مرزا عاصی اختر
علم و ادب کا ایک اور روشن، آب دار ستارہ نیلے آسمان کی پہنائیوں میں کہیں گم ہوگیا۔ خوش فکر شاعر، منفرد ادیب اور استاذالاساتذہ پروفیسر حبیب ارشد اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور سچے پاکستانی تھے اور اپنے شاگردوں میں بھی یہی روح پھونک دیا کرتے تھے ان کی مثال سمندر میں نصب اس لائٹ ہائوس کی سی تھی جو بھٹکے ہوئے مسافروں جمگھٹے کو منزل کی طرف گامزن کردیتا ہے۔ تشنگانِ علم و ادب کے جم گھٹے ان کے در دولت پر ہمہ وقت حاضر رہتے تھے اور علم و ادب کی اس ندی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے۔ کوئی کسی دقیق موضوع پر تقریر لکھوانے آتا تھا تو کوئی فنِ شاعری کے اسرار و رموز سیکھنے آجاتا تھا۔ کوئی ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں پر ان سے مدد کا خواہاں ہوتا تھا۔ غرض ان کے دروازے ہمہ وقت ضرورت مندوں کے لیے کھلے رہتے تھے۔
وہ ایک علمی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ علامہ سیمیاب اکبرآبادی کے ہونہار شاگرد عرش سیمابی سے انہیں شرف تلمذ حاصل تھا۔ حیدر آباد سندھ کے ادبی منظرنامے میں انہوں نے جو دل آویز رنگ بھرے وہ اہل حیدر آباد تادیر نہیں بھول پائیں گے۔ وہ اپنے شہر کی ایک نمایاں ادبی تنظیم خلیسانِ ادب کے بانی تھے۔ غالباً 1978-79ء میں انہوں نے چند نوجوانوں کے ساتھ مل کر یہ ادبی تنظیم قائم کی۔ ان نوجوانوں میں حیدر آباد کے ایک پرجوش مقرر مشتاق احمد خان (قمر مشتاق) خوش فکر اور نمائندہ شاعر عتیق احمد جیلانی، شاعر رشید ہزاروی اور راجہ فیض الحسن شامل تھے۔
جلیسانِ ادب نے اپنے آغاز میں ہی پے در پے ادبی تقریبات برپا کر کے حیدر آباد کے ادبی منظرنامے کو یکسر تبدیل کردیا۔ اس طرح یہاں کے نوجوانوں کو ایک بہترین ادبی پلیٹ فارم مہیا کردیا۔ کہکشاں کے تحت شام افسانہ کا آغاز کیا اور ایک گیت، ایک غزل، ایک نظم پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی طرح مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار سلیم احمد اور ان کے بھائی ممتاز نقاد شمیم احمد کے ساتھ ایک شام کا انعقاد کیا جو آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ کراچی کے عہد ساز اور نمائندہ شاعر سلیم کوثر کے ساتھ بھی ایک خوبصورت شام منائی گئی اور جی بھر کے ان کی شاعری سنی گئی۔
پروفیسر حبیب ارشد نے ایک اور ادبی ادارہ ’’قصرالادب‘‘ کے نام سے قائم کیا۔ اس ادارے کے تحت انہوں نے ایک ادبی جریدہ ’’رسالہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ جو خاصا ضخیم تھا۔ پھر ایک اور ادبی پرچہ ’’امکانات‘‘ کے نام سے نکالا۔ حیدر آباد کے ابھرتے ہوئے شاعر ظہیر الدین شمس کے اولین شعری مجموعے ’’کوئی آواز دے رہا ہے مجھے‘‘ بھی اسی ادارے کے تحت منصہ مشہود پر آیا۔ اس کے علاوہ بے شمار ادبی نشسیں، مشاعرے اور کچھ کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔
حبیب ارشد مرحوم کے تقریباً تمام شاگرد نامور ہوئے اور آج کے ادبی منظر نامے میں ایک منفرد مقام حاصل ہیں۔ مرحوم اپنے جونیئرز کا بہت احترام کرتے تھے۔ ادب کے فروغ کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے پیش پیش رہتے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ 2006ء کا سال مرزا غالب کی صدی کے سال کے طور پر منایا جارہا تھا اور غالب کی زمینوں میں میری شگفتہ غزلوں کا مجموعہ اسی سال منظر عام پر آیا تھا۔ انہوں نے اس کتاب کے بیس نسخے مجھ سے قیمتاً خریدے اور ایسا ایک بار نہیں ہوا میری چاروں کتابوں کی انہوں نے اسی طرح پذیرائی کی اور رقم بھی فی الفور ادا کردی۔ یقینا دوسرے ادباء و شعراء کے ساتھ بھی ان کا سلوک ایسا ہی مشفقانہ رہتا ہوگا۔
آخر میں بارگاہِ رسالت میں دعاگو ہوں کہ اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور تشنگان ادب کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔