ہادیہ امین
فہیم شاہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ دو کمروں کا گھر چھوٹا سہی مگر ان کا اپنا تھا۔ دو گلی چھوڑ کے ایک کمرے کا گھر سات سال پہلے ان کی اہلیہ کو ورثے میں ملا تھا جو انہوں نے کرائے پر دیا ہوا تھا اور تھوڑی دور پر ان کی گاڑیاں ٹھیک کرنے کی ایک دکان تھی۔ ضرورتیں الحمدللہ ہمیشہ پوری ہوئیں۔ حالات کیسے بھی ہوئے فہیم شاہ نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ ہاں فضول خرچیوں کے عادی نہ وہ خود ہوئے اور نہ اپنی اولاد کو کیا۔ بچوں کو اچھی تعلیم دلوائی‘ رشتے داروں کے تمام حقوق نبھائے۔
اسی طرح دن اور رات گزر رہے تھے کہ فہیم شاہ کی بیٹی کا رشتہ اچھے گھرانے میں طے ہوگیا۔ وہ اور ان کی اہلیہ مطمیٔن تھے کہ لوگ اچھے ہیں۔ مگر ایک فکر انہیں ستا رہی تھی کہ بس ان کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہے‘ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔
’’آپ جانتے ہیں ان کے خاندان کی ریت ہے کہ بیٹوں کا نکاح جمعۃ الوداع اور شادی عیدالفطر کے پہلے دن ہوتی ہے‘ پہلے تینوں بیٹوں کی دفعہ بھی یہی ہوا ہے‘ پھر ولیمہ وہ بعد میں کرتے ہیں۔ رمضان میں چند ہی مہینے رہ گئے ہیں تیاری جلد ہی کرنی ہوگی۔‘‘ شمع بیگم نے فہیم شاہ کو آگاہ کیا۔
’’معلوم ہے مجھے‘ جانے پہچانے لوگ ہیں‘ اپنی حیثیت کے مطابق جو ہوا کرلیں گے۔‘‘ فہیم شاہ نے جواب دیا۔
’’ابا کے گھر سے جو کرایہ آتا تھا‘ وہ میں مصباح کی شادی کے لیے ہی جوڑتی آئی ہوں‘ جہیز وغیرہ کا انتظام کسی حد تک اس سے ہو سکتا ہے۔‘‘ شمع بیگم نے اپنی رائے دی۔
’’کمال کرتی ہیں آپ بھی‘ سات سال پہلے تو کرایہ آنا شروع ہوا ہے‘ کتنا جہیز بنا لیں گی اس سے؟ کوئی ایک کام نہیں ہے‘ بہت خرچے ہیں‘ سادگی سے چلیں گے‘ فضول خرچی نہیں کریں گے‘ ایک سالن اور ایک چاول شادی کا کھانا ہوگا اور دیگر فضول رسمیں مہندی مایوں یہ قطعاً ضروری نہیں ہیں۔‘‘ فہیم شاہ نے دو ٹوک فیصلہ سنایا مگر دوسری طرف حیرت کا پہاڑ ٹوٹا تھا۔
’’ایک ہی تو بیٹی ہے‘ کیا سوچیں گے لوگ‘ ایسے موقعوں پر تو لوگ خرچے کرتے ہیں‘ پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں۔ فہیم صاحب! ہم بھی سب کی شادیوں میں گئے ہیں‘ ایک سالن ایک چاول کھا کر نہیں آئے کبھی… ہمیں بھی انہی طریقوں پر چلنا ہے‘ دنیا میں عجوبہ بن جائیں گے ورنہ‘ اکبر کی نوکری بھی تو ہے‘ کچھ ہو ہی جائے گا۔‘‘
فہیم شاہ غصّے میں آگئے’’تو کیا کروں! کیا ہاتھ پھیلاؤں لوگوں کے آگے؟ اللہ نے جو فرض عائد کیا ہے عزت سے وہ پورا کردوں تو بڑی بات ہے۔ اللہ جانتا ہے میں نے ہمیشہ اپنے بچوں کو حلال کھلایا ہے‘ کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا‘ یہ جو بڑے بڑے ہالوں میں شادیاں ہوتی ہیں کتنا رزق ضائع ہوتا ہے‘ فائدہ کیا ہوتا ہے… صرف ہم جیسے پریشان ہوتے ہیں۔ لوگوں نے سالن اور چاول کھا کے بھی بھول ہی جانا ہے۔ شمع بیگم! سادگی سے ہی چلیں گے ہم باقی معاملات میں بھی۔ آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں؟‘‘
اسی گرما گرمی کے دوران اکبر گھر آگیا۔ ماں باپ دونوں خاموش ہوگئے۔ کسی کے گھر آتے ہی پریشانی کا ذکر نہ کرنا اُن کے گھر کا طریقہ تھا۔
’’السلام علیکم امّی ابّو! کیا حال ہیں۔‘‘ سالم نے کہا۔
’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ۔ اللہ کا شکر ہے بیٹا تم سناؤ۔‘‘
’’الحمدللہ۔ سنا ہے چین میں کوئی وبا پھیلی ہے‘ بہت تیزی سے, لوگ مر رہے ہیں۔‘‘سالم نے والدین کو اطلاع دی۔ شمع بیگم نے جواب دیا ’’ہاں بیٹا! وہاں مسلمانوں پر ظلم ہوتا تھا ناں‘ اللہ نے سزا دی ہے انہیں۔‘‘
…٭…
فہیم شاہ کی رات کڑوٹیں بدلتے گزری۔ گو کہ ابھی کافی وقت تھا مگر ان کی پریشانی بجا تھی۔ وہ اٹھے‘ وضو کیا‘ تہجد پڑھی اور دعا کرنے لگے… ’’یا ارحم الراحمین! تُو دینے والی ذات ہے‘ مشکل کو آسان کرنے والی ذات ہے‘ یارب! تو جانتا ہے میں نے کم کھایا‘ کم کھلایا مگر تیرے سوا کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا… یارب! تُو قدرتوں کا مالک ہے‘ تُو جب گھٹا ٹوپ اندھیروں کے بعد دن بھیجتا ہے تو لگتا ہی نہیں یہاں کبھی اندھیرا تھا۔ تیرے تمام فیصلوں میں حکمت ہوتی ہے۔ اے مالک الملک‘ اے اسباب کے مالک! میری مشکل آسان کردے‘ میرے اوپر وہ وقت نہ لا کہ مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑے‘ میری سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ میرے مالک…!‘‘ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ فہیم شاہ نے اپنی فکرات اللہ کے سامنے رکھ دی تھیں۔ بے شک بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
…٭…
وقت کے ساتھ شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔
’’امی ابا! شہر بند ہو رہا ہے‘ کاروبار‘ تجارتی مراکز‘ تعلیمی ادارے سب بند ہو رہے ہیں۔‘‘ اکبر بلند آواز میں کہتا جا رہا تھا۔
’’اسی کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہو رہا ہے… ابا شادی ہال بھی بند ہوں گے‘ آج تو آپ کو میرے ساتھ ہال ڈھونڈنے جانا تھا۔‘‘ سالم نے ارادہ ٹوٹتے دیکھا۔ فہیم شاہ بھی پریشان ہوگئے۔ کیا کریں اور کیا نہ کریں… کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
…٭…
(چند دن بعد)
فون کی گھنٹی مستقل بج رہی تھی۔ شمع بیگم کی سمدھن کا فون تھا‘ ہر بڑے چھوٹے کو منہ پر انگلی کے اشارے سے خاموش کرایا گیا۔
’’بہن! نکاح اور رخصتی کے فرائض تو اُسی وقت پر ادا ہوں گے جو وقت طے ہے‘ وداع بھی ایک دو لوگوں کو ساتھ لے کر گھر سے ہو جائے گی۔ اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ابھی بھی بہت اچھے حال میں رکھا ہوا ہے۔ اللہ خیر و عافیت کا ماحول رکھے اور موقع لائے‘ پھر کبھی ان شاء اللہ بہو‘ بیٹے کے تمام ارمان پورے کریں گے‘ ابھی فرض ادا کرلیتے ہیں۔‘‘
فہیم شاہ ابھی ابھی گھر میں داخل ہوئے تھے۔ فون بند ہونے کے بعد وہ سوچ رہے تھے انسان کتنے ہی منصوبے بنالے‘ جو اللہ چاہے وہی ہوکر رہتا ہے۔ اللہ نے تو ہمارے لیے بہت آسانیاں رکھی ہیں‘ ہم نے خود ہی اپنی زندگی کو مشکل بنایا ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہماری زندگی حقیقت سے قریب ہوگئی‘ تکلفات دور ہوگئے‘ اللہ ہر پریشان حال کی مشکل آسان کرے۔ انہوں نے اپنا ماسک اُتارا اور وضو کرنے چلے گئے۔