کی، ہم میں سے کسی کو کورونا نہیں ہے۔ ہمارے پڑوس کے انکل اپنے بھائی کی میت کا ذکر کرکے رونے لگے کہ میں بھائی کے جنازے پر نہیں جا سکا اور نہ میری بیوی میری بھابھی سے ملنے جا سکیں، کیوں کہ بیٹے نے کہا تھا کہ اگر آپ وہاں گئے تو پھر کورونا لے کر ہمارے گھر مت آئیے گا، حالانکہ میرے بھائی کا انتقال کورونا سے نہیں ہوا تھا۔
کورونا کے لیے سوشل ڈسٹینس کا لفظ استعمال کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے، بھائی بھائی سے نہیں مل سکتا، اپنے بھائی کی میت میں شرکت نہیں کر سکتا، موت اور جنازے پر لوگ اپنے پیاروں کے دکھ درد نہیں بانٹ سکتے۔
کورونا نے جہاں لوگوں کے معاش، روزگار اور کاروبار پر کاری ضرب لگائی، وہیں آپس کی رسمی محبتوں کی پول پٹیاں بھی کھول دیں کہ ہمارے نزدیک انسانیت اور جذبات کی کیا اہمیت باقی رہ گئی ہے۔