حکومت کس کی ہے؟۔

364

کون کس سے پوچھے کہ یہ حکومت کس کی ہے ؟ کون چلا رہا ہے ؟ قوت نافذہ اور سپریم اتھارٹی کون ہے ؟ صوبوں میں کون ہے ؟ وفاق کس کے پاس ہے ؟ وزیروں کی فوج کس کام پر مامور ہے ؟ مشیروں کی مشاورتیں کیا گل کھلا رہیں ہیں ؟ قوم ایک عجیب مخمصے کا شکار ہے کہ پاکستان آخر ہے کس کے حوالے ؟
یہاں کی اقتصادی صورتحال اور روپے کی قدر کی اس قدر پائمالی کہ اب افغانستان اور نیپال جیسے مفلوک الحال ممالک کی کرنسی کی قدر ہم سے زیادہ ہے۔اس تمام تر بدحالی کا ذمہ دار کون ہے ؟ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے اور خاندان سڑکوں پر آچکے ہیں ایسے میں مزدوروں ، اور عام آدمی کا تو اللہ ہی حافظ ہے ۔
بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ ہزاروں افراد اور خاندانوں کی قسمت کے فیصلے آدھے گھنٹے کے حکومتی اجلاس میں کر لیے جاتے ہیں، پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو بیروز گار کرنے کا فیصلہ بھی ان میں سے ایک ہے ۔ پی ٹی آئی اور سندھ حکومت میں نصف صدی سے براجمان پاکستان پیپلز پارٹی دونوں نے اس ادارے کی تباہی میں آخری کیل ٹھونکنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے ، مزے کی بات یہ ہے کہ اب سندھ کے کماؤ پوت اداروں اور تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا مو قف پیش کیا کہ ہم اسٹیل مل چلا کر دکھائیں گے ۔ ان کم بختوں کو شرم نہیں آتی کہ جو ہسپتال اور ٹرانسپورٹ نہ چلا سکے وہ اسٹیل مل چلانے کی بات کرتے ہیں ۔
سندھ کے رہنے والے کسی آدمی سے یہ حقیقت چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اول روز سے ہی پاکستان اسٹیل کے معاملات اور بھرتیوں میں پیپلز پارٹی براہ راست ملوثرہی ہے ، وزیر اعلی ہاوس اور ایوان صدر میں سادے کاغذ پر امیدوار کا نام لکھ کر سفارشی پرچیوں پر افسران کا تقرر ہوتا تھا ، انتظامی معاملات میں مداخلت عام تھی ، یہی نہیں بلکہ تقرر تبادلے سے لے کر خرید و فروخت کے سودے یعنی پرچیز کے سسٹم میں بھی من چاہی یونین کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم تھا ۔ وفاق کی جانب سے سابقین عسکریہ کو یہاں فٹ کیا جاتا رہا لیکن حالات میں زرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آ سکی ۔ اب مزدوروں کی قسمت کا فیصلہ ہوجانے کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی نگاہیں یہاں کی کھربوں روپے کی اراضی پر گاڑ لیں ہیں۔
سیاسی ابتری اور لاقانونیت کا ایسا نظام پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا ہے ، ایک ایسا فرسودہ اور بوگس انتخاب جس نے مٹھی بھر نشستوں والی جماعت پی ٹی آئی کو اقتدار کے راج سنگھاسن پر بٹھایا مگر کوئی نادیدہ قوت ہے کہ جس نے ڈوریں اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئیں ہیں ۔
صرف اسٹیل مل کا ہی معاملہ نہیں ہے ، کون سا ادارہ ایسا ہے کہ جسے ہم کہہ سکیں کہ کم از کم اس ادارے میں تو بہتری دکھائی دیتی ہے ۔
خدا کی پھٹکار ہو دونوں حکومتوں پر ، ریلوے کو دیکھ لیں ، ٹرینوں کی تعداد پہلے سے دو گنا زیادہ ، انجنوں کی تعداد پہلے کے مقابلے پٹ تین گنا ، ملازمین کی فوج ظفر موج ، کرایہ ناقابل دسترس ،مگر اس کے باوجود ہر ٹرین اور روٹ پر نشستیں دستیاب نہیں ہوتیں ، پھر یہ کماؤ پوت ادارہ کیوں نقصان میں ہے ؟ شیخ رشید کی منحوسیت دیکھیں کہ جب سے وزیر ریلوے ہوا ہے ہر دو ما ہ میں ایک ترین ضرور حادثے کا شکار ہورہی ہے ، درجنوں افرا د ان میں جاں بحق ہوجاتے ہیں ، کوئی پرسان حال نہیں ، ریلوے حادثے کی ذمہ داری ڈرائیور اور لائن میں پر ڈال کر منہ میں سگار دبائے شیخ رشید دوبارہ لن ترانیوں میں مگن ہوجاتے ہیں ۔ کراچی میں سرکلر ریلوے کی کھربوں روپے کی زمین پر قبضہ مافیا برا جمان رہی اور اپنے آقاوں کے اکاونٹس میں رقم جمع کروانے میں لگی رہی مگر آج تک سرکلر ریلوے کی بحالی کا عمل مکمل نہ ہوسکا ، اور شاید کبھی ہوگا بھی نہیں ، کراچی سرکلر ریلوے کے راستے میں لینڈ مافیا کا بدنام زمانہ بابر غوری جو سابق وفاقی وزیر تھا کے غیر قانونی پروجیکٹس قوت نافذہ اور سپریم کورٹ دونوں کو منہ چڑا رہے ہیں کہ ‘ کرلو جو کرنا ہے “!
کراچی میں پانی کی فراہمی کا ادارہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ لوٹ مار میں سب سے آگے دکھائی دیتا ہے ۔ یہاں بھی خیر سے پیپلز پارٹی کے لگائے ہوئے ایم ڈی تعینات ہیں ۔ بجلی کا نظام پہلے ہی وا پڈا نے برباد کیا ہوا تھا کراچی کو لوٹنے کے لیے کے الیکٹرک جیسے بھیڑیے کے حوالے کردیا گیا ۔
اب آجائیں زمینوں اور کراچی کے ماسٹر پلان کی جانب ،
ویسے تو اسلا م آباد سے لیکر کراچی اور ہر بڑے شہر میں قانونی زمین ہتھیانے کا عمل پہلے سے جاری تھا ، مگر اب آنیوالے دن اِس گروہ کی تعداد اور چیرہ دستیوں میں اضافہ کرتا جارہا ہے اور یہ مافیا اور قدر توانا ہوچکے ہیں کہ ان کی منظوری سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبرز کا چناؤ ہوتا ہے ۔ملک کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت، لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کی مدد کے بغیر قائم رہنے کا تصور کر سکتی ہو ناجائز دولت کےزور پر یہ لینڈ مافیا اپنی فنڈنگز ، عطیات کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں راتوں رات عزت و تکریم کی بلندی پر پہنچ چکے ہیں ۔
جب کراچی میں ان کیخلاف آپریشن شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ بااثر لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ براہ راست سیاسی و لسانی جماعتوں کی پشت پناہی میں ملوث ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمن نے کچی آبادیوں میں لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کیخلاف آواز۔
پنجاب کا حال کراچی جیسا ہی ہے وہاں بھی قبضہ مافیا پوری طرح پنجے گاڑے ہوئے ہے یہ عناصر سیاسی سرپرستی میں بھرپور طور پر سرگرم عمل ہیں ان کے ایم این اے ایم پی اے نہ صرف سیٹ جیت لیتے ہیں بلکہ وزارتوں تک اور اسپیکر ڈپٹی اسپیکر تک بنا دئیے جاتے ہیں ۔ لاہور میں قیمتی رہائشی اور تجارتی جائیدادوں پر قبضہ کرلینا ایک عام معمول بن چکا ہے۔
کراچی کا حال بگاڑنے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھا رٹی نے وہ حال کیا ہے جو کوئی دشمن بھی نہ کرے ۔ رشوت ستانی کا ایک ایسا باب کہ جس کے بارے میں ایک نہیں درجوں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ غیر قانونی عمارتوں کو قانونی بنانا، کئی منزلہ عمارات کی اجازت دینا ، یہ سوچے سمجھے بغیر پانی سیوریج اور سڑکوں کا کیا نظام اور گنجائش ہے ؟ ایک ایسا بدبو دار اور تعفن زدہ ادارہ کہ جس کے بارے میں سوچتے لکھتے ہوئے بھی گھن آتی ہے ۔
کوئی ہفتہ نہیں گزرتا کہ جب اخبارات میں رہائشی عمارتوں کے زمین بوس ہوجانے کی خبریں نہ آتی ہوں ، حال ہی میں گولیمار میں تیس سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ، کل کی بات ہے کہ لیاری میں بوسیدہ عمارت گرنے سے کئی جانوں کا نقصان ہوا ، مگر سوائے تعزیتی بیانات اور روایتی دوروں کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہ آسکی ۔
یہ تو تھی چیدہ چیدہ اداروں کی بات ، اب آجائیں سانحوں اور قدرتی آفا ت کی جانب ۔ اللہ سب کو اپنی امان میں رکھے آجکل کورونا کی وبا سے جس طرح نمٹا جارہا ہے اور پیسے بنائے جا رہے ہیں وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے ۔ وفاق اور صوبائی حکومت دونوں کے چہروں سے نقاب الٹ چکا ہے ۔ آئے دن کے طوفانی بیانات جذباتی خطابات اور ایس آر او پر ایس آر او ، مگر سوائے غیر ملکی امداد بٹورنے کے کوئی بھی کام دونوں حکومتوں کی جانب سے دیکھنے میں نہیں آیا ۔
قومی ائیر لائن جو ماضی میں دنیا کی نمبر ون ائیر لائن ہوتی تھی اب اس کا حال جو بھی ہے وہ سب کے سامنے ہیں ۔ حادثے ،لاپرواہی ،غفلت اور بدعنوانیوں نے اس پر سے قوم کا ا عتماد اٹھا دیا ہے ۔
پاکستان کے اتنے بڑے شہر کراچی میں ہسپتالوں میں علاج کے لیے بستر تک دستیاب نہیں ۔ تین کروڑ آبادی والے شہر میں صرف 76 و نٹیلٹرز ؟
اربوں روپے کی رقم کھا پی کر ڈکار لی گئی مگر علاج تمام تر ذمہ داری رفاہی تنظیموں اور سما جی اداروں پر ڈال ڈی گئیں ۔ یہی حال دس لاکھ نوجوانوں کی ٹائیگر فورس کا رہا ، کاغذات کی حد تک اور پیسے ٹھکانے لگانے کے لیے ایک نام متعارف کروانا ضروری تھا ، سو وہ کروادیا گیا ۔ میری تو پہلے ہی سے دور کی نگاہ کمزور ہے ، زمین پر کسی علاقے میں راشن بانٹتے اگر آپ میں سے کوئی ٹائیگر ، یا باگڑ بلا دکھائی دیا ہو تو مجھے ضرور بتاییں ۔
وفاقی و صوبائی حکومتوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کا عا لم یہ ہے کہ اربوں ڈالر کی غیر ملکی امداد ملنے کے باوجود کوئی ایک ہسپتال جس میں کورونا کے مریضوں کا مفت علاج ہوسکے نہیں بنایا جا سکا۔ لوگ لاکھوں روپے لے کر پریشانی کے عالم میں اپنے مریض کو ادھر سے ادھر چکر لگا رہے ہیں ہسپتالوں میں جگہ نہیں۔ فوری وینٹیلیٹر میں لگنے والا انجیکشن مارکیٹ میں شارٹ ہو گیا ۔ جس کی قیمت دس ہزار ہے ، مگر اب تین لاکھ روپے تک میں فروخت کیا جارہا ہے ۔
دل ، جگر ، اور دیگر امراض کے مریضوں کو بھی نہیں داخل کیا جارہا ، اگر وہ مر جائیں تو ان کی لاش دینے کے لیے اور کورونا ظاہر نہ کرنے کے دو دو لاکھ روپے مانگے جارہے ہیں ۔ یہ مفروضہ نہیں حقیقت ہے ، جو صبح شام ہمارے سامنے آرہی ہے ۔
خدا کے لیے اپنی آنکھیں کھولیے . خد اترس لوگوں اور ایماندار افراد کو آگے لائیں تاکہ آسمانی سلطانی آفا ت میں وہ قوم کی رہنمائی کرسکیں ۔
کیا ان سب حقائق کو سمجھتے ہوئے جانتے ہوئے بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں گی ؟ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔

حصہ