دورۂ قرآن اور ہم

653

فرحت طاہر
یادش بخیر، ایک زمانے میں گرمیوں کے روزے اور چھٹیاں ایک ساتھ آگئیں۔ امی چھوٹے بچوں کے ہمراہ نائیجیریا گئی ہوئی تھیں جہاں ابا جان بسلسلہ روزگار مقیم تھے، اور گھر میں ہم چار بڑے بہن بھائی رہ گئے۔
حسنِ اتفاق کہ پنڈی سے طیبہ آصف (شفائی) شادی ہوکر ہمارے محلے میں آباد ہوگئی تھیں۔ انہوں نے لڑکیوں کے لیے رمضان میں اجتماعی مطالعۂ قرآن رکھا جس میں ہم دونوں بہنوں کے علاوہ عائشہ، شاکرہ، صائمہ اور لبنیٰ کے ساتھ کچھ اورخواتین بھی شریک ہوتیں۔ قرآن کو اجتماعی طور پر سمجھنے کا بہت خوشگوار تجربہ رہا، ورنہ اس سے پہلے تو رمضان میں ختمِ قرآن کی تعداد پر ہی زور رہتا تھا۔ بہت سی اچھی اور نئی باتیں سیکھنے کو ملیں۔ آج بھی جتنی دعائیں یاد ہیں اُن میں سے بیشتر اسی رمضان میں یاد کی تھیں۔ نتیجتاً رمضان کے اختتام پر میں نے پردہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ کیا ردعمل ملا، کیا اثرات ہوئے، وہ ایک الگ موضوع ہے۔
قرآن سے جو تعلق بنا، اگلے سال رمضان میں بھی یہ تجربہ دہرایا۔ پھر طیبہ باجی سعودی عرب چلی گئیں تو بظاہر سلسلہ منقطع ہوگیا، مگر اپنے طور پر قرآن سے سیراب ہوتے رہے۔ خوش قسمتی سے جلد ہی رقیہ احسان ہمارے علاقے میں منتقل ہوئیں تو قرآن سے پھر اچھا سا تعلق بن گیا۔ یہ زندگی کے بہترین سال تھے۔ لیکن موسم کی طرح حالات بھی تبدیل ہوتے ہیں، چنانچہ جب ہم یہاں سے شفٹ ہوئے تو ایک دفعہ پھر دورہ قرآن کی بہار ختم ہوگئی۔
1995ء میں ہم گلستان جوہر منتقل ہوئے تو زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ گھنی جھاڑیوں اور اونچے نیچے ٹیلوں میں گھرا ہمارا گھر ایک چٹان پر بنا تھا جہاں اِکا دُکا گھر بنے ہوئے تھے۔ وہاں آبادی ناپید تھی تو کوئی حلقہ قرآن ڈھونڈنا عبث ہی تھا۔ ہم دورہ قرآن اور باجماعت تراویح دونوں کی کمی محسوس کررہے تھے۔
اب رمضان سردیوں میں آنے لگے تھے۔ زندگی کا دائرہ تبدیل ہوچکا تھا تو بحیثیت اسکول ٹیچر بچوں کے ساتھ قرآن کو منفرد، دل چسپ اور آسان انداز سے سیکھنے اور سکھانے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ رمضان میں انفرادی ذاتی مطالعے یا پھر گھر کے لوگوں کے ساتھ مل کر قرآن پڑھنے کے علاوہ سحری اور افطاری کے لوازمات پر توجہ رہتی ۔
نومبر 1999ء میں شعبان کا مہینہ تھا جب اخبار میں خبر پڑھی کہ دارارقم میں 15 شعبان سے دورہ قرآن مولانا عطا الرحمن لیں گے۔ ہم دونوں بہنوں نے اس میں شرکت کا ارادہ کرلیا، کیونکہ اسکول سے فراغت تھی۔ اب مسئلہ تھا اس مقام کو ڈھونڈنے کا۔ بہن کا کہنا تھا کہ ڈرائیونگ سیکھنے کے دوران وہ اس علاقے میں جاچکی ہے تو اسے علاقے کا اندازہ ہے۔ مگر بہن کا یہ اعتماد ہمیں اُس وقت مہنگا پڑا جب وہاں پہنچ کر کئی گھنٹوں گھومنے کے باوجود ہم دارارقم تلاش نہ کرپائے۔
خیر جب ہم تھک کر چُور ہوگئے، اور ہم دونوں جھنجھلاہٹ کا شکار ہوکر ایک دوسرے پر بڑبڑا رہے تھے تو اچانک نوتعمیر شدہ عمارت پر نظر پڑی جس پر دارارقم کا نام چمک رہا تھا۔ ہم نے فاتحانہ انداز سے ایک دوسرے کو دیکھا، گویا قلعہ فتح کرلیا ہو! مگر اس تک پہنچنا ابھی بھی محال تھا کیونکہ بیچ میں بہت بڑی کھائی تھی۔ ہم اسی طرف اتنی دیر سے بھٹک رہے تھے تو نظر نہ آیا تھا۔خیر اب واپس جانے کی ہمت نہیں تھی، اور ویسے بھی تعارفی پروگرام اگلے دن سے شروع ہونا تھا، وہ تو ہم احتیاطاً یا شغل کے طور پر اس جگہ کو دریافت کر نے کے لیے ایک دن پہلے نکل کھڑے ہوئے تھے۔
ہمارے اس مہماتی سفر کو اباجان نے خاصا پسند کیا، کیوں کہ ان کی ہدایت تھی کہ امتحان گاہ یا کسی نئی جگہ بروقت پہنچنے کے لیے پہلے سے اس جگہ کا دورہ لازمی ہے۔ خیر اگلے دن انہوں نے ہمیں ویگن میں بٹھا دیا کہ یہ وہیں اتارے گی۔ سڑک عبور کرکے پل سے اتر کر دارارقم ہے۔
نئی تعمیر شدہ عمارت میں ہال کے اندر بیچ میں پردہ لگا کر خواتین کا حصہ علیحدہ کیا گیا تھا۔ مائیک سسٹم کی وجہ سے آواز مناسب تھی۔ تعارفی کلاس اچھی رہی۔ دو گھنٹے بعد وقفہ ہوا اور چائے پیش کی گئی۔ حصہ خواتین میں ہم دونوں کے علاوہ گلشن سے شاہین فاطمہ تھیں۔
واپسی رکشے پر ہوئی اور رکشے والا مستقل طور پر گرجتا برستا رہا، کیونکہ ہم درست طریقے سے اپنا گھر بتانے سے قاصر تھے۔ ہم میں سے کوئی لیفٹ کہتا تو دوسرا رائٹ… اور پھر سب سڑکیں، گلیاں گھنی جھاڑیوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ رکشے والامسلسل کہہ رہا تھا ’’پتا نہیں کس جنگل مں لے جارہی ہیں؟‘‘ اس کی بڑبڑاہٹ سے تنگ آکر ہم گھر سے بہت پہلے اتر گئے۔ اگلے دن سے یہ سوال اٹھا کہ آمد ورفت کے لیے کون سا راستہ منتخب ہو؟ کامران چورنگی سے وین لی جائے یا موسمیات سے؟ یونیورسٹی روڈ کا راستہ بھی ممکن تھا، مگر اس میں تین بسیں بدلنی پڑتیں۔ ہم دونوں کے موڈ اور پسند کے مطابق روزانہ سفر کی منزلیں طے ہوتیں۔
بچپن میں قاری صاحب سے قرآن پڑھنے کے بعد ہم پہلی دفعہ کسی عالم دین سے بالمشافہ زانوئے تلمذ تہہ کررہے تھے۔ ان کے لہجے اور انداز سے جھلکتا تھا کہ وہ تازہ تازہ تعلیم سے فارغ ہوئے ہیں۔ ایک تو ان کی گلابی اردو، اوپر سے پسندیدہ موضوع ’’تقابلِ ادیان‘‘تھا، اور اس میں بھی خصوصاً بہائی فرقے پر بیان کرتے کرتے بہت دور نکل جاتے۔ درس کے دوران اکثر ہمیں اونگھ سی لگ جاتی اور جب چونک کر اٹھتے تو ہم دونوں معنی خیز انداز میں مسکراتے کہ ابھی بہائی فرقے کا ہی ذکر چل رہا ہے۔ وہ اپنے 12۔13 سالہ علوم کا سارا خزانہ ہم دو چار لوگوں پر انڈیلنے میں مصروف تھے (مردانہ حصے میں بھی دو افراد نظر آئے تھے)۔ افسوس ہوتا تھاکہ اتنا اچھا کورس ہورہا ہے اور گنتی کے چند لوگ ہی موجود ہیں! ہاں کبھی کبھی جماعت کی کچھ اور خواتین بھی آجاتیں، لیکن جس دن اختتامی درس اور 40 روزہ کورس کی تقریبِ اسناد تھی، اُس دن خواتین کا حصہ مکمل طور پر بھرا ہوا تھا۔ سرٹیفکیٹ کے ساتھ فی ظلال القرآن کی پہلی جلد بھی انعام میں ملی، الحمدللہ۔
2000ء اور 2001ء میں ابا کے ساتھ شیخ زید سینٹر میں تراویح یا پھر کبھی کبھی بڑے بھائی کی فیملی کے ساتھ فاران کلب میں تنظیم اسلامی کے دورۂ قرآن میں شرکت رہی۔ اگرچہ باقاعدگی نہ سہی مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ تسکین ہوتی رہی۔ 2002ء کے رمضان میں ابا جان بیمار تھے، زیادہ تر وقت اسپتالوں کے چکر میں گزرا، لہٰذا قرآن سے سیرابی ممکن نہ ہوسکی۔ 2003ء میں سٹی گورنمنٹ کے تحت عائشہ منزل پر اسلامک سینٹر کا افتتاح ہوتے ہی دورۂ قرآن کا آغاز ہوگیا۔ یہاں بھی مولانا عطا الرحمن صاحب تفسیر قرآن کروا رہے تھے، حالانکہ وہاں پہنچنا کارِ دراز تھا، مگر پھر بھی نیت کی بدولت اللہ نے مدد فراہم کردی کہ نعمت اللہ خان کے دورِ نظامت میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہت اچھا تھا۔ ایک بس کے ذریعے باآسانی پہنچ جاتے۔ اپنے دورِ معلمی میں اس علاقے سے واقفیت نے کوئی مشکل نہ ہونے دی۔ واپسی البتہ دو بسوں سے ہوتی، مگر اس میں بھی یہ فائدہ ہوتا کہ بازار کے سامنے سے بس ملتی اور یوں عید کی خریداری بھی آسان ہوگئی۔ چونکہ مرکز قرآن و سنۃ کا افتتاح آمدِ رمضان کے باعث بہت جلدی میں ہوا تھا، لہٰذا آڈیٹوریم میں کرسیاں تک نہ لگی تھیں۔ ہم سیڑھیوں پر بچھی دریوں پر بہت آرام سے دورۂ قرآن سے مستفید ہوتے۔ یہاں اپنے بہت سے سابقہ کولیگز اور شاگردوں سے ملاقات بھی خوشی کا باعث بنی۔ اگلے سال یعنی 2004ء میں بھی یہی پریکٹس رہی، مگر افسوس 2005ء میں ایم کیو ایم کی حکومت ہونے کے باعث یہ سعادت ختم کرکے اس سینٹر کی نوعیت بدل دی گئی۔ ’’اسلامک سینٹر‘‘ سے نام بدل کر ’’ثقافتی مرکز‘‘ رکھ دیا گیا اور ناچ گانے کے پروگرام ہونے لگے۔ اس کے علاوہ نئی قیادت نے شہر میں کھدائی کا ایسا طوفان مچایا کہ سفر کرنا نہایت مشکل ہوگیا۔ اور یوں 2005ء اور 2006ء میں الہدیٰ کے تحت گلشن اقبال میں ہونے والے دورۂ قرآن میں شرکت کرکے پیاس بجھائی۔
2007ء تک ہمارا علاقہ خاصا آباد ہوگیا تھا، جماعت کی خواتین اور حلقے سے رابطہ ہونے کے باعث دورۂ قرآن اور تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں محض سامع نہیں، بلکہ اس میں حصہ لینا پڑتا تھا۔ یوں دل چسپی برقرار رہتی۔ نیز سماجی ضروریات بھی مقامی سطح پر پوری ہونے لگیں۔ یہ سلسلہ یوں ہی چل پڑا تھا۔ 2013ء میں عام انتخابات کے دوران بہت سی نوجوان خواتین سے رابطہ ہوا، جس کے فوراً بعد ہی رمضان شروع ہوگئے تو انہیں دورۂ قرآن کروانے کے لیے ہم سے اصرار ہوا جسے ہم نے قبول کرلیا۔ اگرچہ وہ ہمارے گھر سے ذرا فاصلے پر تھا۔ بہت محنت سے تیاری کرتے ہوئے دورۂ قرآن کروایا۔ سب نے بہت پسند کیا۔ اس کے بعد انہی خواتین کے لیے الگ سے پروگرام کروائے اور انہیں نظم کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔
2015ء کے رمضان میں ہیٹ اسٹروک کا سامنا تھا۔ ایک نوجوان خاتون نے قرآن انسٹی ٹیوٹ سے دورۂ قرآن کرنے کا ارادہ کیا اور ہمیں اپنے ساتھ چلنے کی آفرکی، جو ہمیں بہت اچھی لگی۔ دو دن ہی گزرے تھے کہ حلقے کی ناظمہ نے ایک نئے گروپ کو دورۂ قرآن کروانے کی درخواست کی جو ہم نے قبول کرلی۔ یہ ہمارے گھر سے قریب بالکل نئے افراد تھے۔ ایک دفعہ پھر نئی اُمنگ کے ساتھ قرآن سے جڑنے کی کوشش کی۔ الحمدللہ بہت ہی اچھا تعلق بن گیا، جو ابھی تک قائم ہے، حالانکہ اکثر محلہ چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
نئے افراد کے ساتھ دورۂ قرآن کروانا ہمیں اُس وقت بہت اچھا محسوس ہوا جب ان میں سے کئی نے خانگی معاملات سے آگہی کے بعد اسے درست کیا۔ مثلاً نکاح میں مہر کو عورت کا حق جاننا وغیرہ۔ 2016ء میں ہم نے گھر اور قریبی افراد کے ساتھ اجتماعی قرآن پڑھا۔ 2017ء سے 2019ء تک انتظامی ذمے داریوں کے باعث کسی ایک جگہ دورۂ قرآن کروانا ہمارے لیے ممکن نہ تھا، مگر پھر بھی 2018ء میں ایک پوائنٹ بہت اچھا ملا جو بعد ازاں نئے حلقے میں تبدیل ہوگیا، ماشاء اللہ۔
2020ء میں دورۂ قرآن کی منصوبہ بندی سے پہلے ہی لاک ڈائون شروع ہوگیا تھا، تو آن لائن دورۂ قرآن کے شیڈول سامنے آگئے۔ الحمدللہ ہمارا نظم شروع سے ہی اس پر کام کررہا ہے۔ میڈیا سے وابستہ ہونے کے باعث ابتدا سے ہی اس کا حصہ رہی تھی۔ جب دس، بارہ سال قبل آن لائن دورۂ قرآن کا ٹرائل ورژن شروع ہوا تھا، اُس وقت ریکارڈنگ دو دن بعد اَپ لوڈ ہوتی تھی اس لیے آن لائن لینا ضروری تھا۔ صبح اس سے مستفید ہوتے اور پھر اپنے مقامی دورۂ قرآن میں اس کی دہرائی کروا لیتے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر کوثر فردوس، پھر ڈاکٹر رخسانہ جبین… اور پھر یہ مستقل سلسلہ سال بہ سال بہتر سے بہتر ہوتا گیا۔ واٹس ایپ گروپ عام ہونے کی وجہ سے رسائی بھی آسان ہوگئی۔ لاک ڈائون میں سب کی توجہ اس طرف ہوئی تو خوب پذیرائی مل گئی۔ دورہ تفسیر، خلاصہ قرآن ، منتخب سورتیں اور نوجوانوں کے لیے علیحدہ پروگرام… سب کچھ موبائل کی ایک کلک پر موجود ہے۔
گزشتہ سال اس عنوان سے اپنی کچھ یادداشتیں کسی کی فرمائش پر شروع کی تھیں، اس لاک ڈائون میں اسے مکمل کرنے کا موقع ملا، لہٰذا 2020ء تک دورۂ قرآن کے سفر کی روداد پیش کردی۔ مجھے اندازہ ہے کہ ذاتی قسم کی جزئیات سے کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی اور نہ پڑھنے کا وقت ہوتا ہے، لیکن جزئیات جانے بغیر نفسِ مضمون پر بات نہیں ہوسکتی، لہٰذا اس لمبی چوڑی روداد کے بعد میرا سوال ہے کہ:
قرآن سے اس طویل تعلق کے بعد بھی اس کے حوالے سے جذبات اور احساسات کیوں اتنے منجمد ہیں ؟ دل کی کیفیت کیوں نہیں بدلتی ؟دلوں کا زنگ کیوں نہیں اترتا؟
قرآن کا اجتماعی مطالعہ کیسٹ ، سی ڈیز سے گزرتا اب ہمارے موبائل میں محفوظ ہے۔ اچھی سے اچھی تلاوت اور ہر قسم کی تفسیر ایک کلک پر موجود ہے، مگر محبت کا وہ جذبہ ہی نہیں جو مشقت اٹھا کر بالمشافہ درسِ قرآن سے پہلی آشنائی پر نصیب ہوتا تھا ۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہ لمحات رمضان کی تیاریوں میں گم ہوجاتے تھے۔ 2020ء میں خصوصی حالات کے باعث سوچ بچار کا موقع ملا۔ فرصت اور تنہائی کے ان دنوں میں ہر طرف آن لائن قرآنی دروس کی بھرمار ہے مگر دل مائل کیوں نہیں ہوتا؟

حصہ