تخلیق ِ پاکستان کی کہانی بیان کرتے ہوئے گزشتہ سات دہائیوں سے ہم بظاہر ایک بے ضرر اور سادہ سا فقرہ سنتے چلے آرہے ہیں، اور یہ فقرہ بولنے والے یا تو سادہ لوح پاکستانی ہیں یا پھر وہ عیار سیکولر قوم پرست ہیں جنہوں نے اساسِ پاکستان اور نظریۂ پاکستان ’’اسلام‘‘ سے بغض و عناد اور دشمنی کی وجہ سے اس جملے کو بار بار دہرایا اور اس فقرے میں چھپی ہوئی قوم پرستی کی مدتوں نشوونما کی۔
فقرہ دراصل اس وقت دنیا میں موجود قومی ریاستوں کی تخلیق کے بنیادی اصول کو بیان کرتا ہے، اس لیے لوگوں کو اس پر حیرانی نہیں ہوتی۔ حیرانی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ دو صدیوں سے سیاسیات، سماجیات اور معاشرت کے علوم پڑھانے والوں نے کتابوں میں جس علم کا ذخیرہ کیا اور یونیورسٹیوں میں جو نصاب کی زینت بنا، اس کے مطابق کرۂ ارضی پر بسنے والی قومیں رنگ، زبان، نسل اور علاقے کی بنیاد پر بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ فقرہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ایک تسلسل سے بولا جاتا ہے کہ ’’پاکستان پنجابیوں، سندھیوں، بلوچوں، پختونوں اور بنگالیوں نے مل کر بنایا تھا‘‘ تو یہ ہمیں بالکل عجیب نہیں لگتا۔ جب کہ تخلیقِ پاکستان کی تاریخ اس سے بالکل الٹ ہے۔ یہ پانچوں قومیں برطانوی ہندوستان میں اپنے اپنے علاقوں میں صدیوں سے آباد تھیں، بلکہ ان میں بلوچ اور پختون اقوام تو ایران اور افغانستان میں بھی کثیر تعداد میں رہتی تھیں۔ ان تمام اقوام نے کبھی بحیثیت قوم اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے پاکستان نہیں بنایا بلکہ بحیثیت ایک مسلمان اپنی قومیت سے انکار کرکے پاکستان بنایا تھا۔ پنجاب اور بنگال میں تو وہ انتظامی لکیریں جو انگریز نے صوبوں کی صورت کھینچی تھیں، مسلمانوں نے ملیا میٹ کردیں۔
پنجابی اور بنگالی دونوں قوموں کے صوبوں میں مسلمان اکثریت میں تھے۔ برطانوی ہندوستان میں 1935ء کے ایکٹ کے تحت بننے والی اسمبلیوں کے نتیجے میں بنگال کے پہلے وزیرِاعظم اے کے فضل الحق تھے، جو یکم اپریل 1937ء سے مارچ 1943ء تک رہے، دوسرے خواجہ ناظم الدین تھے جو 29 اپریل 1943ء سے 31 مارچ 1945ء تک رہے، اور تیسرے وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی تھے جو 23 اپریل 1946ء سے 14اگست 1947ء تک رہے۔ ان تینوں وزرائے اعظم نے اپنی بنگالی قومیت سے انکار کرتے ہوئے دیگر مسلمان بنگالیوں کی طرح مسلمان قومیت کا پرچم اٹھایا اور اپنے ہم زبان، ہم نسل، ہم رنگ بلکہ کئی مقام پر ہم علاقہ بنگالی ہندوئوں کو خدا حافظ کہا۔
اسی طرح پنجاب میں بھی مسلمان پنجابیوں کی اکثریت تھی، اور 1935ء کے ایکٹ کے تحت بننے والی اسمبلی کے پہلے وزیرِاعظم سر سکندر حیات خان تھے جو 5 اپریل 1937ء سے 26 دسمبر 1942ء تک رہے، پھر ملک خضر حیات ٹوانہ وزیر اعظم پنجاب بنے جو 21 مارچ 1946ء سے 2 مارچ 1947ء تک رہے۔ ان دونوں صوبوں کی انتظامی لکیریں انگریز سرکار نے خوب چالاکی سے نسل، رنگ اور زبان کی بنیاد پر کھینچی تھیں، مگر دونوں علاقوں کی مسلمان اکثریت نے اپنے ہی ہم قوم پنجابی سکھوں اور بنگالی ہندوئوں سے علیحدگی اختیار کی۔
اسی طرح خیبر پختون خوا کے مسلمانوں نے افغانستان میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ جانے کے بجائے ایک ایسے ملک کے ساتھ رہنا پسند کیا، جو صرف اور صرف اسلام کے نام پر بن رہا تھا، کیوں کہ افغانستان تو احمد شاہ ابدالی کی افغان قومیت کی بنیاد پر قائم ایک نسلی بادشاہت تھی۔ بلوچ تو کئی ملکوں اور صوبوں میں تقسیم تھے۔ ایران، افغانستان، ریاستِ قلات، برٹش بلوچستان، سندھ اور پنجاب ان کے مسکن تھے اور آج بھی ہیں۔ لیکن ہندوستان کے بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے بلوچوں نے بھی کبھی ایسے بلوچ خطے کے لیے آواز بلند نہیں کی جس میں ایرانی، افغانی، سندھی، پنجابی اور بلوچستانی بلوچ شامل ہوں۔ انہوں نے بھی بحیثیتِ مجموعی بلوچ قومیت کا انکار کرکے پاکستان کی مسلم قومیت کا سہرا سر پر سجایا۔
پاکستان کی تخلیق دراصل گزشتہ دو سو سال کے سیکولر علم اور اس کی بنیاد پر قائم سیکولر طرزِِ حکومت سے انکار کی علامت بنی۔ دنیا اس معجزے کو آج بھی حیرت سے دیکھتی ہے کہ یہ مسلمان بنگالی، سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون جن کی زبان آپس میں ملتی ہے نہ معاشرت… ان میں دو قومیں قبائلی زندگی گزارتی ہیں اور دو جاگیردارانہ… لیکن یہ لوگ غضب کے تھے کہ آبا و اجداد کے گھروں، کھیتوں، کھلیانوں، بلکہ ان کی قبروں تک کو چھوڑکر صرف ایک ایسے رشتے سے منسلک ہوئے جسے اسلام کہتے ہیں۔ میرے ملک کے سیکولر مؤرخین نے اس تاریخی معجزے سے انکار کے لیے اسے ایک علاقائی بندوبست(Territorial Arrangement) اور باہمی اشتراک (Mutual Co-Existance) کے سیاسی خاکے میں فٹ کرتے ہوئے یہ نظریہ دیا کہ یہ دراصل پانچ قوموں کا ایک عمرانی معاہدہ(Social Contract) تھا، جس کے تحت پاکستان وجود میں آیا۔ اس سے بڑا تاریخی جھوٹ نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ پانچ قوموں کا بحیثیت قوم محض ایک عمرانی معاہدہ تھا تو پھر بھارت میں رہ جانے والے پنجابی اور بنگالی اس میں شامل کیوں نہ ہوئے؟ پاکستان میں بسنے والے، مختلف خطوں میں آباد بلوچ بحیثیت قوم یکجا ہوکر اس معاہدے کا حصہ کیوں نہ بنے؟ پاکستان کی تخلیق ایک عمرانی معاہدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ چودہ سو سال قبل تخلیق کردہ ایک ایسی مسلم قومیت کی بنیاد پر ہوئی تھی جس کے تحت کلمۂ طیبہ پڑھنے کے بعد حضرت عباسؓ اور حضرت حمزہؓ، ابولہب کے نسلی بھائی ہونے کے باوجود بھائی نہیں رہتے۔ پاکستان کے وجود سے بغض رکھنے والے سیکولر مؤرخین، مفکرین اور سیاست دانوں نے تخلیقِ پاکستان کو اس لیے ایک عمرانی معاہدے کا نام دیا تاکہ وہ جب اور جس وقت چاہیں، نسل پرستی اور قوم پرستی کی آگ بھڑکا کر انہیں جدا کرسکیں۔ یہ تجربہ مشرقی پاکستان میں کامیاب رہا۔ لیکن بنگلہ دیش کی تخلیق نے ان کے قوم پرست نظریے کی حقانیت کی ایک بار پھر نفی کردی۔ بنگالی ہندو اور بنگالی مسلمان 1971ء میں بھی ایک پرچم تلے جمع نہ ہوسکے۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر، سید الانبیاؐ کے دین ِ مبین کے تحت اور مسلم قومیت کی بنیاد پر دسمبر 1971ء میں ایک اور ملک وجود میں آیا۔
آج بھی مراکش سے لے کر برونائی تک ہر مسلمان کا دل اس مسلم قومیت کے لیے دھڑکتا ہے، لیکن 1924ء میں عالمی طاقتوں نے سازش کے تحت مسلمانوں کو نسل، رنگ، زبان اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں مسلمانوں کے علیحدہ علیحدہ ملک نظر آتے ہیں۔ ان تمام ممالک کی وجۂ تخلیق اسلام اور مسلمان نہیں ہے… بلکہ نسل، رنگ اور زبان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ممالک کے حکمران عمومی طور پر سیکولر ڈکٹیٹرز ہیں۔ اپنے تمام خدوخال میں مسلمانوں کی یہ ریاستیں اسلامی نہیں بلکہ سیکولر قوم پرست ریاستیں ہیں۔ کوئی عراقی ہے تو کوئی شامی، کوئی یمنی ہے تو کوئی مصری۔ یہ تمام قومیں پنجابیوں اور سندھیوں کی طرح اس روئے زمین پر اسلام سے پہلے بھی موجود تھیں۔ اسلام نے انہیں صرف ایک پہچان کی حد تک محدود کرکے امتِ واحدہ میں ضم کردیا تھا۔ لیکن جب عالمی طاقتیں مسلمانوں کو اسلام سے قبل والی قومی تاریخ پر تقسیم کررہی تھیں تو کسی نے پنجابیوں، سندھیوں اور بنگالیوں تک اپنی قومیت سے انکار نہیں کیا تھا۔ ایسا ہوتا تو یہ ملک ایسے تخلیق نہ ہوتے۔
14اگست 1947ء سے پہلے تاریخ میں پاکستان نام کی کوئی قوم پہلے وجود رکھتی تھی اور نہ ہی اس نام کی کوئی قومیت۔ پاکستان اور پاکستانیت دراصل اسلام ہے۔ اگر آج اسلام کو نکال دیا جائے تو پاکستان تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جائے گا۔ ہر رنگ، نسل اور زبان کا دانہ اپنی زبان، نسل اور رنگ میں واپس کھو جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو آج بھارت کے پچیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ وہ بھارتی مسلمان جو بنگالی، پنجابی، بہاری، کیرالی، تامل اور دیگر قوموں سے تعلق رکھتے ہیں مگر کوئی نہیں مانتا۔ وہ بھارتی مسلمان پکارتے ہیں کہ ہم نے تو تم سے 1947ء میں ایک بھارت میں ساتھ رہنے کا عمرانی معاہدہ کیا تھا۔ مگر آج یہ عمرانی معاہدہ ان مسلمانوں کے منہ پر مارا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ تم چاہے ہماری زبان بولو، ہماری نسل سے تعلق رکھتے ہو مگر تم ملیچھ اور ناپاک مسلمان ہو۔