جس کا کام اُسی کو ساجھے

692

ساجد کمبوہ
پیارے بچو! آپ نے مْلا نصیر الدین کا نام یقینا سنا ہو گا اور اْن کے کارنامے بھی پڑھے ہوں گے۔مْلا ایک ذہین وفطین اور مزاح والے تھے۔وہ ایک بادشاہ کے دربار سے وابستہ تھے۔بادشاہ نے اپنی سالگرہ پر اپنے وزرا،اْمرا اور درباریوں کو بہت سے انعامات سے نوازا اور عوام کو بھی کئی ٹیکس معاف کر دیئے۔
بہت سے قیدی رہا کر دیئے۔یہ انعام و اکرام پا کر مْلا قریبی ریاستوں کے سیاحتی دورے پر چلے گئے۔ڈھائی تین ماہ بعد وہ واپس آئے تو دیکھا کہ بادشاہ کچھ پریشان ہے۔پوچھا ؛’’بادشاہ سلامت جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ‘‘۔
’جان کی امان دی ،پوچھو کیا پوچھتے ہو‘‘؟بادشاہ نے کہا۔
بادشاہ سلامت مجھے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔آپ کچھ بتانا پسند کریں گے؟
ہاں بھئی مْلا پریشانی تو ہے۔ کچھ دن پہلے دربار لگا ہوا تھا وزرا ،امرا، روسا بیٹھے ہوئے تھے ،ہمیں ایک ڈھول والے نے لاجواب کر دیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ ملا نے پوچھا۔
اِس طرح سے کہ اُس نے دربار میں آکر کہا بادشاہ کا اقبال بلند ہو، اللہ آپ کی بادشاہی تاقیامت قائم رکھے۔ ہم نے سمجھا کچھ انعام کے لالچ میں ہے۔ ہم نے وزیر خزانہ کو حکم دیا اِسے اشرفیاں دی جائیں مگر اُس نے کہا بادشاہ سلامت میں انعام یا خیرات لینے نہیں آیا چونکہ آپ مْلک کے بادشاہ ہیں اور بادشاہ کا بہادر ،عقلمند ہونا بہت ضروری ہے میرا صرف ایک سوال ہے میرا یہ ڈھول اِن چھڑیوں سے آواز دیتا ہے آپ ایسا طریقہ بتائیں کہ یہ چھڑیوں کے بغیر آواز دے خواہ مدھم ہی ہو۔
میں نے جواب دینے کیلئے ٹائم مانگ لیا تھا کل آخری روز ہے ،سمجھ نہیں آرہا یہ کیسے ہوگا؟جواب نہ دیا تو شرمندگی ہوگی۔
یہ کوئی مسئلہ نہیں بادشاہ سلامت ! مْلا نے اطمینان سے کہا۔
’’کیا کہا کوئی مسئلہ نہیں ‘‘بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’جی ہاں ! آپ اطمینان رکھیں یہ مجھ پر چھوڑ دیں ‘‘مْلا نے جانے کی اجازت مانگی اور بادشاہ نے اطمینان کا سانس لیا۔اگلے دن دربار لگا ہوا تھا۔وزرا،امرا ،روسا درجہ بدرجہ بیٹھے ہوئے تھے۔ڈھول والا بڑی شان سے چلتا ہوا آیا اور بادشاہ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
بادشاہ سلامت آپ کی مانگی مہلت ختم ہو گئی ہے۔ میرے سوال کا جواب دیں۔ بادشاہ نے ملا کی طرف دیکھا، ملا ڈھول اْٹھائے آئے،زورسے ہلایا۔ اْس میں دھم دھم کی آوازیں آنے لگیں گو آوازیں مدھم تھیں۔ ڈھول والا حیرانی سے ملا کو دیکھ رہا تھا جو معصوم صورت بنائے کھڑے تھے۔
اْس نے کہا بادشاہ سلامت یہ سب اِس شخص کی کار ستانی ہے ،ورنہ میرے سوال کا جواب آسان نہ تھا۔یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گیا۔بادشاہ سمیت وزرا،امرامْلا کی تعریفیں کررہے تھے۔بادشاہ نے خلوت میں مْلا سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہوا،میں نے بہت دماغ لڑا یا مگر ……
بادشاہ سلامت آپ کا یہ خادم آپ کی خدمت کرکے خوش ہو!
پھر بھی ہمیں بھی کچھ پتا چلے ؟بادشاہ نے پوچھا۔
وہ ڈھول میں شہد کی مکھیاں بھر کر لایا تھا۔جونہی ڈھول ہلایا وہ مکھیاں اْڑ کر ڈھول کے چمڑے سے ٹکرانے لگیں ،جس سے آواز آنے لگیں۔
بادشاہ بہت خوش ہوا،اْس نے دربار میں آکر اعلان کیا کہ مْلا کو ایک ہزار سونے کی اشرفی انعام دیتے ہیں اور دربار میں ایک درجہ بڑھادیتے ہیں۔
سب نے تالیاں بجا کر مْلا کو خراج تحسین پیش کیا۔‘‘
مْلا انعام کیلئے بیت المال گئے ،وزیرخزانہ سے کہا کہ وہ انعام پھر کسی وقت لے جائیں گے۔اْس نے وجہ پوچھی مْلا نے کہا،مجھے شک ہے کہ کوئی چرانے کی کوشش کرے گاکیونکہ کچھ درباریوں میں حاسد بھی ہیں۔
مْلا رات کو سورہے تھے ،اْن کا شک ٹھیک نکلا۔ایک نقاب پوش اْن کے کمرے میں گھس گیا۔مْلا کی آنکھ کھل گئی،اْس نے پوچھا ،بتاؤ ملا کہاں ہیں ،وہ اشرفیاں ؟
مْلا نے مسکراتے ہوئے کہا؛’’وہ کمرے میں چھپارکھی ہیں ،وہ لے جانا مجھے بادشاہ اور دے دے گا ،تمہارا بھلا ہو جائے گا‘‘نقاب پوش خوش ہوگیا۔
’’پھر جلدی سے بتاؤ کہاں ہیں ‘‘؛وہ بولا۔
’’بتا تا ہوں پہلے مجھے ایک خواب کی تعبیر بتاتے جاؤ ،ابھی تمہارے آنے سے پہلے خواب دیکھ رہا تھا ‘‘۔
’’جلدی بتاؤ خواب کیا تھا ؟ممکن ہوا تو بتاؤں گا‘‘۔
مْلا نے گلا صاف کیا اور کہا ؛’’وہ ایک تاریک جنگل میں جا رہا تھا ،جنگلی جانوروں کا خوف بھی تھا مگر حیرت کی بات وہ میرے پاس سے گزررہے تھے ،مجھے کچھ نہیں کہہ رہے تھے کہ اچانک میں ایک دلدل میں گرگیا ،بہت کوشش کی مگر جتنی کوشش کرتا اْتنا ہی دلدل میں دھنستا جارہا تھا۔
میں نے بلند آواز میں اپنے بیٹے کو پکارا ،فہیم الدین ،فہیم الدین ،مْلا نے بلند آواز میں کہا۔مگر افسوس میرا بیٹا آواز نہیں سْن رہا تھا۔اب اِسکی تعبیر بتاؤ اور اشرفیاں لے جاؤ‘‘۔
نقاب پوش سوچ میں پڑگیا ،اتنی دیر میں مْلا کا بیٹا دروازہ کھول کر اندر آیا اور پوچھا ؛’’کیا بات ہے والد ِ محترم ‘‘۔
اُس کی نظر نقاب پوش پر پڑی۔ اُس نے جھپٹ کر اْسے پکڑ ا اور اُس کی مرمت کرنا شروع کر دی۔آخر کار مْلا نے اْس کی جان چھڑائی اور کہا کہ اِسے کو توال کے حوالے کر آؤ۔جب وہ نقاب پوش لے کر جانے لگا تو مْلا نے آواز لگائی۔ بھئی میرے خواب کی تعبیر تو بتاتے جاؤ۔
اِس پر اُس نے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا ’’میں چور ہوں کوئی تعبیر بتانے والا نہیں۔ سچ ہے جس کا کام اسے ہی ساجھے۔ آج میری غلطی نے مجھے پکڑا دیا۔‘‘
صبح جب ملا نے بادشاہ کو واقعہ سنا یا تو سب درباریوں کا ہنس ہنس کر بُرا حال ہو گیا۔ بادشاہ نے ملا کو دو ہزار سونے کی اشرفیاں دینے کا حکم دیا۔
بچو! کسی نے صحیح کہا ہے جس کا کام اُسی کو ساجھے۔

حصہ