معروف شاعرہ، نثرنگار اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رخسانہ صبا سے جسارت میگزین کی گفتگو
نثار احمد نثار
معروف شاعرہ‘ نثر نگار‘ تحقیق کار‘ نظامت کار اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رخسانہ صبا کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے سستی شہرت کے حصول کی دوڑ میں شامل ہونے سے ہمیشہ گریز کیا اور ادب کی شاہراہ پر سادہ اور پُروقار انداز میں اپنا سفر جاری رکھا۔ رخسانہ صبا نے غزلیں بھی لکھیں اور ان کی نظموں کے لیے بھی پسندیدگی کا اظہار کیا گیا ۔
رخسانہ صبا 4 مارچ 1959ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں اور گریجویشن کے بعد شعبہ تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ماسٹرز کی سند حاصل کرنے کے علاوہ بی ایڈ اور ایم ایڈ بھی کیا اور دورانِ ملازمت آغا خان یونیورسٹی سے ایڈوانس ڈپلومہ اِن ایجوکیشنل لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ کا کورس مکمل کیا۔ انہوں نے تحقیق کے میدان میں بھی قدم رکھا اور اردو کی طویل ’’نظموں کی تناظر میں نظم ’’انسان‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا جس پر جامعہ کراچی نے انہیں پی ایچ ڈی کی سند تفویض کی۔دوران ملازمت تدریس اور پرچہ سازی کے حوالے سے اساتذہ کی تربیت‘ ہر قسم کی ہم نصابی سرگرمیوں میں ان کی صلاحیتوں اور جاں فشانی کا اعتراف محکمۂ تعلیم کے کئی سربراہان نے کیا۔ انہوں نے منتخب تعلیمی ورک شاپس اور کانفرنسوں میں بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر رخسانہ صبا آج کل جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے بحیثیت ممبر آف وزٹنگ فیکلٹی وابستہ ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’راکھ روشن ہے‘‘ 2017ء میں شائع ہوا۔ سرسید کی دو سو سالہ یوم پیدائش کے موقع پر ان کی مرتب کردہ کتاب ’‘جہاتِ سرسید‘‘ 2017ء میں انجمن ترقی اردو پاکستان سے شائع ہوئی۔ ’’طویل نظمیں اور جمیل الدین عالی کی نظم انسان‘‘ کے نام سے ان کا تحقیقی مقالہ بھی کتابی شکل میں 2018ء میں انجمن ترقی ٔ اردو پاکستان سے شائع ہوا جسے پاکستان پبلشرز ایسوسی ایشن کی جانب سے ایکسپو بک فیئر 2018ء میں بہترین تحقیقی کتاب کا ایوارڈ ملا۔ گزشتہ ہفتے رقم الحروف نثار احمد نثار نے ان سے جسارت میگزین کے لیے مکالمہ کیا جس کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
جسارت میگزین: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتایئے۔
رخسانہ صبا: میرے والدین 1948ء میں صوبہ بہار (ہندوستان) سے ہجرت کرکے کراچی آئے۔ میرے نانا محمد اسمعیل ناصح شاعر اور صحافی تھے اور پٹنہ کے ایک اخبار کے مدیر بھی تھے۔ میرے والد کا تعلق زمیندار گھرانے سے تھا تاہم میرے دادا صوفی بزرگ تھے۔ میرے والد کو سیاست سے دل چسپی تھی انہوں نے تحریک پاکستان میں عملی طور پر حصہ لیا۔ میں نے ہوش سنبھالا تو گھر میں والدہ اور بڑی بہن کو کتابوں سے بڑی محبت کا برتائو کرتے ہوئے دیکھا۔ میری بڑی بہن بہت وسیع المطالعہ تھیں ان کے افسانے اورمضامین اس زمانے کے اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے رہتے تھے‘ ان کی بدولت بہت کم عمری میں مجھے کتابوں سے عشق ہو گیا تھا اور درجہ نہم تک آتے آتے میں کئی ادبی شاہ کار اپنے مطالعے کا حصہ بنا چکی تھی۔ اختر الایمان کی ’’آب جو‘‘ کا مطالعہ بھی میں نے انہی دنوں کیا تھا۔ اسی دوران مشہور شاعر‘ صحافی‘ براڈ کاسٹر اور ہمہ جہت ادیب امداد نظامی ہمارے خاندان کا حصہ بنے اور ان کی شادی میری بہن سے ہوئی تو میرے شعری ذوق کو جلا بھی ملی اور اس کی آبیاری بھی ہوئی۔
جسارت میگزین: آپ کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی اور کب مشاعروں میں شریک ہو رہی ہیں؟
رخسانہ صبا: لڑکپن سے ہی اشعار بڑی تیزی کے ساتھ میرے حافظے میں محفوظ ہو جاتے تھے۔ درجہ ہشتم میں اسکول کی وال میگزین کے لیے (جس کی میں مدیر بھی تھی) وطن کے حوالے سے پہلا نغمہ لکھا تھا۔ پہلی غزل روزنامہ ’’امن‘‘ کراچی میں شائع ہوئی تھی جب میں فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی اس کے بعد روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے پر بھی میرا کلام شائع ہونے لگا۔ 1981ء سے 1986ء تک میں نے ریڈیو پاکستان کی عالمی سروس اور ہوم سروس کے لیے بچوں کے نغمے اور سائنسی کہانیاں بھی لکھیں۔بحیثیت شاعرہ میرا پہلا انٹریو پاکستان کی عالمی سروس سے نشر ہوا۔ریڈیو میں شاہد لطیف اور حشمت حسین جعفری جیسے پروڈیوسرز نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی۔ میں نے غالباً 1987ء میں کوئٹہ میں قلم قبیلہ کا ایک مشاعرہ پڑھا تھا جس کی منتظم ثاقبہ رحیم الدین صاحبہ تھیں لیکن باقاعدہ طور پر مشاعروں اور نشستوں میں خاصی تاخیر سے 1995ء کے بعد شریک ہونا شروع کیا۔
جسارت میگزین: کیا آپ شاعری کے حوالے سے اپنے اساتذہ کے نام بتانا پسند کریں گی؟
رخسانہ صبا: شاعری کے حوالے سے استادی اور شاگردی کے روایتی سلسلے میں قطع نظر میں امداد نظامی صاحب کا نام ضرور لینا چاہوں گی جو میرے بردار نسبتی تھے لیکن جب میں میٹرک کی طالبہ تھی تو وہ کوئٹہ منتقل ہو گئے تھے اور بے حد مصروف رہتے تھے۔ کبھی کبھار میں انہیں خط میں اپنی غزل بھیج دیتی تھی اور ان کے قیمتی مشورے مجھے جوابی خط میں مل جاتے تھے ۔وہ مہینوں بعد کراچی آتے تو ان کے سامنے اپنا تازہ کلام رکھ دیتی تھی اور وہ خاص طور پر الفاظ تراکیب‘ مصائب سخن یا نظموں کے عنوانات وغیرہ کے حوالے سے میری رہنمائی فرماتے تھے یہ میری خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے سادے کاغذ پر مجھے کبھی اصلاح نہیں دی اور کبھی ایک مصرع مجھے لکھ کر نہیں دیا۔ میرا شعری مجموعہ بھی تاخیر سے آیا اس کی اشاعت کے مراحل میں البتہ کئی اہم شعرا اور سینئرز کی رہنمائی مجھے حاصل رہی۔
جسارت میگزین: شاعری میں علم عروض کی اہمیت پر روشنی ڈالیے گا۔
رخسانہ صبا: شاعری تو انسان کی مادری زبان ہے۔ انسان نے اوّلین تخلیقی اظہار شاعری میں ہی کیا۔ طویل نظمیں ’’گمگامش‘‘ اور ’’ٹوٹی کشتی کا ملاح‘‘ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں یعنی سمیری اور مصری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہیں۔ علم عروض تو بہت بعد میں ایجاد ہوا۔ ایک علم کی حیثیت سے بہرحال شاعر و نقاد دونوں کے لیے اس کی کسی حد تک اہمیت ضرور ہے لیکن کسی شاعر کے لیے لازم نہیں کہ وہ علم عروض سیکھے۔ حقیقی شاعر فطری طور پر موزوں طبع ہوتا ہے وہ ناپ تول کے کسی نظام کو مدنظر رکھ کر شعر نہیں کہتا۔ بہت سے شعرا ہیں جنہیں دائرۂ مجتلبہ‘ دائرہ متفقہ اور زہافات کی باریکیوں سے آشنائی نہیں پھر بھی وہ اعلیٰ درجے کے تخلیق کار ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ تو یہی ہے کہ ڈاکٹریٹ کے دوران جب میں نے علم عروض پڑھنا شروع کیا تو مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں میں اپنے ہر مصرع کو میزانِ عروض پر تولنے کے کام میں نہ لگ جائوں۔
جسارت میگزین: آج کے زمانے میں تنقید کا معیار کیسا ہے اور کیا آج کے تنقید نگار اپنی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں؟
رخسانہ صبا: اردو میں تنقید لکھی تو جارہی ہے کچھ اچھی کتابیں بھی آئی ہیں لیکن مجموعی طور پر آج کی تنقید اپنے بنیادی منصب کو فراموش کر چکی ہے۔ متن کی قدر و قیمت کے تعین کے ساتھ تنقید کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ وہ ذوق ادب کی آبیاری کرے اور قاری کو اچھا ادب پڑھنے کی طرف راغب کرے۔ میں نے ایک مرتبہ اقبال کی نظم ’’خضر راہ‘‘ پر پروفیسر آل احمد سرور کا ایک مضمون پڑھا‘ مجھے اس نظم سے ہی محبت ہو گئی۔ آج کی تنقید میں تعلقاتِ باہمی کی بنیاد پر تحسینی مضامین کی بھرمار ہے حالانکہ صحیح معنوں میں ان کا شمار تنقید میں نہیں ہوتا دوسری طرف بعض نقادوں کے ہاں مغربی نظریات و اصطلاحات کی بھرمار ہے اور انداز تحریر بھی بے حد ادق اور ثقل ہے لہٰذا عام قاری تو درکنا ادب کا عام طالب علم بھی تنقید پڑھنے سے گریزاں ہے تو نئے لکھنے والوں کی تربیت کیسے ہوگی۔ زبان و بیان کی خوبیوں اور خامیوں سے واقفیت‘ ادبی تہذیبی اور لسانی روایات سے آگاہی‘ فنی لوازم سے شناسائی اور علوم پر دسترس کے ساتھ ساتھ ایک نقاد میں تخلیقی جمالیات کی تہہ میں اترنے کی صلاحیت بھی درکار ہے۔
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کتنے اہم ہیں؟
رخسانہ صبا: دونوں ہی کا کردار بہت اہم ہے کیوں کہ دونوں براہ راست عوام پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ ابتدائی عشروں میں ادبی رسائل‘ اخبارات‘ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن نے جو کردار ادا کیا وہ سب پر عیاں ہے لیکن گزشتہ پچیس برسوں میں خصوصاً نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار کے بعد یہ کردار نہ صرف کمزور ہوا ہے بلکہ قوم کی شاندار ادبی‘ تہذیبی اور تخلیقی ورثے سے مجرمانہ غفلت بھی ہے۔
جسارت میگزین: حکومتی سطح پر اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے جو ادارے بنائے گئے وہ اپنا کام ایمانداری سے کر رہے ہیں؟
رخسانہ صبا: ان اداروں نے اگرچہ بہت اچھی کتابیں بھی شائع کی ہیں۔ اردو لغات پر بھی کام ہوا ہے‘ دفتری اور سائنسی اصلاحات نیز فنی اور تیکنیکی الفاظ کی اصطلاحات کے لیے بھی اردو زبان و ادب کو تیار کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ادارے حقیقی معنوں میں متحرک اور فعال نہیں ہیں۔
جسارت میگزین: انسانی زندگی/سماج پر شاعری کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں نیز آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
رخسانہ صبا: اچھے اور معیاری ادب کو ترقی پسند یا جدیدیت جیسے کسی لیبل کی ضرورت نہیں ہوتی یہ اپنے عصر سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ شاعری اور سماج ایک دوسرے کا آئینہ ہیں‘ شاعری میں جذبات کو برانگیختہ کرنے کی اور انقلابی فکر کو پروان چڑھانے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے اسی لیے جوش کی نظم ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب‘‘ کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انگریز سرکار نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ فیض کی مشہور نظم ویبقی وجُہ رَبِک (ہم دیکھیں گے) 1979 میں کسی اور تناظر میں لکھی گئی تھی لیکن 2019ء میں ہندوستان کے نوجوانوں میں ایک نئی معنویت کے ساتھ مقبول ہوئی۔ یہ شاعری کی قوت کا خوف ہی تھا جس کی بنا پر ہر عہد میں پاکستانی نوجوانوںکو اقبال کی شاعری کی حقیقی روح سے دانستہ بیگانہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔
جسارت میگزین: اصنافِ سخن میں نثری نظم کی حیثیت ہے‘ کیا نثری نظم کا کوئی رول ماڈل ہمارے سامنے ہے؟
رخسانہ صبا: نثری نظم کے تو نام پر ہی ایک عرصے تک اتفاق نہیں ہوسکا‘ لفظ ’’نثری‘‘ میں ’ی‘ کے استعمال نے اسی صفتِ نسبتی کا درجہ دے دیا ہے۔ پروفیسر حنیف کیفی نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ ’’مغرب میں اس صنف کو نثر میں شاعری کہا گیا ہے اور فرانسیسی شعرا نے اسے نثر کی طرح پیراگرافوں میںہی تحریر کیا ہے۔‘‘ انہوں نے شمس الرحمن فاروقی کا بھی حوالہ دیا ہے جنہوںنے ’’نثر میں شاعری‘‘ کہا ہے۔ اس صنف کو اب تک کوئی رول ماڈل میسر نہیں آیا۔ اس لیے یہ مقبول نہیں ہوسکی۔
جسارت میگزین: آپ کی نظر میں اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟
رخسانہ صبا: بولنے اور سننے کی حد تک تو اردو زبان کو فوری طور پر کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے مغرب میں بھی اردو کی نئی بستیاں آباد ہوچکی ہیں لیکن اردو رسم الخط کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ ہندوستان میں تو پہلے ہی اردو کے شعرا اپنے مجموعی دیونا گری رسم الخط میں چھپوا رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ موبائل فون کلچر نے رومن رسم الخط میں اردو لکھنے کی روش کو پروان چڑھایا ہے۔ والدین‘ اساتذہ اور ہم تمام بڑوں کا فرضً ہے کہ اس رجحان کو روکیں ورنہ ہزاروں کتابوں اور تحریری دستاویزات کی شکل میں ہمارا علمی و ادبی اثاثہ ضائع ہو جائے گا۔
جسارت میگزین: سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نفاذ اردو کی راہ میں کیا رکاوٹیں ہیں؟ عملی طور پر اردو کا نفاذ کیوں نہیں ہو رہا؟
رخسانہ صبا: رکاوٹ کوئی نہیں بس نیت خراب ہے۔ ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا نام ہی بدل دیا گیا۔ استعماری طاقتوں کے آلۂ کار حکمران‘ لسانی اور سیاسی مفادات کے حامل سیاست دان‘ نام نہاد اشرافیہ‘ مغرب کی پروردہ بیورو کریسی اور پاکستان مخالف قوتیں نفاذ اردو کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ میں ادیبوں اور شاعروں کے کمزور رویے اور اساتذہ اور اردو سے وابستہ اداروں کی اس صورت حال چشم پوشی اور عملی جدوجہد سے گریز کو بھی اس کا ذمے دار قرار دیتی ہوں۔
جسارت میگزین: کیا اردو ادب روبہ زوال ہے‘ اگر ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟
رخسانہ صبا: ادب کے زوال اور اس کی طرف سے مایوسی کا اظہار حسن عسکری‘ جمیل جالبی‘ سلیم احمد‘ انتظار حسین اور قرۃ العین حیدر جیسے نابغۂ روزگار تخلیق کاروں اور نقادوں نے بھی کیا تھا اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اب اسکول سے لے کر جامعات کی سطح تک اردو کے بیشتر اساتذہ تخلیقی اور تنقیدی جمالیات سے محروم نظر آتے ہیں‘ سستی شہرت کے خواہش مند ایسے لکھنے والوں کی بھی کثرت ہے جو کاتا اور لے ڈوری کے مقولے پر عمل پیرا ہیں لیکن گزشتہ تیس‘ پینتیس برس میں سنجیدہ تخلیق کاروں کے ایسے شاہکار بھی نظر آئے ہیں جو ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی پیچیدہ زندگی کی معنویت کو بڑی ہنر مندی اور بھرپور ادبی جمالیات کے ساتھ اظہار میں لائے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ادب کے روبہ زوال ہونے کی بات بھی اب ایک نعرے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
جسارت میگزین: کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے کتب بینی کے رجحان کمزور ہورہا ہے؟
رخسانہ صبا:اس کے کئی اسباب ہیں لیکن والدین کی کتابوں سے عدم دل چسپی‘ اساتذہ کی غفلت‘ کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں‘ لائبریری کلچر کا خاتمہ‘ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے رجحان اور تیز رفتار زندگی کے باعث کتب بینی کا رجحان کمزور ہو رہا ہے۔
جسارت میگزین: شاعر یا شاعرہ کی سینیارٹی کا تعین کس طرح کیا جانا چاہیے؟
رخسانہ صبا: سینیارٹی کا تعین صرف اور صرف شاعر یا شاعرہ کے کلام کی قدروقیمت اور معیار کی بنیاد پر ہونا چاہیے‘ شاعر کی طبعی یا شعری عمر سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
جسارت میگزین: مشاعرے کا اردو ادب کو فروغ دینے میں کیا کردار ہے؟
رخسانہ صبا: مشاعرے کسی زمانے میں شاعر اور سامع دونوں کی ادبی و لسانی تربیت کا فریضہ انجام دیتے تھے اور تربیت گاہ کا درجہ رکھتے تھے اب مشاعرے اپنا یہ کردار انجام نہیںدے رہے۔ کچھ عرصے پہلے تک مختصر نشستیں شاعر کی تربیت کا فریضہ انجام دیتی تھیں مگر اب ان کی صورت حال بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں اس لیے سنجیدہ لکھنے والے زیادہ تر گوشۂ عافیت میں رہنا پسند کرتے ہیں۔
جسارت میگزین: سندھ کے اسکولوں میں جو نصاب پڑھایا جارہا ہے کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟
رخسانہ صبا: ترقی یافتہ ممالک میں تو ہر تین سال کے بعد نصاب میں تبدیلی ہوتی ہے ہمارے ہاں بیس‘ بیس سال تک ایک ہی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ نصاب کا مفہوم بہت وسیع ہے لیکن ہم ابھی تک اسے صرف درسی کتاب سے ہی تعبیر کرتے ہیں اور درسی کتابیں بھی اغلاط سے پُر ہیں۔ اگرچہ کچھ تبدیلیاں ہوئی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی میں مطمئن نہیں ہوں۔