ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
اللہ خالق ِکائنات ہے جس نے ہر چیز کو خلق کیا ہے۔ انسان اور جن اس کی ایسی مخلوقات میں سے ہیںجن کو ارادہ اور اختیار دیا۔ ’’انسانوں کو اس نے ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے گارے سے بنایا اور جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔‘‘ (سورۃ رحمن۔ آیت 15) انسان میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص روح پھونکی جس کو فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا‘ اس کا جوڑ پیدا کیا گیا تاکہ نسل کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ انسانی تخلیق کے مختلف مراحل قرآن میں جا بجا بیان کیے گئے ہیں۔
جن کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا۔ یہاں ایک خاص نوعیت کی آگ ہے اور ’’مارج‘‘ کے معنی ’’خالص شعلہ‘‘ جس میں دھواں نہ ہو۔ انسان اور جناتی تخلیق کے مختلف مراحل کے بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح پہلا انسان مٹی سے بنایا گیا پھر تخلیق کے مختلف مدارج سے گزرتے ہوئے اس کے جسمِ خاکی نے گوشت پوست کے زندہ بشر کی شکل اختیار کی اور آگے اس کی نسل نطفہ سے چلی اسی طرح پہلا جن خالص آگ کے شعلے یا آگ کی لپٹ سے پیدا کیا گیا۔ بعد میں اس کی ذریت سے جنوں کی نسل پیدا ہوئی۔ اس سے پہلے جن کی حیثیت جنوں کے معاملے میں وہی ہے جو آدم علیہ السلام کی حیثیت انسانوں کے معاملے میں ہے۔ زندہ بشر بن جانے کے بعد حضرت آدمؑ اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے انسانوں کے جسم کو اس مٹی سے کوئی مناسبت باقی نہ رہی جس سے اس کو پیدا کیا گیا تھا۔ اگرچہ اب بھی ہمارا جسم پورا کا پورا زمین ہی کے اجزا سے مرکب ہے لیکن ان اجزا نے گوشت پوست اور خون کی شکل اختیار کرلی ہے اور جان پڑنے کے بعد وہ تودۂ خاک کی بہ نسبت ایک بالکل مختلف چیز بن گیا۔ ایسا ہے معاملہ جنوں کا بھی ہے ان کا وجود بھی اصلاً ایک آتشیں وجود ہی ہے لیکن جس طرح ہم محض تودۂ نہیں ہیں اسی طرح جن بھی محض شعلۂ آتش نہیں ہیں۔ جن مجردّ روح نہیں ہیں بلکہ ایک خاص نوعیت کے مادی اجسام ہی ہیں مگر چوں کہ وہ خالص آتشیں اجزا سے مرکب ہیں اس لیے وہ خاکی اجزا سے بنے ہوئے انسانوں کو نظر نہیں آتے۔
سورۂ اعراف کی ستائیسویں آیت میں ارشادِ ربانی ہوا۔ ’’شیطان اور اس کا قبیلہ تم کو ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں تم اس کو نہیں دیکھتے۔‘‘ اسی طرح جنوں کا سریع الحرکت ہونا‘ اُن کا باآسانی مختلف شکلیں اختیار کر لینا اور ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جانا جہاں خاکی اجزا سے بنی ہوئی چیزیں نفوذ نہیں کرسکتیں۔ یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ وہ فی الاعمل آتشی مخلوق ہیں۔
مٹی سے انسان اور آگ کے شعلے سے جن جیسی حیرت انگیز مخلوق کو وجود میں لانا خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ صرف وجود بخشا بلکہ ہر ایک کی ساخت ایسی رکھی اور ایسی قوتیں اور صلاحیتیں ودیعت فرمائیں جن سے یہ دنیا کے بڑے بڑے کام کرنے کے قابل ہوگئے۔ جن قوتوں سے اللہ تعالیٰ نے انسان کے دماغ کو سرفراز فرمایا ان سے کام لینے کے لیے موزوں ترین جسم ہاتھ پائوں‘ آنکھ کان‘ زبان عقل و شعور فکر و خیال‘ قوت ایجاد اور قوت استدلال بھی عطا فرمایا۔ اگر جسم کے بغیر یہ صلاحیتیں ہوتیں تو انسان کا وجود بے معنی ہو جاتا۔
ان تمام صلاحیتوں کے باوجود انسان بھی فانی ہے اور وہ سارا ساز و سامان بھی فانی ہے جس سے انسان اور جن متعمتع ہو رہے ہیں۔ لافانی اور لازوال و صرف خدا کی ذات ہے۔ اللہ کے سوا دوسری تمام ہستیاں اپنی حاجتوں کے لیے اللہ کے ہی سامنے ہاتھ پھیلاتے ہوئے ہیں۔ زمین سے آسمان تک اس کائنات میں تنہا اللہ ہی مالک و حاکم ہے۔ بے شمار مخلوقات کو طرح طرح سے رزق دے رہا ہے۔ بے حد و حساب چیزیں نئی سے نئی وضع کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کے حساب و کتاب کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ جس ساعت دونوں سے باز پرس کی جائے گی۔ اس کا وقت آنے پر دونوں کو پکڑ لیا جائے گا اور ان پر ’’شواظ‘‘ وہ ’’خالص شعلہ‘‘ جس کے ساتھ دھواں نہ ہو اور ’’نحاس‘‘ اس خالص دھوئیں کو جس میں شعلہ نہ ہو چھوڑی جائیں گی۔ یہ روزِ قیامت کا ذکر ہے۔ جب عالم بالا کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور اس ہنگامہ عظیم کے وقت یوں محسوس ہوگا جیسے سارے عالم بالا میں ہر طرف اک آگ سی لگی ہوئی ہے۔ اس عظیم الشان مجمع میں مجرم اپنے اترے ہوئے چہروں‘ خوف زدہ آنکھوں اور گھبرائی ہوئی صورتوں اور چھوٹتے ہوئے پسینوں سے پہچان لیے جائیں گے اور جس نے دنیا میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کی ہو‘ جسے ہمیشہ یہ احساس رہا ہو کہ میں دنیا میں غیر ذمہ دار اور شترِ بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیا گیا ہوں‘ بلکہ ایک روز اپنے رب کے سامنے مجھے کھڑا ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے‘ وہ شخص نفس کی پاکیزگی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ حق و باطل‘ ظلم و انصاف‘ پاک و ناپاک‘ حلال و حرام میں تمیز کرتا ہے۔
جنت میں نیک انسانوں کی طرح نیک جن بھی داخل ہوں گے اور وہاں جس طرح انسان مردوں کی طرح انسان عورتیں ہوں گی‘ اسی طرح جن مردوںکی ساتھی جن عورتیں بھی ہوں گی۔ دونوں کی رفاقت کے لیے انہی کے ہم جنس جوڑے ہوں گے۔ ایسا نہ ہوگا کہ ان کا جوڑ کسی ناجنس مخلوق سے لگا دیا جائے۔
سورۃ ملک میں ارشادِ ربانی ہے ’’جن اگرچہ عالم بالا کی طرف پرواز کر سکتے ہیں مگر ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے اس سے اوپر جانے کی کوشش کریں تو انہیں روک دیا جاتا ہے۔ شہاب ثاقب ان کو مار بھگاتے ہیں۔‘‘ اس سے مشرکینِ عرب کے اس خیال کی تردید کی گئی ہے کہ جن غیب کا علم رکھتے ہیں یا خدائی اسرار تک انہیں کوئی رسائی ہے۔ سورۂ بقر آیت نمبر تیس سے چونتیس اور سورۂ کہف میں آیت پچاس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی خلافت اللہ نے انسان کو دی ہے اور انسان جنوں سے افضل مخلوق ہے۔ اگر بعض غیر معمولی طاقتیں جنوں کو بھی بخشی گئی ہیں اور بعض طاقتیں حیوانات کو بھی انسانوں سے زیادہ ملی ہیں مگر وہ اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ جانوروں کو انسانوں پر فضیلت حاصل ہے۔ جن انسانوں کی طرح ایک بااختیار مخلوق ہے اور اس کو بھی اطاعت و معصیت اور کفر و ایمان کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا انسان کو دیا گیا ہے۔ قرآن میں بے شمار مقامات پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیق آدم کے وقت یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اسی وقت سے شیاطین جن انسانوں کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں۔ مگر وہ اس پر مسلط ہو کر زبردستی اس سے کوئی کام کرا لینے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ وہ اس کے دل میں وسوسے ڈالتے ہیں‘ اس کو بہکاتے ہیں اور بدی و گمراہی کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں۔
جن نہ صرف انسانوںکی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بہ خوبی سمجھتے بھی ہیں۔ جن اللہ کے وجود اور اس کی رب ہونے کے منکر نہیں ہیں۔ ان میں بھی مشرک پائے جاتے ہیں‘ نبوت اور کتب آسمانی کے نزول کا سلسلہ جنوں کے ہاں جاری نہیں ہوا بلکہ ان میں سے جو جن بھی ایمان لاتے ہیں وہ انسانوں میں آنے والے انبیا اور ان کی لائی ہوئی کتابوں پر ہی ایمان لائے ہیں۔سورۃ احقاف میں جن جنوں کا تذکرہ ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروئوں میں سے تھے اور انہوں نے قرآن سننے کے بعد اپنی قوم کو دعوت دی تھی کہ اب جو کلام خدا کی طرف سے پچھلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے اس پر ایمان لائو۔ سورۂ رحمن میں جن جنوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ یا تو عیسائی جنوں میں سے تھے یا ان کا کوئی اور مذہب تھا۔ جس میں اللہ تعالیٰ کو بیوی‘ بچوں والا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے اس وقت آپؐ نماز میں قرآن کا کوئی ایسا حصہ پڑ رہے تھے جسے سن کر ان کو اپنے عقیدے کی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی بلند و برتر ذات کی طرف بیوی بچوں کو منسوب کرنا سخت جہالت اور نادانی ہے۔
ابن عباسؓ فرماتے ہیں ’’جاہلیت کے زمانے میں جب عرب کسی سنسان وادی میں رات گزارتے تھے تو پکار کر کہتے ’’ہم اس وادی کے مالک جن کی پناہ مانگتے ہیں۔‘‘ ایک اور روایت میں اس بات کا ذکر کثرت سے ملتا ہے کہ اگر کسی جگہ پانی اور چارہ ختم ہو جاتا تو خانہ بدوش بدو اپنا ایک آدمی دوسری جگہ تلاش کرنے کے لیے بھیجتے جہاں پانی اور چارہ مل رہا ہو۔ پھر اس کی نشاندہی پر جب یہ لوگ نئی جگہ پہنچتے تو وہ اترنے سے پہلے پکار پکار کر کہتے کہ ’’ہم اس وادی کے رب کی پناہ مانگتے ہیں تاکہ ہم یہاں پر ہر آفت سے محفوظ رہیں۔‘‘ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر غیر آباد جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے میں ہے اور اس کی پناہ مانگے بغیر وہاں کوئی ٹھہر جائے تو وہ جن یا تو خود ستاتا ہے یا دوسرے جنوں کو ستانے دیتا ہے۔ اسی بات پر یہ ایمان لانے والے جن اشارہ کرتے ہیں کہ جب زمین کے خلیفہ انسان نے الٹا ہم سے ڈرنا شروع کردیا اور خدا کو چھوڑ کر وہ ہم سے پناہ مانگنے لگا تو ہماری قوم کے لوگوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہو گیا اور ان کا غرور اور کفر اور ظلم زیادہ بڑھ گیا اور گمراہی میں زیادہ جری ہوگئے۔‘‘
اخلاقی حیثیت سے بھی اچھے اور بڑے جن پائے جاتے ہیں اور اعتقادات میں بھی ان کا کوئی ایک مذہب نہیں ہے بلکہ یہ مختلف گروہوں میں منقسم ہیں۔ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن کی رو سے جن تو آتشی مخلوق ہیں تو پھر جہنم کی آگ انہیں کیسے تکلیف دے گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی رو سے آدمی بھی مٹی کا بنا ہوا ہے پھر اسے اگر مٹی کا ڈھیلا مارا جائے تو اس کو چوٹ کیوں لگتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا پورا جسم اگرچہ زمین کے مادوں سے بنا ہوا ہے مگر جب ان سے گوشت پوست کا زندہ انسان وجود میں آجاتا ہے تو وہ ان مادوں سے بالکل مختلف چیز بن جاتا ہے اور انہی مادوں سے بنی ہوئی دوسری چیزیں اس کے لیے اذیت کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جن بھی اگرچہ اپنی ساخت کے لحاظ سے آتشیں مخلوق ہیں لیکن آگ سے جب ایک زندہ اور صاحبِ احساس مخلوق وجود میں آجاتی ہے تو وہی آگ اس اس کے لیے تکلیف کا موجب بن جاتی ہے۔ قرآن میں جس ابلیس کا تذکرہ کیا گیا ہے اصطلاحاً یہ اسی جن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کرکے آدم اور بنی آدم کے لیے مطیع و مسخر ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ ابلیس کا لفظی ترجمہ ’’انتہائی مایوس‘‘ کے ہیں۔ ابلیس نے اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ اسے نسل انسانی کو بہکانے اورگمراہیوں کی طرف ترغیب کا موقع دیا جائے۔ درحقیقت شیطان اور ابلیس محض کسی مجرد قوت کا نام نہیں بلکہ وہ بھی انسان کی طرح ایک صاحب تشخص ہستی ہے اور جنوں میں سے ہے۔ سجدے سے انکار کرنے والوں میں وہ اپنی جماعت کے ساتھ تھا۔ لہٰذا اسے ابلیس اسی لیے کہا گیا کہ وہ اپنی جماعت کی سربراہی اور اللہ کی نافرمانی میں پیش پیش تھا۔ اسی لیے اس کو شیطان اور انسان کا دشمن کہا گیا۔