ڈاکٹر آصف فرّخی کی رحلت

694

اہلِ ادب کے تاثرات

سیمان کی ڈائری
رواں برس، روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کے لیے کسی بھی اعتبار سے اچھا ثابت نہیں ہوا۔ابتدا ہی سے ایک نادیدہ وائرس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کواپنی لپیٹ میں لے لیا ۔آئے روز اموات کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا خدانخواستہ کہنا مقصد نہیں کہ انسان کو مرنا نہیں ہے۔یہ زندگی کا طے شدہ اصول ہے مگر اس وقت جو لوگ دارِ فانی سے طبعی طور پر بھی کوچ کررہے ہیں، انھیں بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یا ان کے آخری دیدار پر سماجی فاصلے آڑے آ جاتے ہیں۔میں اس معاملے پرمزید بات نہیں کروں گا کیوں کہ میرا یہ موضوع نہیں لیکن موجودہ حالات نے ہمارے معاشرے میں کسی حد تک خطرناک تبدیلیاں ضرور پیدا کی ہیں۔اسی وبا کے دوران جناب احفاظ الرحمان اور ڈاکٹر انوار احمدزئی کے زخم تازہ ہی تھے کہ ناگہاں ڈاکٹر آصف فرخی بھی ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔آپ ڈاکٹر اسلم فرخی کے صاحبزادے تھے جو خوداردو اَدب کی بہت بڑی شخصیت تھے۔ بہ طور شاعراور نثرنگار اُن کی خدمات گراں قدر ہیں۔اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آصف فرخی نے ہوش سنبھالتے ہی اَدبی فضا دیکھی اوراسی گھر کے ماحول نے اُن کی تربیت اور تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ آصف فرخی عہدِ موجود کے ان گنے چنے چند ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے اردوادب میں اظہار کا کوئی میدان نہیں چھوڑا۔فکشن اُن کا خاص موضوع تھا لیکن ادب کی دیگر جہتوں میں بھی متحرک اور فعال تھے۔بہ طور افسانہ نگار،نقاد،سفر نامہ نگار۔مترجم ،مدیر(دنیازاد)اور بہ طور ناشر(شہرزاد)اُن کا کام اردو ادب کا بہت بڑا سرمایا ہے۔عالمی ادب کے علاوہ سندھی،بلوچی اور پشتوزبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب سے بہ خوبی واقف تھے۔ایک زمانے میں انھوں نے پبلک اخبار میں کراچی کے حالات وواقعات پر نثری نظمیں لکھیں ۔ بعد میں انھیں یک جا کر کے مجموعے کی شکل دی۔ کچھ افسانوں میں بھی کراچی کے پس منظر پر انھوں نے علامتوں کے انداز میں لکھا ۔اَدبی میلوں کی بنیادرکھنے والوں میں بھی آصف فرخی کا نام نمایاں ہے،جس نے اُن کی عالمی شہرت اور ادبی قدکاٹھ میں مذید اضافہ کیا۔ ٹیلی ویژن کی دنیا میں بھی انھوں نے بے شمارپروگرام کیے۔اپنی وفات سے قبل انھوں نے ویڈیوبلاگ کی صورت میں اپنے خیالات کا سلسلہ شروع کیا اور حالیہ (کورونا )وبا کے دوران پیش آنے والی ہولناکیوں پراردوادب میں جو لکھا جارہا تھا اسے منتخب کر کے شمارے کی صورت دینا چاہتے تھے ۔میری اُن سے بہت کم ملاقاتیں رہیں۔ہر ملاقات میں مَیں نے بہت کوشش کی کہ اُن سے مکالمہ کر سکوںاور اس سلسلے میں مَیں نے اپنے کسی سینئرادبی شناخت رکھنے والے دوست کے تعارف کا بھی سہارا نہیں لیا۔ بالآخرایک ادبی میلے کے دوران ایک نشست میں اُن سے ڈاکٹر ضیاالحسن اور اجمل سراج بھائی کی موجودگی میں بات چیت کا موقع ملا اور اجمل بھائی نے میرا بہ طور شاعر تعارف کرایا اور خود ہی کہا کہ سیمان آپ کا انٹرویو لینا چاہتا ہے تو انھیں کوئی وقت دے دیجیے گا۔ تب انھوں نے میری طرف نگاہ ڈالی اور مسکرا کر کہا کہ جب جی چاہے میری طرف آجاؤ۔وقت پھر ہمیں اپنے اپنے کاموں میں مصروف کرتا چلا گیا اور وہ طویل ملاقات جس کا میں شدید خواہش مند تھا ،نہ ہو پائی۔ سوائے رنج و غم کے میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اردو ادب کی اتنی بڑی اور معتبرشخصیت کے شایانِ شان بیان کر سکوں۔اردواَدب کی اہم شخصیات نے جناب آصف فرخی کی وفات کے بعد جو تاثرات دیے انھیں اپنے قارئین کے لیے یہاں رقم کررہا ہوں اور جناب محمد حمید شاہد صاحب کاخاص طور پر شکرگزار ہوں کہ اس سلسلے میںانھوں نے میری رہنمائی کی۔

شمس الرحمان فاروقی بہ نام محمد حمید شاہد

مجھے آصف فرخی (مرحوم) کی سناؤنی کم و بیش اُسی وقت مل گئی تھی۔ تفصیل معلوم کرنے اور اظہارِ رنج کے لیے تمہیں بار بار فون کیا۔رابطہ قائم نہ ہوا۔مفصل لکھو کہ کیا ہوا؟ عید کے کچھ پہلے یا بعد میں میری آصف فرخی سے بات ہوئی تھی۔ وہ پیٹ کی کسی معمولی بیماری سے ٹھیک ہو رہے تھے۔ اب تمہارے سوا کس سے تعزیت کروں؟

افتخار عارف

اپنے ایک بڑے ادیب اورایک انتہاء شریف النفس اور مہربان دوست عالمی سطح پر اردو زبان وادب کی ترویج کرنے والے آصف فرخی کی تعزیت پاکستانی ادب کا اردو کا بڑا نقصان ہے۔ آصف نے افسانے لکھے ترجمے کیے۔ رسالہ نکالا۔ انگریزی اردو میں متعدد مضامین لکھے ۔صحیح معنی میں کثیرالجہات قلم کار بلا خوف تردید بات کہ ہمارے زمانے میں آصف فرخی جیسا دوسرا کوئی شخص نہ تھا نہ ہے۔ اللہ نے اس کے درجات دنیا میں بلند رکھے ،ان شااللہ آخرت میں بھی اُن کے مقام بلندہوں گے۔

محمد حمید شاہد

بہت کم ادیب ایسے ہیں جن کے لیے ادب زندگی اور موت کا مسئلہ ہو۔ایک ہی دھرے پر چلنے اوراپنے گوشۂ عافیت میں پڑے رہنے والوں کی قطار سے الگ تھلگ کئی جہتوں میں پیش قدمی کرنے والے میرے عزیز دوست آصف فرخی کو جس بے دردی سے موت اچک کرلے گئی ہے، اس کا صدمہ بہت بڑا ہے۔ آصف سے تین دہائیاں پہلے کی اس ملاقات سے لے کر کہ جس میں اُن کے والد محترم ڈاکٹر اسلم فرخی بھی موجود تھے،اُس آخری ملاقات تک جو کراچی لٹریچر فیسٹول کے دنوں میں کراچی آنے پر ہوئی۔ جس میں ناصر عباس نیر، افضال احمد سید اور تنویرانجم بھی موجود تھیں۔ہر بار ہمارا موضوع ادب رہا۔ ادب اور نئی کتاب اور یہی اُن کے لیے زندگی اور موت جیسا مسئلہ رہے۔ آصف فرخی بنیادی طورپر فکشن کے آدمی تھے۔ یہی اُن کی محبوب صنف تھی اور اس باب میں ان کا کام ایسا نہیں ہے جسے سہولت سے نظر انداز کیا جا سکے۔ ان کے ہاں عصری حسیت جس طرح فکشن کی اپنی زبان میں ڈھل کر کہانی کا حصہ بنتی اور اپنے قاری کے سامنے زندگی اور اس کے متعلقات پر سوال اٹھاتی ہے۔ یہ قرینہ بہت کم افسانہ نگاروں کی توفیقات کا حصہ ہواہے۔ وہ محض ماجرا نگار نہیں تھے۔ تاہم کہانی کو جھٹک کراسے گورکھ دھندہ بنانے والوں میں بھی نہ تھے۔ انسانی وجود کے اندر مچلنے والی اتھل پتھل ہو یا سماجی اور ثقافتی ابھار،وہ انہیں زبان کے وسلیے سے برتتے رہے ہیں ۔ایسی زبان میں فکشن بناتے تھے جس میں محاورے اور کہاوتیں، کہہ مکرنیاں ہوتیں اور پوری کہانی میں علامت بننے کی صلاحیت بھی ہوتی۔آتش فشاں پر کھِلے گلاب، ’’اِسم اعظم کی تلاش‘‘، ’’چیزیں اور لوگ‘‘، ’’شہربیتی‘‘، ’’شہر ماجرا‘‘، ’’میں شاخ سے کیوں ٹوٹا‘‘، ’’اِیک آدمی کی کمی‘‘،’’میرے دِن گزررہے ہیں‘‘آصف فرخی کے افسانوں کے مجموعے ہیں۔ تنقید اور ترجمے کی کتب الگ ہیں۔جتنا انہوں نے لکھا، ترجمہ کیا یا مرتب کیا، اتنا تو عام آدمی زندگی بھر پڑھ بھی نہیں پاتا ہوگا۔ اچھا! یہ بھی نوٹ کر لیجئے کہ جب میں آصف فرخی کی عظمت کا سبب اُن کے فکشن کو قرار دیتا ہوں تو اس باعث نہیں کہ آصف کی موت کے صدمے کے سبب مروتاً ایسا کہہ رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن کے افسانے پڑھ رکھے ہیں اور ایسے کامیاب افسانوں کی ایک معقول تعداد کو نشان زد کر سکتا ہوں جو انہیں ایسا تخلیق کار ثابت کرتی ہے جسے کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں یہ درست ہے کہ ناقدین کی اُن کے فکشن کی طرف جتنی توجہ چاہیے تھی، اتنی نہ گئی اور وہ ایک مترجم، مدیر یا ادبی فیسٹول کے منتظم کو دیکھ کر دوسری اور متوجہ ہوتے رہے۔ خیر! وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے اوسط صلاحیت درجے والے آدمی نہ تھے۔لہاذا جس طرف بڑھے کچھ الگ کرکے دکھایا۔ تراجم کی کتب ایک طرف دنیا زاد کا مزاج ایسا بنادیا تھا کہ اردو ادب کے ساتھ آپ پر عالمی اَدب کا دریچہ کھلا رہتا۔ تنقید کی تو اصطلاحات میں نہیں الجھے سیدھا تخلیق سے معاملہ کیا۔ کئی کتابیں اور انتخاب مرتب کیے۔ کچھ آکسفورڈ سے چھپے، کچھ خود چھاپے کچھ اوروں نے چھاپے ۔یوں کتابوں کی گنتی ساٹھ سے اوپر چلی جاتی ہے۔دنیا زاد کا شمارہ ”کتاب الوداع ”چھاپ چکے توکہنے لگے یہ الوداعی شمارہ ہے۔ ہمارے اصرار پر پھر سے پرچہ جاری کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ کورونا وبا کے حوالے سے ایک پرچہ لگ بھگ مرتب کر چکے تھے۔ زندگی نے انہیں مہلت دی ہوتی تو کم از کم دنیازاد کاپچاسواں شمارہ ضرور آجاتا مگر موت نے جھپٹامارا اور انہیں اچک کر لے گئی۔ مجھے آصف کی موت ذاتی صدمے جیسی لگی۔شاید یہی سبب ہے کہ شمس الرحمن فاروقی سے لے کر نوجوان ادیبوں اور میرے بچوں تک سب نے مجھ سے میرے اس عزیز ترین دوست کے چل بسنے پرپرسہ کیا۔ میرے لیے لگ بھگ یہ ایسا ہی صدمہ تھا جیسا مجھے منشایاد یا پھر محمد عمر میمن کی وفات پر محسوس ہوا تھا کہ منشا یاداور عمرمیمن دونوں ایسے ادیب تھے جو اپنے اپنے کام میں یکتا تھے۔ اُن سے دوستی کا تعلق ادب بناتھا اور ان سے بھی آصف کی طرح مکالمہ کیا جاسکتا تھا۔

شاہدہ حسن

ڈاکٹر آصف فرخی میرے لیے چھوٹے بھائی جیسے تھے۔ پردیس میں مجھے ان کی اچانک رحلت کی خبر سے دلی صدمہ پہنچا ہے۔ابھی بیس مئی کو ہی تو انھوں نے ٹورنٹو فون کرکے مجھ سے وبا کے اِن دنوں میں میری تازہ لکھی ہوئی شعری اور نثری تحریروں کی زوردار فرمائش کی تھی جو وہ دنیا زاد کی آئندہ اشاعت کے لیے طلب کر رہے تھے۔ اپنا ایک ویڈیو کالم بھی مجھے بھیجا تھا کہ اس پر ضرور تبصرہ کیجیے گا،مجھے انتظار رہے گا۔ آصف علم و دانش کی دنیا کا اہم نام تھے۔ایک انتہائی لائق ِ تحسین ادیب،کہانی کار،نقاد،مترجم،معلّم اور ہماری ادبی اور تہذیبی اقدار کے قدردان اور عاشق۔ان کا سارا خانوادہ اپنا علمی اور ادبی پس منظر رکھتا ہے۔آصف نے ان تھک کام کیا ہے۔مشرق اور مغرب کے ادب کے جدید رحجانات کا خود بھی مطالعہ کیا اور اُس کے فروغ کے لیے بھی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ ہارورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ اُن کی تحریروں میں ان کا وژن اور زندگی کے وسیع تر مشاہدہ سے پیدا ہونے والی وسیع القلبی اور کشادگی بہت نمایاں ہے۔انھوں نے اردو کے علاوہ ہماری دیگر قومی زبانوں کے بھی ادیبوں اور شاعروں کو سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کیا۔کتنی اہم اشاعتوں کا سہرا اُن کے سر جاتا ہے۔انتظار حسین صاحب تو اُن کے ہیرو تھے مگر پھر سعادت حسن منٹو پر ان کے مضامین،اپنے شہر کراچی پر لکھی ہوئی تحریریں،نسائی ادب سے متعلق تحریریں۔ اس کے علاوہ ہماری مختلف زبانوں کی قلم کار خواتین کی معیاری تحریروں کو متعارف کرانے اور انھیں سنجیدہ فورم مہیا کرنے میں بھی آصف فرخی کی خدمات ناقابل ِ فراموش ہیں۔2010 سے انھوں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کے شریک میزبان کے طور پر بہت فعال کردار ادا کیا اور کراچی کی ادبی فضا کو اتنا تروتازہ کردیا کہ یہ ادبی فیسٹولز کراچی کی پہچان بن گئے اور لوگ بے حد جوش و خروش سے اس میں شریک ہونے لگے۔اس سال فروری میں بھی انھوں نے اپنے تین روزہ ادبی فیسٹیول میں ٹورنٹو سے مدعو کیا تھا اور یقینا ان پروگراموں میں شرکت میرے لیے اعزاز ہے۔ اس پروگرام میں آصف فرخی سے ہونے والی ملاقات اب یاد آرہی ہے اور دل کہہ رہا ہے کہ ہم نے ایک قیمتی سرمایا گُم کردیا ہے۔اللہ انھیں اپنے جوار ِ رحمت میں ابدی سکون سے ہم کنار رکھے۔

کاشف رضا

منٹو کی وفات کے بعد اردو اَدب کا سب سے بڑا نقصان…کسی ادیب کی وفات پر یہ کہنا معمول ہے کہ بھئی ادب کا بڑا نقصان ہو گیا۔ میرے نزدیک اس کا پیمانہ یہ ہے کہ ایک ادیب اپنی وفات کے وقت کتنا متحرک تھا اور اس کے کتنے ثمر آور سال ابھی باقی تھے۔آصف صاحب اس وقت اردوکے فعال اور متحرک ترین ادیب تھے۔ وہ ذہنی طور پر پوری طرح مستعد تھے اور اگر اُن کے پچھلے پندرہ بیس برسوں کے حاصلات دیکھے جائیں تو وہ اگلے پندرہ برسوں میں اَدب کو اور بھی بہت کچھ دینے کے قابل تھے۔فکشن وہ کم لکھ رہے تھے مگر فکشن لکھنے کی فرصت بھی شاید انھیں مل ہی جاتی لیکن نان فکشن تنقید، مضامین، ادبی کالم، تراجم اور غیر ملکی ادب کے تعارف ہی کے ضمن میں وہ اتنا کام اور قدر اوّل کا کام کر سکتے تھے جو ان کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔وہ عسکری صاحب کے دورِ عروج کی طرح کسی بھی ادبی بحث کو شروع کر کے تحریک بنا دینے کی پوزیشن میں تھے۔ان جیسا مطالعے کا مسلسل شائق، تیز رفتار قاری اور ایسے تاب ناک حافظے کا مالک اور کوئی نہیں تھا اور یہ بات میں پوری ذمے داری سے عرض کر رہا ہوں۔ایک منٹو ایسا ادیب نظر آتا ہے جس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ اس جیسا فعال ادیب ستر برس کی عام عمر پاتا تو مزید ستائیس برسوں میں کیا کچھ کر پاتا۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ منٹو کی وفات کے بعد اردو ادب کا سب سے بڑا نقصان آصف صاحب کی بے وقت وفات ہے۔

حصہ