۔’’انکل چین نے بھارت کو جو سبق سکھایا ہے اُس پر پورا ملک خوشیاں منا رہا ہے۔ چین کی جانب سے بھارت کی چھترول کرنے پر سارے لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بھی اس دلیرانہ اقدام کی بھرپور تعریف کی جا رہی ہے۔ جبکہ خالد کی باتیں ہی نرالی ہیں، وہ کہتا ہے اس سے میرا کیا تعلق؟ یہ ہمیشہ ہی معاشرے سے ہٹ کر بات کرتا ہے، آپ ہی اسے سمجھائیں۔‘‘
’’کیوں بھئی خالد! رفیق کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں انکل! رفیق کی تو عادت ہے جو منہ میں آئے بول جاتا ہے۔ کچھ خاص نہیں، عام بات ہورہی تھی جسے لے کر آپ کے پاس آگیا۔ اسے تو اِدھر کی باتیں اُدھر لگانے کا شوق ہے۔‘‘
’’تم میری بات چھوڑو اپنی بتاؤ، چین کی جانب سے کی جانے والی کارروائی پر تم کیا کہہ رہے تھے؟‘‘
’’کچھ نہیں… کچھ بھی تو نہیں۔‘‘
’’دیکھا انکل! آپ کے سامنے کیسے جان چھڑا رہا ہے، ورنہ ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تو ہمارا دماغ کھائے جا رہا تھا۔‘‘
’’نہیں رفیق بیٹا ایسے نہیں کہتے۔ خالد کے اگر کچھ اور نظریات ہیں تو انہیں سنا جانا چاہیے۔ بغیر سنے کسی کی بھی مخالفت کرنا اچھی بات نہیں۔ اختلافِ رائے اچھی بات ہے، مکالمہ کرنے سے ہی بہترین راستے نکلتے ہیں۔ عقل کا استعمال اس بہتے پانی کے مانند ہے جسے روک دیا جائے تو سڑ جاتا ہے۔ لہٰذا غور و فکر کرتے رہنا چاہیے۔ خالد اگر کچھ الگ سوچتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ بتاؤ بیٹا تم کیا کہہ رہے تھے۔‘‘
’’کچھ نہیں انکل! ذرا سی بات ہے، میں نے اتنا ہی کہا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ سے ہمارا کیا واسطہ؟ یہ ان دونوں ممالک کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس پر رفیق کہتا ہے کہ چین کی جانب سے بھارت کو دیئے جانے والے سبق پر تم خوش کیوں نہیں ہورہے؟ میری اپنی رائے ہے، میں کہتا ہوں مجھے خوشی اُس وقت ہوگی جب بھارت کے ساتھ پاکستان کے تمام تصفیہ طلب مسائل حل ہوں گے، کشمیریوں پر ہونے والا ظلم بند ہوگا اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق انہیں حق رائے دہی کے استعمال کی اجازت دی جائے گی، جب مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا، جب لائن آف کنٹرول پر بھارتی دہشت گردی بند ہوگی۔ میرے ملک کا امن، میرے ملک کی ترقی اور میرے ملک کی خوشحالی ہی میری خوشی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں اس میں کون سی ایسی غلط بات ہے جسے رفیق ماننے کو تیار نہیں؟‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے۔ تمہارے درمیان ہونے والی تکرار کی اصل وجہ چین اور بھارت کے درمیان ہونے والی حالیہ سرحدی کشیدگی ہے۔ تو میرے بچو! اس میں بحث کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، بلکہ ماضی کے اوراق پلٹنے سے یہ مسئلہ کچھ دیر میں ہی حل ہوجائے گا۔ اگر تم چاہتے ہو کہ چین اور بھارت کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی پرکچھ کہوں تو میں اپنی رائے دے سکتا ہوں۔‘‘
’’جی انکل بالکل، آپ بتائیں، یہ تو اچھی بات ہے۔ تاریخی حوالے سے اگر کچھ معلومات ہم تک پہنچ جائیں تو اس سے ہمیں خاصا فائدہ ہوگا۔‘‘
’’اگر تیار ہو تو پھر شروع کریں۔ ویسے تاریخ پڑھنے اور سننے میں نیند آنے لگتی ہے، کہیں تمہارے ساتھ بھی تو ایسا نہ ہوگا؟‘‘
’’نہیں انکل بالکل ایسا نہیں ہوگا، ہم کسی چاق چوبند دستے کی طرح آپ کی باتیں سنیں گے۔‘‘
’’جیتے رہو۔ بیٹا رفیق تم خاص توجہ دینا، کیوں کہ سوال تم نے اٹھایا ہے، دھیان دینے پر تمہیں ہر سوال کا جواب مل جائے گا اور خالد کو بھی کچھ نہ کچھ حاصل ہوگا۔ دیکھو پہلی بات تو یہ ہے کہ چین اور بھارت کے تنازعات نئے نہیں، بلکہ یہ سلسلہ تو 1950ء کی دہائی سے جاری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ 1954ء میں چین اور بھارت نے باہمی معاہدے پر دستخط کیے جس کا مقصد ایک دوسرے کی علاقائی خودمختاری کا احترام کرنا تھا۔ اسی سلسلے میں چین کے وزیراعظم چو این لائی نے جون 1954ء میں بھارت کا دورہ کیا۔ لیکن مارچ 1955ء میں بھارت نے یہ کہہ کر چین کے سرکاری نقشے پر اعتراض کردیا کہ اس میں بھارتی علاقے بھی چین کا حصہ دکھائے گئے ہیں۔ پھر دسمبر 1956ء میں چینی شہریوں کو بھارت نے لداخ سے نکال دیا، جبکہ جنوری 1959ء میں چین کے وزیراعظم چو این لائی نے لداخ اور ارونا چل پردیش کے 40 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کردیا۔ بچو! میری باتوں سے تمہیں بوریت تو نہیں ہو رہی؟‘‘
’’نہیں انکل، یہ تو تاریخی باتیں ہیں جس سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا، آپ اور بتائیں۔‘‘
’’اروناچل پردیش اور لداخ پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرنے کے بعد ستمبر 1959ء میں چین نے کہا کہ وہ برٹش انڈیا دور کی سرحدیں نہیں مانتا، کیوں کہ وہ برطانیہ اور انڈیا کے درمیان 1842ء کے اُس معاہدے کا حصہ نہیں تھا جس میں سرحدوں کی حد بندی ہوئی تھی۔ اپریل 1960ء میں چواین لائی اور نہرو کے درمیان نئی دہلی میں سرحدی تنازع حل کرنے پر مذاکرات ہوئے جو نتیجہ خیز نہ ہوسکے۔ فروری 1961ء میں چین نے سکم میں 12 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اکتوبر 1961ء میں چین اور بھارت کی فوجیں سرحدوں پر ایک دوسرے کے سامنے آگئیں اور گشت شروع کردیا گیا۔ دسمبر 1961ء آیا تو بھارت نے لداخ میں سرحدی چوکیاں قائم کرنا شروع کردیں، جس پر اگست 1965ء میں چین نے بھارتی افواج کی سکم میں موجودگی پر احتجاج کیا اور نومبر 1965ء میں چین کی فوجیں بھی سکم میں گھس آئیں۔ وقت گزرتا گیا اور 1988ء آگیا۔ اس سال دسمبر میں چین اور بھارت کے درمیان تنازعات کے حل اور باہمی تعاون کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے، اور ستمبر 1993ء میں دونوں ممالک کے درمیان افواج کا جوائنٹ ورکنگ گروپ بنانے کا بھی معاہدہ ہوا، جس کے نتیجے میں دوسال بعد دونوں ممالک مشرقی سرحد پر سمدورانگ چو وادی سے اپنی اپنی افواج کے انخلا پر رضامند بھی ہوگئے، لیکن 1998ء میں بھارت کی جانب سے دوسری بار کیے گئے ایٹمی دھماکوں پر چین نے احتجاج کیا اور اگلے سال جون 1999ء میں چین نے بھارت سے مطالبہ کردیا کہ وہ اپنی سرزمین پر دلائی لامہ کی علیحدگی کی سرگرمیوں کو روکے۔ جنوری 2000ء آیا تو چین نے اکسائے چن میں سڑکیں بنانا شروع کردیں جس پر بھارت نے الزام لگایا کہ چین اس کے علاقے میں پانچ کلومیٹر اندر گھس آیا ہے۔ سات سال بعد مئی 2007ء میں چین نے اروناچل پردیش کے وزیراعلیٰ کو یہ کہہ کر ویزا دینے سے انکار کردیا کہ ارونا چل پردیش چین کا حصہ ہے اس لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ بات سمجھ رہے ہو یا میں یوں ہی بولے جارہا ہوں؟‘‘
’’جی جی انکل! ہم آپ کی باتیں توجہ سے سن رہے ہیں، آپ جاری رکھیں۔‘‘
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے، آگے چلتے ہیں۔ جب اکتوبر 2009ء آیا تو چین نے من موہن سنگھ کے دورۂ ارونا چل پردیش پر احتجاج کیا جس سے سرحدی حالات مزید خراب ہونے لگے۔ پھر وہ وقت آیا جب چینی افواج یہ دعویٰ کرتے ہوئے لداخ میں 13 کلومیٹر اندر تک گھس آئیں کہ یہ ان کے صوبے زی جیانگ کا حصہ ہے، مگر پھر پیچھے ہٹ گئیں۔ یہ واقعہ غالباً 2013ء کا ہے۔ حالات میں بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیا۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا یہ 18 واں دور تھا۔ وقت آگے بڑھتا گیا اور جولائی 2017ء میں ایک مرتبہ پھر ڈوکلام کے علاقے میں دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ اکتوبر2019ء میں چین نے جموں و کشمیر پر آرٹیکل 370 کی منسوخی پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ رواں سال مئی میں تبت پنگانگ جھیل کے کناروں پر دونوں افواج کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی جس کے بعد گالوان، سکم اور دیمچوک کے مقامات پر بھی جھڑپیں شروع ہوگئیں، یعنی وہ جگہ جہاں بھارت سڑکیں بچھا رہا ہے۔ اس جھگڑے میں شدت کی وجہ یہی سڑکیں ہیں جنہیں چین اپنے مفادکے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔ پنگانگ سو جھیل کے شمال میں واقع پہاڑ کی ڈھلوانوں سے ایل او سی گزرتی ہے، اس لیے مغربی سیکٹر کی اس متنازع گلوان وادی میں بھارتی تعمیرات کوچین یک طرفہ اور غیرقانونی تصور کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 1962ء سے اس سرحدی علاقے میں کشیدگی چلی آرہی ہے۔ ان کے درمیان شمال مشرق میں واقع ریاست اروناچل پردیش تنازعے پر باقاعدہ جنگ بھی لڑی جاچکی ہے۔ جنگ بندی پر بھارت نے الزام لگایا تھا کہ چین نے ارونا چل پردیش کا 33 ہزار کلومیٹر علاقہ ہتھیا لیا ہے۔ جبکہ چین نے دعوی ٰ کیا کہ ارونا چل پردیش کا تمام علاقہ اس کی ملکیت ہے۔ موجودہ صورت حال میں چین نے یہاں اپنے 5000 فوجی تعینات کردیئے ہیں اور لداخ کے متنازع علاقے میں فوجی سازو سامان کی نقل و حمل بھی شروع کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس مرتبہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، یا یوں کہیے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔‘‘
’’انکل جتنی باتیں آپ بتا رہے ہیں اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ چین اور بھارت کا اندرونی معاملہ ہے، اس میں ہمیں خوشیاں منانے کی کیا ضرورت! یعنی دو ممالک کے درمیان ہونے والی کشمکش سے ہمارا کیا لینا دینا!‘‘
’’رفیق بیٹا! دشمن کا دشمن سجن ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب انکل؟‘‘
’’میرے کہنے کا مطلب ہے جو آپ کا دشمن ہوتا ہے اُس کا دشمن آپ کا دوست ہوتا ہے، بس اسی لیے اس کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر شادیانے بجاتے ہیں۔ یہ فطری عمل ہے۔‘‘
’’یعنی بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ؟‘‘
’’ایسا ہی سمجھو۔‘‘
’’خالد کی رائے میں کسی حد تک وزن ہے، یہ تمہارا ہم عمر ہے اس لیے بھی مسئلہ ہے۔ اس کی عمر کو نہ دیکھو، اس نے جو کہا ہے اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھو، ساری بات سمجھ جاؤگے۔ دنیا بھر کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات سے آگاہی کے لیے اخبارات کا مطالعہ کیا کرو۔‘‘
’’انکل! تو کیا ایسی صورت میں عوام کچھ نہ کریں؟‘‘
’’بعض کام عوام کے ہوتے ہیں اور بعض چیزیں حکمرانوں کو دیکھنا پڑتی ہیں۔ یہ سفارتی معاملات ہوتے ہیں جن پر حکومت کا ردعمل آتا ہے۔ عوام کا کام حالات پر نظر رکھنا اور اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کے ساتھ کھڑے رہنا ہوتا ہے۔ جو تمہارا کام ہے وہ تم کرو، سفارتی معاملات حکومت پر چھوڑ دو۔ ہمارا ایمان یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے ملک پر اگر کسی نے مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو ساری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے گی اور دشمن کو وہ منہ توڑ جواب دے گی جسے تاقیامت یاد رکھا جائے گا۔ یہی ہمارا بھرپور جواب ہوگا اور یہی ہمارے لیے خوشی بھی۔ ہم امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، پڑوسیوں کے ساتھ تمام تصفیہ طلب مسائل پر مذاکرات چاہتے ہیں، بات چیت سے ہی تمام مسائل حل ہوتے ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان ہونے والی حالیہ کشیدگی پر حکومتی مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے مودی سرکار سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کشیدگی بڑھانے کے بجائے جنگی جنون سے باہر نکل کر خطے میں امن وامان اور بھائی چارگی کی فضا قائم کرنے کے لیے کام کرے۔‘‘