دانیہ آصف
مئی کا مہینہ تھا اور گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، گھر میں امی کا ہاتھ بٹانے اور چھٹیوں کا کام کرنے کے باوجود اتنا وقت مل جاتا کہ میں مزے سے مرحوم اشتیاق احمد اور ابن آس محمد کے جاسوسی ناول پڑھ سکوں آج جب میں بستر صاف کر کے سونے کے لیے لیٹی تو میری نظر اس مکڑی پر پڑی جو میرے خیال سے تقریبا دو چار دن سے میرے بستر کے آگے پیچھے نظر آرہی تھی ابھی میں اس مکڑی کے بارے میں سوچتے سوچتے میں انسانوں کی دنیا سے کوسوں دور مکڑیوں کی دنیا میں پہنچ گئى۔ _ميں نے ديکھا کہ تمام مکڑیاں دربار میں ادب سے بیٹھی ہوئی تھیں اور ملکہ مکڑی بے چینی سے جاسوس مکڑی کا انتظار کر رہی تھی ، میں جاسوس مکڑی کا پیچھا کرتے ہو ئے دربار میں پہنچ گئی اور ان کی گفتگو سننے لگی۔
جاسوس مکڑی کو دیکھتے ہی ملکہ کی بے چینی کو قرار آگیا ، مکڑی دربار میں حاضر ہوکرآداب بجا لائی اور بولی ”آج میں اس لڑکی کے دماغ سے تمام کہانیاں اکھٹی کرنے میں کامیاب ہوگئی ہوں اب آپ کا ادھورا خواب مکمل ہو جائے گا اور آپ بھی ایک نامور لکھاری بن جائیں گی۔“ملکہ مکڑی نے جوش سے پوچھا:
’’ اور اس لڑکی کا کیا ہوگا ؟‘‘
’’وہ تو بےچاری اپنے خالی دماغ پر زور دیتی رہ جائے گی“ جاسوسہ بولی، اور اس کے ساتھ ہی دربار میں قہقہے گونج اٹھے اور میں سوچ رہی تھی کہ اچھا اب میری سمجھ میں آئی کہ میرے دماغ میں کہانیاں کیوں نہیں آرہى۔
یہ سن کر تو مجھ سے رہا نہ گیا میں آگے بڑھی اور بولی۔
’’ ملکہ مکڑی اگر آپ ہمیشہ میری کہانیاں چراتی رہیں گی تو اس طرح آپ کبھی لکھنا نہیں سيکھ سکيں گی اور کیا پتہ میں بڑے ہو کر کہانیاں لکھنا ہی چھوڑ دوں پھر آپ کیا کریں گی؟‘‘
میری اس بات پر ملکہ مکڑی بڑى بے رحمى سے بولی” ہم کسی اور کی کہانیاں چرا لیں گے “۔
میں یہ سن کر تنک گئی لیکن پھر مجھے خیال آیا(دشمن جو آپ کی کہانیاں چرا لے جائے ) اسےاچھے طریقے سے سمجھانا چاہئے پھر میں بولی۔
’’ ملکہ عالیہ آپ سنجیدہ ہو کر بات کریں اور آپ یہ بتائیں کہ آپ خود کیوں کہانی لکھنے کی کوشش نہیں کرتیں “۔
ملکہ مکڑی نے بےچارگی سے کہا” اتنی تو کوشش کرتی ہوں مگر جب بھی قلم لے کر بیٹھتی ہوں میں مکڑیوں کی دنیا سے دور شہد کی مکھیوں کی دنیا میں چلی جاتی ہوں“۔
میں نے کچھ سوچ کر کہا ”ملکہ مکڑی کہانی لکھنے کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے کہانی لکھنے کے لیے آپ کو تین باتوں کا خیال رکھنا ہوگا ۔
١۔ موضوع کا انتخاب
٢۔ کہانی کا سبق
٣۔کہانی کے کردار اور جگہ کا تعین
کہ آپ گاؤں دیہات شہر بازار، کس جگہ کی کہانی لکھ رہی ہیں اس طرح آپ پوری کہانی لکھ سکتی ہیں“۔
ملکہ مکڑی نے خوش ہو کر پوچھا ”تمہیں یہ سب کیسے معلوم ہوا؟ “ میں نے بغور ملکہ مکڑی کو دیکھا اور پھر بولی” مجھے میری امی جان سے معلوم ہوا کیونکہ مجھے بھی کہانی لکھنے کا بہت شوق تھا لیکن میں ہر کہانی میں کئی کردار اور جگہیں ملا دیتی تھی پھر امی نے مجھے سمجھایا کہ اس طرح کہانی میں سارے کردار اکھٹے کرنا مناسب نہیں،کردار واقعات کے حساب سےشامل ہونے چاہئیں “۔
میرے بتانے پر ملکہ مکڑی نے کچھ سوچ کر کہا” تم تو بڑی اچھی ہو مگر ایک بات بتاؤ میں نے تمہاری کہانیاں چرائیں،پھر تم میری مدد کیوں کر رہی ہو؟“
تو اس پر میں نے جواب دیا” آپ وہی مکڑی ہیں نا جس نے ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی جب وہ غار ثور میں تھے۔آپ نےہی اللہ کےحکم سے جال بنایا تھا نا “۔
تو وہ میری بات کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگی” ہاں! وہ بزرگوار ہماری برادری ہی سے تھیں“۔
میں نے کہا ”تو میں تمہاری مدد کیوں نہ کروں جس نے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی میں تو ضرور اس کی مدد کروں گی “اس پر اس نے کہا ”تم تو واقعی اچھی ہو،اب میں پہلی کہانی تمہارے اور اپنے بارے میں لکھوں گی“۔
میں جذبات میں آ کر بولی ” دیکھیں ملکہ مکڑی! دوستی اپنی جگہ مگر اب لڑائی ہو جائے گی کیونکہ اس ملاقات پر اب میں کہانی لکھنے والی ہوں“۔لیکن پھر ہم نے یہ طے کیا کہ ہم دونوں ہی اس ملاقات کا احوال اپنے اپنے انداز میں لکھیں گے۔ ابھی میں جاسوس مکڑی سے بات کر رہی تھی کہ امی کی آواز آئی ”ماریہ پرے ہٹو، چھوٹا بھائی اٹھ جائے گا، چھوٹے بھائی پر چڑھو گی کیا لڑکی “۔
میں نیند میں بولی ”صحیح ہے اگلی کہانی آپ پر“ اس پرامی حیرانی سے گویا ہوئيں ”کیا مطلب ماریہ “۔
میں سمجھ چکى تھى کہ وہ سب خواب تھا _ميں مسکرا دى اور بولى ”کچھ نہیں امی “۔
اگلے دن جب میں سونے کے لیے لیٹی اور پھر سے بستر جھاڑا تو میں نے دیکھا جاسوس مکڑی وہاں نہیں تھی اور میں تذبذب میں پڑ گئى کہ کیا واقعی میں مکڑیوں کی دنیا میں چلی گئی تھی؟ تو کیا وہ خواب نہیں تھا؟ يہ سوچ کر میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔