عبدالعزیز غوری
مسلمان کلمہ توحید اور انصاف کا پرچم لے کر اٹھے اور دنیائے کفر کو روندتے ہوئے بڑھتے رہے۔انسان کو غلامی کی زنجیروں اور رسم و رواج کے بندھنوں سے آزاد کرایا۔خدائی کے دعویداروں کی تکبر سے اکڑی ہوئ گردنوں کو لاالہ الااللہ کی ضرب کاری سے توڑ دیا…بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات مل گئی۔جہالت و گمراہی کے اندھیرے چھٹ گئے۔علم و عرفان اور ہدایت کا نور پھیل گیا۔
ظلم کا خاتمہ ہوا۔مظلوم کو ظلم سے نجات مل گئی۔امن و انصاف قائم ہوگیا۔ قیصر و کسریٰ کے تاج و تخت زمیں بوس ہو گئے۔ساری دنیا علم و عرفان کے نور سے منور ہوگئی۔بے چین انسانیت کو قرار آگیا۔مسلمانوں کو عدل وانصاف جذبہ جہاداورشوق شہادت نے دنیا کا امام بنا دیا۔دنیا نے ان کی امامت و قیادت کو قبول کر لیا۔مگر جب انہوں نے کتاب و سنت سے روح گردانی تو آہستہ آہستہ مادہ نے روح کی جگہ لے لی۔آخرت پر دنیا کو ترجیح دی جانے لگی۔وہ اقتدار کے لئے آپس میں لڑنے لگے۔ باہمی لڑائی نے انہیں کمزور کر دیا۔ان کی ہوا اکھڑ گئی۔ ان پر نفسانیت غالب آگئی… ظلم وجبر ناانصافیوں اور بدی کی قوتوں نے سر اٹھایا۔اسلامی اخوت کا رشتہ کمزور پڑنے لگا۔ لا دین قوتوں نے زبانوں، علاقوں، قومیتوں اور مسلکوں کا جھگڑا کھڑا کردیا۔ جو تلواریں ظلم و نا انصافی سے نبردآزما ہونے کے لیے بے نیام ہوتی تھیں وہ آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگیں۔ اپنے اقتدار کے لیے مسلمان کی جان، مال، عزت و آبرو مباح ہوگئی۔ بیت المال حکومتوں کے ذاتی تصرف میں آگیا۔قوموں کے عروج و زوال کا وہی قانون یہاں بھی کارفرما ہوا جس کے تحت مسلمانوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت گرائے تھے۔مسلمان جہاد ترک کرکے عیاشی میں ڈوب گئے اور تن آسان ہوگئے۔وہ مظلوم کو ظالم سے نہ بچا سکے۔ بلکہ خود ظالم بن گئے نتیجتاً ان کے بھی عالیشان محل زمیں بوس ہو گئے۔ وہ اپنے محکوموں کے غلام بن گئے۔عرب و عجم، حسب و نسب، جاہ و ہشم اور دولت کے جن بتوں کو عرب کی سرزمین سے نبی اکرم صلی وسلم نے پاک کیا تھا وہاں پر انہی بتوں کی پوجا ہونے لگی۔عشق کی آگ بجھتے ہی مسلمان راکھ کا ڈھیر ہوگئے۔ اپنی بد اعمالیوں باہمی جھگڑوں اور قرآن وسنت سے دوری نے مسلم امہ کا شیرازہ بکھیر دیا۔سقوط دہلی کے ساتھ ہی صدیوں سے قائم مسلمانوں کےاقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔اس تباہی میں دشمن کی قوت و طاقت سے زیادہ مسلمانوں کی اپنی بے حسی اور غداری کارفرما تھی۔وہ اقتدار کے نشے میں اتنے بدمست ہو گئے کہ ان کو نا تو خوف خدا رہا اور نہ ہی شرم پیمبر۔سقوطِ دہلی کے بعد بھی مسلمانوں کو امید تھی کہ ابھی تو ترکی میں ترکی کا سلطان باقی ہے۔ مگر خلافت عثمانیہ کے خاتمے بعد مسلمان بے لنگر جہاز اور کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہو گئے۔ مسلمانوں کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ امید کے چراغ بجھ گئے۔یہود، ہنود ونصاریٰ ایک ہوگئے۔
انگریز اور ہندو پورے ہندوستان پر اپنا نظام مسلط کرنا چاہتے تھے. اچھے خاصے مسلمانوں کو انہوں نے اپنا ہمنوا بنا لیا اور اپنی چالیں چل رہے تھے۔اللہ تعالی مسلمانوں کے عروج کے لیے اپنی تدبیر کررہاتھا۔. ذرا براعظم کی تاریخ پر نظر ڈال کر دیکھیں۔ احمد شاہ ابدالی کا پانی پت کی جنگ میں ہندوستان کی پوری اجتماعی طاقت اور قوت کو شکست دے کر واپس جانا۔ شیر میسور ٹیپو سلطان کا ہندوستان میں مملکت خداداد قائم کرنا۔ انگریز سے صلح کے بجائے لڑائی۔اقتدار بچانے کے بجائے شہادت کو ترجیح دینا۔ علامہ اقبال کا قوم کو بیدار کرنا۔ شکوہ جواب شکوہ، بانگ درا، بال جبریل کا منظر عام پر آنا۔ مسلم لیگ کا قیام۔ اوپر سے اشارے ملنے پر قائد اعظم کا لندن چھوڑ کر ہندوستان آنا۔ہندوستان میں بحالی خلافت کی تحریک چلانا۔ علی گڑھ کا قیام۔ندوۃ العلماء۔ جامعہ ملیہ دہلی کا قیام۔
مولانا مودودی کی کتاب الجہاد فی الاسلام کا منظر عام پر آنا۔23 مارچ 1940کو مسلمانان ہندوستان کا لاہور کے منٹو پارک میں پاکستان کے قیام کی قراداد منظور کرنا۔ 26 اگست 1941 کو دعوت الی اللہ کی عالمی تحریک جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آنا۔ ہندوستان میں لا الہ کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کی تحریک کا چلنا۔پاکستان کے مطالبے پر مسلمانوں کو مارنا۔ان کے گھر جلانا۔ ان کا کاروبار تباہ کرنا ان کی عزتوں کو لوٹنا۔۔ یہ سب پاکستان کے قیام کی تحریک کے دوران ہوتا رہا اور پھر 14 اگست 1947 رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہونا۔قیام پاکستان کے لیے لاکھوں مسلمانوں کا شہید ہونا۔تقریباً ایک کروڑ افراد کا ہجرت کرنا یہ سب ایک آفاقی منصوبہ اور تقدیر کا لکھا تھا۔کعبے کے پاسبانوں نے اسلام کا پرچم پھینک کر قومیتوں کے پرچم اٹھالیے۔ عرب وعجم لڑ پڑے۔۔خدا کا دین کسی کا محتاج نہیں۔اللہ تعالی نے غریب بے سہارا۔ بے وسائل۔دشمنوں میں گھری ہوئی…ناتواں، فرقوں، قومیتوں، زبانوں اور علاقوں میں بٹی ہوئ قوم کو لاالہ کا پرچم ہاتھ میں دے کر خونخوار ظالم، متعصب اور احسان فراموش قوم کے سامنے کھڑا کر دیا۔پاکستان کو امت مسلمہ کا مرکز اور قلعہ بننا تھا۔ لوگ تو کائنات کے مالک کو نہیں مانتے، پیغمبر مصطفی نبی مہربان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں مانتے، آسمانی کتابوں کو نہیں مانتے، آخرت کو مرنے کے بعد زندہ ہونے کو نہیں مانتے۔اگر کچھ نادان، مفاد پرست لوگ پاکستان کی حقیقت کو تسلیم نہیں تو کیا فرق پڑتا ہے!!!!وقت خود ان کو منوائے گا۔. ہمیشہ یہی حکمران نہیں رہیں گے۔ پاکستان قیامت کی صبح تک قائم و دائم رہے گا… انشاءاللہ
یہی پیغام ہے یومِ پاکستان کا کہ اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں۔ آج سے ٹھیک 80 سال پہلے ہم اللہ رب العزت کے بھروسے کھڑے ہوگئے تھے اور ہم نے یہ وطن عزیز حاصل کرلیا۔آج ٹھیک 80 سال بعد وطن عزیز مختلف آفات اوروبائ مرض سے نبرد آزما ہے۔ اس سے بھی اللہ رب العزت ہمیں نکالے گا…انشاءاللہ۔احتیاط، امید اور رجوع الی اللہ