نثار احمد نثار
پاکستان کے جن شہروں میں اردو زبان و ادب کی سرگرمیاںجاری ہیں ان میں میرپور خاص بھی شامل ہے جہاں سندھی‘ اردو مشاعرے اور دیگر ادبی تقریبات منعقد ہوتے ہیں۔ ادارہ ’’دستک‘‘ میرپور خاص اپنی مدد آپ کے تحت طویل عرصے سے اس شہر میں مصروف عمل ہے گزشتہ ہفتے اس ادبی تنظیم نے پروفیسر انوار احمد زئی کی یاد میں تعزیتی ریفرنس منعقد کیا۔ چوں کہ ان دنوں کورونا وائرس اپنے زورروں پر ہے لہٰذا SOP’s کا خیال رکھتے ہوئے مختصر نشست ترتیب دی گئی جس کی صدارت ممتاز شاعر محمد حسین ماہر اجمیری نے کی۔ عدنان قمر نے انوار احمد زئی کا سوانحی خاکہ‘ تعلیمی خدمات اور ان کی کتابوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انوار احمد زئی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے اس قسم کے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کے دشمن بھی ان کی خداداد صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ انوار احمد زئی نے زندگی بھر جہالت کے خلاف جہاد کیا۔ انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے وہ جس ادارے سے منسلک ہوئے‘ اس ادارے کی عزت و شہرت میں اضافہ کیا۔ عدنان قمر نے مزید کہا کہ ادارۂ دستک کی تقریبات کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد میں بھی ان کی ملاقاتیں انوار احمد زئی سے رہی ہیں وہ چھوٹے کو بھی عزت دیتے تھے اور بڑوں کا احترام بھی کرتے تھے‘ وہ علمی‘ ادبی یا مذہبی مسائل کا حل باآسانی پیش کر دیتے تھے۔ علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی کی تفہیم ایک لیکچر میں جیسی انوار احمد زئی بنے سمجھائی تھی ویسی میں نے آج تک نہ پڑھی اور نہ آج تک سنی ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال پر بھی کام کیا تھا۔ ان کی عمر نے وفا نہ کی ورنہ ہم ان کی صلاحیتوں سے مزید مستفیض ہوتے۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے نعتیہ ادب کی ترویج و ترقی میں حصہ لیا۔ وہ سچے عاشق رسول تھے۔ اعجاز بابو خان نے انوار احمد زئی کے افسانوںکی کتاب ’’دل دریچے‘‘ کے حوالے سے کہا کہ ان کے افسانوں میں زندگی رواں دواں ہے انہوں نے معاشرتی مسائل‘ سیاسی مسائل اور عالمی مسائل پر اپنا قلم اٹھایا اور خوب داد وصول کی انہوں نے خاکہ نگاری بھی کی اور ڈرامے بھی لکھے ان کا اسلوب نہایت دل آویز ہوتا تھا ان کے یہاں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ساتھ مضامین کی رنگا رنگی بھی موجود ہے۔ انوار زئی ماہر تعلیم بھی تھے اور خطابت میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے تھے جب وہ بات کرتے تھے تو محسوس ہوتا تھا کہ حرف و معانی کا سیل رواںجاری ہے۔ ذیشان عثمانی نے پروفیسر انوار احمد زئی کے افسانوں کے مجموعے ’’آنکھ سمندر‘‘ کے چند افسانوںکو موضوع گفتگو بتاتیہوئے کہا کہ ان کے افسانے کے موضوعات نہ صرف پاکستانی تہذیب و ثقافت کے علمبردار ہیں بلکہ انہوں نے بین الاقوامی مسائل پر بہت کچھ لکھا ہے‘ ان کے ہاں ابتدا سے آخر تک کہانی مضبوط رہتی ہے‘ وہ کرداروں سے انصاف کرنا جانتے تھے۔ پروفیسر عزیز احمد نے کہا کہ وہ پروفیسر انوار احمد زئی کے وسیع مطالعے اور فن گفتگو سے متاثر ہیں۔ محفل میں ان کا پُرکشش اندازِتکلم دلوں میں اتر جاتا تھا‘ ان کی یادداشت بھی کمال کی تھی۔ انہیں لفظوں کی نشست و برخاست پر عبور حاصل تھا‘ انھیں واقعات کے تسلسل کے ساتھ بیان کرنے پر بھی قدرت حاصل تھی۔ پروفیسر عزیز احمد نے پروفیسر انوار احمد زئی کے سفر ایران کا احوال بھی بتایا۔ انوار زئی کا انتقال ہم سب کا نقصان ہے۔ نوید سروش نے بہ عنوان ’’بڑا آدمی‘‘ اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ انوار احمد زئی نے ہمیشہ رشتوں کا احترام کیا‘ انسان دوستی کی قدر کی۔ انہوں نے بھی علم و ادب کی انسانی زندگی پر اثرات سے ہمیں آگاہ کیا۔ انوار احمد زئی ایک وسیع المطالعہ شخصیت تھے‘ وہ روزانہ چار گھنٹے مطالعہ کیے بغیر سوتے نہیں تھے‘ یہ ان کا معمول تھا۔ نوید سروش نے کہا کہ انہوںنے پروفیسر انوار احمد زئی کے ساتھ بہت وقت گزارا ہے۔ اٹھارہ ‘ اٹھارہ گھنٹے ان کے ساتھ کام کیا ہے وہ کام کرنے اور مطالعہ کو بہت اہمیت دیتے تھے‘ وہ ایک نفیس انسان تھے ان کی شخصیت انسان دوستی کا معتبر حوالہ تھی۔ وہ علم و فن کی درس گاہ تھے‘ وہ قلم قبیلے کے لوگوںاور اپنے رشتے داروں کی بہت قدر کرتے تھے انہوں نے اپنے بیٹے عزیز احمد زئی کی شادی کے موقع پر سہروں کی کتاب شائع کی جس میں ڈاکٹر نثار احمد نثار نے اہم کردار ادا کیا‘ نثار احمدنے شعرا سے سہرے لکھوائے‘ یہ کتاب ڈاکٹر مسرور احمد زئی کی نگرانی میں شائع ہوئی جس کا نام ’’سلسلہ روشنی کا‘‘ ہے۔ یہ کتاب سہروںکے تناظر میں ایک دستاویزہے اورعزیز احمد زئی کے لیے ایک انمول تحفہ بھی۔ انوار احمد زئی نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر ایک کتابچہ شائع کیا تھا اس موقع پر شعرائے کرام نے ان کی بیٹی کے لیے ’’رخصتی‘‘ کے اشعار کہے تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی کے انتقال پر عبارت کا خصوصی نمبر شائع کیا اور اپنی بیوی کو شاندار انداز میں خراج عقیدت پیش کیا۔ نوید سروش نے مزید کہا کہ جب پروفیسر انوار احمد زئی میرپور خاص بورڈ میں چیئرمین تھے تو کبھی کبھار وہ رات کے دو ڈھائی بجے بھی مجھے فون کر دیا کرتے تھے کہ آج ان کے پاس مطالعے کے لیے کوئی کتاب نہیں ہے ’’کچھ کرو‘‘ میںایک مخصوص جگہ ان کے گھر کی دیوار پر کتاب رکھ کر‘ اس پر پتھر رکھ دیا کرتا تھا تاکہ کتاب ہوا سے اُڑ نہ جائے اور زئی صاحب کو فون کردیا کرتا تھا کہ’’مال پہنچا دیا ہے‘‘ وہ میرا یہ جملہ سن کر بہت محظوظ ہوتے تھے۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے ریڈیو فیچر اور خاکہ نگاری سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا پھر تو یہ سلسلہ افسانے‘ کالم نگاری‘ مضامین‘ سفر نامے تک جا پہنچا۔ وہ ایک کامیاب معلم‘ ماہر تعلیم‘ مبصر‘ نقاد‘ اعلیٰ منتظم اور مذہبی اسکالر تھے‘ وہ مختلف ٹی وی پروگراموں سے ملنے والی رقم کسی مسجد یا مدرسے میں دے دیتے تھے۔ ان کی کتابوں کی اشاعت میں مسرور احمد زئی کا اہم کردار ہے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے پروفیسر انوار احمد زئی کے ایک خاکے جگت استاد پر بات کرتے ہئے کہا کہ یہ خاکہ انوار احمد زئی کے بہترین خاکوں میں سے ایک ہے۔ حافظ حبیب اللہ فیضی نے انوار احمد زئی کے افسانوں کی کتاب قلم گوہر سے ایک افسانہ سنایا اور اس کے تمام پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہر شخص انوار احمد زئی کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا معترف ہے وہ بہت بڑے نثر نگار تھے بلاشبہ وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے وہ ہمہ جہت شخصیت تھے وہ اس دنیا سے چلے گئے لیکن وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں انہوں نے اپنے اعمال سے نام کامیا۔ ان کی موت سے ہمیں ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے ان کے ہزاروں شاگر اور ان کے بے شمار عقیدت مند سوگوار ہیں۔ آل پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن میرپور خاص کے صدر فیصل زئی نے کہا کہ انوار احمد زئی سے ہمارے خاندانی مراسم تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات چہار بیت کی ایک محفل میں ہوئی تھی وہ ایک اچھے ماہر تعلیم تھے‘ انہوں نے طلباء و طالبات کی ذہنی نشوونما کے حوالے سے مفید مشوروں سے نوازا۔ انہوں نے پرائیویٹ اسکولوں کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ادارہ تعلیمی میدان میں اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔ میٹرک بورڈ میں فرسٹ کلاس فرسٹ آنے والوں میں پرائیویٹ اسکولوں کے طالب علم ہوتے ہیں وہ ہمارے ادارے کے چیئرمین خالد شاہ کے ساتھ بھی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے اور ہر پروگرام میں شرکت کرکے پرائیویٹ اسکول انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ صاحب صدر تقریب محمد حسین ماہر اجمیری نے کہا کہ پروفیسر انوار احمد زئی صرف علم و ادب اور درس و تدریس ہی کا بڑا نام نہیں تھا بلکہ وہ ایک بڑے انسان بھی تھے‘ وہ ہر محفل میں اپنی صلاحیتوں کی بنا پر چھا جاتے تھے۔ ناقدینِ علم و فن نے انوار احمد زئی کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ہے ان کی موت ایک عظیم سانحہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اس موقع پر ماہر اجمیری نے انوار احمد زئی کے لیے چند اشعار بھی پیش کیے:۔
یاد کرتے ہیں تجھ کو یہ اہل چمن
بن ترے سونی سونی ہے یہ انجمن
یاد آتا ہے رہ رہ کے تیرا سخن
تیری فرقت کی رہتی ہے دل میں چبھن
یاد آتی ہے وہ تیری زندہ دلی
اے مرے دوست انوار احمد زئی
ڈاکٹر آصف فرخی اور تاج بلوچ کے لیے اکادمی ادبیات کا تعزیتی ریفرنس
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ملک کے معروف ادیب‘ نقاد‘ مترجم‘ افسانہ نگار ڈاکٹر آصف فرخی اور سندھی زبان کے معروف ادیب شاعر تاج بلوچ کے لیے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر اختر سعیدی نے کہا کہ ڈاکٹر آصف فرخی نے اپنی ساری عمر ادب اور زبان کی خدمت میں گزار دی۔ آپ نے کئی کتابوں کے تراجم کیے‘ آپ تمام افسانہ نگاروں میں سب سے اہم ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹر آصف فرخی کی خدمات کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی کیوں کہ انہوںنے علم و ادب کا ایسا گوشہ نہیں اس پر اپنی بصیرت و بصارت کا نقش نہیں چھوڑا یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ تہذیبی تمدنی تاریخ پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔ ادب کلچر اور مسائل ان کے افسانوں کی حقیقت کی آئینہ دار ہیں ‘ آپ کی علمی و ادبی خدمات کی لاتعداد جہتیں ہیں جنہیں محدود اوراق میں سمونا آسان نہیں۔ عبدالغفور کھتری نے کہا کہ سندھی شاعری کے جدید افکار کو جن شاعروں نے دریافت کیا تاج بلوچ اس قافلے کے اہم کارکن تھے۔ تاج بلوچ نے جدید سندھی ادب اور تنقید کو بھی پروان چڑھایا۔ بیسویں صدی کے سندھی ادب پر شاعری ہو یا کہانی آپ کی تنقیدی نگاہ عالمانہ طرز کی تھی۔ ڈاکٹر نثار احمد نثار نے کہا کہ آصف فرخی کے ہر افسانے میں نیا رنگ ہے۔ موضوعاتی زاویوں میں نیا پن ہے‘ طرز نگارش میں ایک تنوع ہے‘ کرب‘ دکھ‘ تلخی اور روح کو جھنجھوڑ دینے والا احساس نمایاں ہے۔ ان کے افسانے فحش نگاری کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ ان میں مقصدیت‘ اصلاح معاشرہ اور اخلاقیات کے گونا گوں گوشے کھلتے جاتے ہیں۔ قادر بخش سومرونے کہا کہ ڈاکٹر آصف فرخی اور تاج بلوچ ان چند دانش وروں اور شاعروںمیں تھے جو ادبی دنیا کے سرخیل تھے۔ آپ دونوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں متعدد نسلوں کو نہ صرف فکری سطح پر متاثر کیا بلکہ اپنے علم سے بالیدگی کا سرچشمہ بھی ثابت ہوئے اس موقع پر بڑی تعداد میں ادیبوں اور شاعروں نے دونوں شخصیات کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جن شعرا نے کلام سنایا ان میں اختر سعیدی‘ ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ عبدالمجید محور‘ سیف الرحمن سیفی‘ رفیق مغل مہر جمالی‘ نشاط غوری‘ عارف شیخ‘ عارف عبدالغفور کھتری‘ محسن نقی اور دیگر شامل تھے۔
سرور جاوید بھی داغِ مفارقت دے گئے
قلم قبیلے کے لوگوں کے لیے رواں سال بہت بھاری ثابت ہوا‘ گزشتہ پندرہ روز کے دوران چار ادبی شخصیات دارِ فانی سے رخصت ہوئیں پروفیسر انوار احمد زئی‘ ڈاکٹر آصف اسلم فرخی اور تاج بلوچ کی جدائی کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ 13 جون کوسرور جاوید بھی داغِ مفارقت دے گئے۔ سرور جاوید ایک متحرک شخصیت کا نام تھا‘ وہ 22 فروری 1947 کو پیدا ہوئے ۔ سرور جاوید شاعری‘ تنقید اور صحافت کو ساتھ ساتھ لے کر چلے۔ بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ وہ ماہر تعلیم بھی تھے۔ وہ غزل کے بڑے شاعر تھے یا نظم کے‘ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ دونوں اصنافِ سخن میں ان کے کمالات نمایاں ہیں۔ ایک نقاد کی حیثیت سے بھی ان کی خدمت مثالی ہیں وہ کٹر ترقی پسند تھے انہوں نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کی وہ عام گفتگو میں بھی انتہائی بے باک واقع ہوئے تھے۔ سچ لکھنا اور جھوٹ سے نبرد آزمانا ہونا ان کی سرشت میں شامل تھا۔ انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ کبھی کوئی رعایت نہیں کی انہیں جو بری بات لگتی تھی اس کا برملا اظہار کر دیا کرتے تھے۔ اس دور میں کوئی دوسرا نقاد ہمیں نظر نہیں آتا جو سرور جاوید جیسا کھرا ہو۔ انہوں نے جس کتاب پر بھی لکھا اس کی خوبیاں بیان کرنے کے علاوہ کتاب میں موجود عیوب کی نشاندہی بھی کی۔ انہیں اپنے اس رویے کے سبب نقصان بھی ہوا۔ ایک نقاد کی حیثیت سے انھیں جو مقام ملنا چاہیے تھا وہ نہ مل سکا لیکن وہ تمام زندگی اپنی روش پر قائم رہے۔ سرور جاوید ایک کمیٹڈ ترقی پسند تھے اگر وہ چاہتے تو انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہر اوّل دستے میں شامل ہو کر اپنی ادبی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے تھے لیکن انہوںنے نام نہاد ترقی پسندوں کو ہمیشہ آئینہ دکھایا۔ انہوں نے آزاد خیال ادبی فورم قائم کیا جس کے تحت وہ پندرہ روزہ ادبی نشست منعقد کرتے رہے یہ ان کی مستقل مزاجی کا ثبوت ہے۔ سرور جاوید کی کتابوںمیں ہجر کے آدمی ہیں ہم (غزلیہ مجموعہ)‘ خواب بدل گئے میرے (غزلیہ مجموعہ)‘ متاع نظر اور اردو نظم کی عظیم روایت شامل ہیں اور غزلوں پر بھی کام کر رہے تھے جو تقریباً مکمل تھا لیکن ان کی زندگی نے وفا نہیں کی۔ ان کی نثری اور شعری کتابیں ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ ہر نسل کے لوگ ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔وہ کراچی کےمیں آسودہ خاک ہوئے‘ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے‘ آمین۔
غزل
نظرؔ فاطمی