مناہل امجد
ارشد عید کے تیسرے روز نیند سے بیدار ہوتے ہی گھر سے باہر کی طرف دوڑے اور گھر پر سبز ہلالی پرچم کو لہراتے دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاتے ہوئے قومی ترانہ گنگنانے لگے جشن آزادی کے موقع پر جھنڈیوں اور پرچم کی سجاوٹ دیکھ کر پاکستانی زندہ باد کا نعرہ بلند کرتے گھر میں داخل ہوئے پورے گھر کا ایک چکر لگا کر ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے اور اداس سے ایک صوفے پر نیم دراز ہو گئے۔ امی نے کئی آواز دیں شاید وہ اپنی جگہ سے اٹھنے کو تیار نہیں تھے کہ ابو ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے اور ارشد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ارشد میاں آپ ناشتے کے لیے نہیں آرہے کیا بات ہے ارشد نے جواب دیا ابو میرا دل نہیں چاہ رہا بعد میں کر لوں گا۔ ابو نے ارشد کی طرف دیکھا تو حیران ہو گئے بیٹا کیا بات ہے آپ اداس کیوں ہیں آج تو عید کا تیسرا دن ہے اور یوم آزادی بھی ہے دوہری خوشی کا دن ابھی کچھ ہر قبل تو آپ نعرے لگا رہے تھے اب کیا ہو گیا ارشد نے کہا ابو وہ میرا بکرا… کیوں کیا ہوا آپ کے بکرے کو… وہ تو کل آپ کے سامنے اس کی قربانی کردی۔
ارشد نے کہا ابو آج میں جب اس جگہ گیا جہاں بکرا بندھا ہوتا تھا اسے وہاں نہ پا کر طبیعت اداس ہو گئی۔ آپ کوئی اور بکرا لا کر قربانی کر دیتے، میرا ایک سال سے پلا ہوا بکرا کتنا پیارا تھا میں اس کو چارا کھلاتا، پیار کرتا تھا، وہ میرا نتظار کرتا تھا، مارتا بھی نہیں تھا اس سے بہت محبت تھی اسی لیے اس کی قربانی سے طبیعت اداس ہو گئی۔ ابو ارشد کو پیار کرتے ہوئے ناشتے کی میز پر لائے اور کہا کہ بیٹا کوئی دوسرا بکرا لا کر بھی قربانی کی جا سکتی تھی مگر جو بکرا ہم نے ایک سال قبل پالا تھا۔ اس سے محبت ہو گئی تھی اور قربانی کرتے ہوئے اس کی محبت ہمارے دل میں موجود تھی مگر ہم نے اللہ کے نام پر سنت ابراہیمی کی پیروی میں قربان کر دیا یہ ہی تو اصل قربانی ہے جو چیز عزیز ہو اس کو قربان کرنے کا اجر بھی زیادہ ہے پھر ابو نے قربانی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا سنت ابراہیمی کی پیروی میں ہم اپنے جانور قربان کرتے ہیں… قربانی کی اصل روح میں یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں ہر قربانی کے لیے تیار رہیں اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو سمجھ لیجیے محض دکھاوا ہے۔ دکھاوا بھی کیا اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے۔