نصرت یوسف
شاپنگ مال کے جگمگاتے کاریڈورز ایسے خالی تھے جیسے کسی جادوگر نے منتر پھونک کر ساری سرگرمیاں روک دی ہوں۔ کپڑوں کے اسٹور میں کھڑی مینیکنز(mannequins) لگتا تھا اس سناٹے سے بور ہوچکی ہیں، اسٹور سیل بوائے شیشے کے پار فائبر گلاس سے بنی اس زنانی مینیکن کو کئی بار سیدھا کھڑا کرچکا تھا جو شطرنج کی بچھی بساط ظاہر کرتی سوتی قمیص سفید جینز کے ساتھ پہنے تھی۔ نہ جانے وہ کیوں ایک جانب جھکے جا رہی تھی! سیلز بوائے نے کئی بار اس کی سیٹنگ اسٹور کے شیشے سے بنے کیس کے اندر جاکر درست کی، لیکن ہر کچھ دیر بعد وہ اس کو ٹیڑھی ملتی۔
یہ اُن چار میں سے تھی جو پچھلے ماہ ہی اسٹور نے پلاسٹک سے بدل کر فائبر گلاس کی لی تھیں، بقیہ تین میں ایسا فالٹ نہ تھا۔ ان کو جہاں اور جیسا فکس کیا گیا تھا وہ اُسی طرح تھیں۔
چوتھی بار جب یہی مینیکن ترچھی ہوئی اور وہ جھنجھلایا ہوا کیس کے اندر چڑھا تو اس کی بے زاری مسکراہٹ میں بدل گئی۔ گھنگھریالے بالوں والی چاکلیٹ رنگت کی لڑکی انہماک سے کالے سفید خانوں والی قمیص کو دیکھ رہی تھی، لگتا تھا یہ لباس اس کو پسند آگیا ہے اور اب وہ اس کے لیے اسٹور کے اندر ضرور آئے گی۔
وبا کے اس دور میں یہ مال اکثر سناٹے ہی میں لپٹا رہتا، جہاں کبھی رنگوں کا ازدحام تھا وہاں اب اِکا دُکا انسان ٹہلتے نظر آتے، جن میں گاہک تو شاذونادر ہی کوئی ہوتا۔ کئی اسٹورز نے ملازمین کی چھانٹی کردی تھی، اور کئی نے بجلی کا خرچ بچانے کی خاطر اے سی اور روشنی کم کررکھی تھی۔ سیلز بوائے نے لڑکی کی موجودگی سے بے نیازی ظاہر کرتے ہوئے اپنا کام مکمل کیا اور اسٹور کے داخلی دروازے کی جانب ٹہلنے لگا۔ دن کے پہلے گاہک کو وہ اچھے طریقے سے ڈیل کرنا چاہتا تھا۔ لڑکی اندر آرہی تھی، منیجر نے متوقع خریدار دیکھ کر اسٹور کی روشنی اور ٹھنڈک بڑھا دی۔
چاکلیٹی لڑکی نے خوب سارا وقت لگاکر بس وہی قمیص خریدنے کے لیے پسند کی جس کو دیکھ کر وہ اندر آئی تھی۔ منیجر کے تاثرات جلتے بجھتے نیون سائن جیسے ہوچکے تھے۔ مستقل گھومتی وہ لڑکی ہر مینیکن کے پاس رکتی، لگتا جیسے اُسے وہی لباس لینا ہو جو ڈمی نے پہنا ہے۔
مینیکنز کے خدوخال، رنگ روپ، لباس گاہک کو مسحور کیے دیتے تھے۔
’’بے چاری چاکلیٹ!‘‘ سیلز بوائے اس لڑکی کو یہاں سے وہاں نہایت اطمینان سے ملبوسات کے درمیان ٹہلتا دیکھ کر بور ہوچکا تھا، اس کا خیال تھا کہ یہ ’’ہلکی جیب‘‘ والی شوقین لڑکی ہے۔
وہ اب سیاہ چرمی سیٹ پر بیٹھا اپنے مخدوش حال کو سوچ رہا تھا۔ یکایک منیجر نے قریب آکر اس کا بازو تھامتے ہوئے سرگوشی کی ’’اس لڑکی کو باہر کرو، بہت دیر سے بتیاں اور اے سی تیز ہے، خالی جیب کی لگتی ہے، بوریت مٹانے آگئی ہے، اس سے کچھ خاص ملتا نہیں لگ رہا، پیسہ آنے سے زیادہ بجلی کا بل آجائے گا۔‘‘
سیلز بوائے نے خیالات کے ٹوٹے حصوں کے درمیان منیجر کے خیالات سنے، اسٹور کی اکلوتی گاہک کو دیکھا، جو اب بل بنوانے کاؤنٹر کی جانب کھڑی تھی، چار و ناچار وہ اٹھ گیا۔
’’یہ بہت خوب صورت ہے، لیکن شرمیلی ہے، اسی لیے سیدھی نہیں کھڑی ہوتی۔‘‘
لڑکی نے بقیہ رقم پکڑتے منیجر سے مخاطب ہوتے ایک جانب اشارہ کیا تو اس نے حیرت سے اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے وہاں نگاہ ڈالی جہاں وہ دیکھ رہی تھی۔
سیلز بوائے ان دونوں سے بے نیاز اپنی سوچوں میں گم ہوچکا تھا۔ وہ بہت اچھا پینٹر تھا، تعلیمی ادارے چھوٹے بچوں کے لیے خوش رنگ مناظر کی عکاسی کروانے کے لیے اس کی خدمات لیتے۔ برا ہوا کہ کووڈ نے سب کچھ تلپٹ کر ڈالا۔ اس کا بھی معاش بدل گیا، اب وہ تخلیق سے نکل کر زیبائش کے ماحول میں تھا، جہاں اس کے لیے سب سے ناگوار کام مینیکنز کے ملبوسات کی تبدیلی تھی۔
فائبر گلاس کی مینیکنز کی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ انسانی ساخت سے قریب تاثر دیتے نگاہ کو کھینچتی تھیں۔ اسے اپنا یہ کام پسند نہ تھا، اسے یہ خلافِ اخلاق لگتا، لیکن تہذیب کے یہ اسباق جاری رکھ کر اس نوکری پر رہنا اسے ممکن نظر نہ آتا تھا۔ منیجر بھی اس کا مزاج بھانپ گیا تھا، اسے ملازم کی ناگواری سے چڑ تھی، لڑکے کو لگتا وہ جان بوجھ کر تنگ کرنے کے لیے یہ کام اس سے گاہے بہ گاہے بلا ضرورت کراتا ہے۔
یکایک منیجر کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ وہ خیالات سے چونک گیا۔ ’’عجیب تھی، پاگل سی!‘‘
اس نے منیجر کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’پاگل عورت کہہ رہی تھی ڈمی شرمیلی ہے، اس لیے ڈس بیلنس…‘‘ دھیما سا قہقہہ لگاتے منیجر نے اسٹور سے باہر کاریڈور پر نگاہ ڈالی جہاں ایک جوان جوڑا ونڈو شاپنگ میں مصروف تھا۔
سیلز بوائے نے بے اختیار گلاس کیس کو دیکھا جہاں شطرنج کی قمیص والی مینیکن اس وقت شان سے کھڑی لگتی تھی۔
’’جاتے جاتے وہ پاگل اس کو چھو کر، سیٹنگ آئوٹ کر گئی ہے، جاؤ صحیح کرو اور ٹاپ بدل دو۔‘‘ منیجر کے لہجے میں تندی تھی۔
سیلز بوائے نے ناگواری سے حکم سنا اور بجا آوری کرنے چل دیا۔