اُمِ ایمان
(قسط نمبر12)
اس دن سپاہی نے اسے اطلاع دی کہ آج ناشتے کے بعد بڑے افسر یعنی ’’فیروزے خان‘‘ کے آفس میں حاضری ہے لہٰذا تیار رہنا ہے۔ سپاہی کے جانے کے بعد ناظم اللہ نے اس کو اشارہ کیا کہ اب یقینا تمہارے بارے میں کوئی فیصلہ کیا جا چکا ہے، اور دیکھو اگر وہ تم کو اپنی جاسوسی کے لیے کہیں تو ہرگز انکار نہ کرنا، کیوں کہ اس میں ہی تمہاری بھلائی ہے۔ ناشتے کے بعد زبیر نے دو نفل ادا کرکے اللہ سے گڑگڑا کر دعا کی کہ ’’یارب مجھے بامراد کیجیے گا اور میری رہنمائی فرمایئے گا، اور یارب ان کے دلوں کو میری طرف سے صاف کر دیجیے تاکہ میرے کام میں آسانی ہو جائے اور آپ ہی دلوں کو پھیرنے والے ہیں۔‘‘
نماز کی ادائیگی کے بعد وہ بالکل مطمئن ہوگیا۔ اس نے اپنے دل میں ایک عزم اور حوصلہ محسوس کیا۔ وہ پلنگ پر اپنی سوچ میں گم بیٹھا تھا۔ کب سپاہی اندر آیا، اسے پتا نہیں چلا۔ ہاں جب ناظم اللہ نے اس کو بازو سے پکڑ کر ہلایا تو چونک گیا۔ سپاہی کو دیکھ کر وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ ناظم اللہ نے آج خصوصی طور پر اس کا ہاتھ تھاما اور اسے ’’گڈ لک‘‘ کہا۔
یہ اس آفس میں اس کا تیسرا پھیرا تھا۔ پہلے دونوں دفعہ اس کو جب لایا گیا تو انداز مجرموں کا سا تھا، لیکن آج بڑے احترام سے اس کے لیے دروازہ کھولا گیا۔ شیشے کی وسیع میز کے پیچھے بیٹھے ’’فیروزے خان‘‘ نے اس کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ایک لمحے کے لیے زبیر جھجک سا گیا، اس نے غور سے اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر وہ رعونت اور خشونت نظر نہ آئی جس میں موت کی سی ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا۔ آنکھوں سے کچھ اور جذبوں کی نشاندہی ہورہی تھی۔
سامنے پڑی فائل کے صفحات کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس نے زبیر کی آنکھوں میں جھانکا ’’تم ملک حبیب اللہ کے بیٹے ہو؟‘‘
پتا نہیں اس کی آنکھوں میںکیا تھا، گہری اداسی کے ساتھ ساتھ محبت کی چمک۔ زبیر کو ان آنکھوں میں دیکھ کر عجیب سی الجھن ہونے لگی۔
…٭…
یہ 1979ء کی بات ہے جب سوویت یونین نے افغانستان کی سیاست پر اس حد تک قبضہ کرلیا تھا کہ یکے بعد دیگرے نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اللہ امین کو حکومت میں لانے اور پھر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد انہیں قتل کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود سوویت یونین کے جارحانہ عزائم پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ لہٰذا انہوں نے ببرک کارمل کو جو اُس وقت مشرقی یورپ میں تھا، بلوا کر تختِ کابل اس کے حوالے کیا۔ یوں ببرک کارمل نے سوویت یونین کی افغانستان میں براہِ راست مداخلت کا دروازہ کھول دیا۔ ببرک کارمل کی درخواست پر روس اپنی پچاس ہزار افواج کے ساتھ اپنے دیرینہ مگر کمزور دوست ملک افغانستان پر قبضے کے لیے داخل ہوگیا۔
اس سلسلے میں بہانہ یہ کیا کہ روسی فوجیں افغانستان میں روس افغان دوستی کے معاہدے کے تحت داخل ہوئی ہیں اور ان کا مقصد افغانستان کو ہر لحاظ سے ترقی یافتہ بنانا ہے۔
مغربی تجزیہ نگاروں نے اس زمانے میں اپنے تجزیوں میں جو اندازے لگائے اس کے مطابق سرخ فوج کے کم از کم دس ڈویژن افغانستان میں موجود تھے۔ یہ تقریباً اسّی ہزار سے ایک لاکھ فوجی ہوتے ہیں، لیکن اس سلسلے میں درست اندازہ یوں نہیں لگایا جاسکتا کہ بہت سے فوجی آپریشنوں کا آغاز روسی سرزمین سے کیا جاتا اور وہیں ان کا اختتام بھی ہوتا تھا۔
فضائی حملوں میں حصہ لینے والے جنگی جہاز روسی سرحد کے اندر واقع ہوائی اڈوں سے اڑ کر آتے تھے اور وہیں واپس چلے جاتے تھے۔ زمینی جنگ میں صرف وادیِ پنجشیر میں پانچ سو سے زیادہ روسی ٹینک تباہ ہوچکے تھے۔ جب کہ جنوری 1980ء سے لے کر 1989ء تک پورے افغانستان میں پانچ ہزار سے زیادہ روسی ٹینک تباہ ہوئے اور روسی افواج کے پچاس ہزار سے زیادہ فوجی مارے گئے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق روس افغانستان میں روزانہ دو کروڑ ڈالر فوجی اخراجات کرتا رہا تھا۔
اس قدر وسیع اخراجات اور کثیر تعداد میں فوجیوں کے مارے جانے کے باوجود روس ابھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھا۔ لہٰذا اس نے جراثیمی اور کیمیاوی ہتھیاروں کو بھی آزمانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس سلسلے میں ابتدا کی جا چکی تھی۔
ببرک کارمل کے حکومت میں آنے کے بعد جہاں روس افغانستان میں کھلم کھلا جارحانہ عزائم کے ساتھ داخل ہوا، وہیں بہت تیزی کے ساتھ افغان مہاجرین کا، پاکستان کی طرف ہجرت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 1979ء کے ہر ماہ میں افغان مہاجرین کی تعداد میں پندرہ ہزار تک اضافہ ہورہا تھا، ان میں زیادہ تعداد عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی تھی۔
یہی وہ وقت تھا جب کابل خورد میں رہنے والے شیردل نے اپنے بیوی بچوں اور اپنی بہن کو لے کر ہجرت کا ارادہ کیا۔ اس نے سوچا تھا کہ عورتوں اور بچوںکو محفوظ مقام پر پہنچا کر وہ بھی جہاد کی راہ کا مسافر بن جائے گا۔ روز ظلم و تشدد کی ایک نئی کہانی سن کر اس کے دل میں ایک الائو سا دہکنے لگا تھا۔ بعض دفعہ تو اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس کا اپنا نفس اس پر نفرین بھیج رہا ہو کہ تیرا ملک کافروں کے قبضے میں، تیرے مسلمان بہن بھائی ان کے ظلم کا شکار اور تُو یونہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے انتظار میں بیٹھا ہے! سو آخرکار اُس نے اس کے لیے انتظامات شروع کیے۔ سب سے پہلے دکان مہرو کے حوالے کی اور اس سے کہا کہ اس دکان کو تم اپنی دکان سمجھ کر چلانا، نفع میں سے ساٹھ فیصد اپنے استعمال میں لے آنا، باقی چالیس فیصد محفوظ رکھنا، اگر واپس آنا ہوا تو تم سے لے لوں گا، ورنہ پھر یہ کسی مجاہد کے گھرانے کا تم پر حق رہے گا۔
اس دن شیردل کینوس کے دو بڑے بڑے تھیلے خرید کر لایا، صفیہ اور زینب کو کمرے میں بلا کر ان کے حوالے کیے اور آہستہ آہستہ چلنے کی تیاری کرنے کے لیے کہا۔
’’ابھی تو میں صرف یہ دو تھیلے خرید کر لایا ہوں، زیادہ خریدنے سے روسی شک کرتے ہیں۔ دیکھو، تمام ضروری سامان ان میں باندھ لو۔ بھاری اور فالتو سامان ایک کمرے میں بند کردو۔ اگر واپس آسکے تو پھراستعمال میں لائیں گے۔‘‘ شیر دل کی بات سن کر صفیہ اور زینب دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں۔
’’اس قدر حیرانی کس بات کی ہے! میں چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کو پاکستان کے مہاجر کیمپ میں بحفاظت پہنچا دوں تو جہاد میں اپنا حصہ بھی ڈالنے کا سوچ سکوں۔‘‘ شیردل کی بات سن کر صفیہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔
’’اری نیک بخت کس بات کا غم کررہی ہے! آج ہماری قوم بڑی آزمائش میں ہے، یہ قربانی بھی کوئی قربانی ہے! زابل کی نور بی بی کا قصہ نہیں سنا جو مجاہدین کے لیے کھانا پکاکر محاذ پر انہیں پہنچاتی تھی۔ پھر ایک دن جب وہ کھانا لے کر پہنچی تو پتا چلا کہ روسیوں نے مجاہدین کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ ایک محافظ سے بندوق چھین کر وہ محاذ کی طرف بھاگی اور روسیوں پر اندھا دھند فائرنگ کرکے انہیں محاصرہ توڑنے پر مجبور کردیا۔ کتنے ہی روسی اس کے ہاتھوں مارے گئے اور وہ خود بھی شہادت پا گئی لیکن اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی۔ وہ بھی تو ایک عورت ہی تھی، اس نے اپنی زندگی دے کر ہمیشہ کی زندگی پالی۔ میری اور تیری قربانی بھی کوئی قربانی ہے!‘‘
اگلے ایک ہفتے کے دوران شیر دل کئی بیگ اور کینوس کے تھیلے خرید کر لاتا رہا۔ زینب اور صفیہ سامان باندھنے کا کام رات کو کرتیں تاکہ خبر اِدھر اُدھر زیادہ نہ پھیلنے پائے۔ بچوں کو بھی سختی کے ساتھ تنبیہ کردی تھی کہ خبردار کسی سے ذکر نہ کریں۔
آخر ہجرت کی رات آپہنچی۔ شیردل نے ایک ویگن کا انتظام کیا۔ انہیں کچھ راستہ ویگن پر طے کرنے کے بعد باقی راستہ خچروں اور گدھا گاڑیوں پر طے کرنا تھا۔
زینب کی حالت بہت خراب تھی، دل بے چین تھا کہ شوہر کا کچھ پتا چلا نہ بیٹوں کی طرف سے کوئی پیغام آیا۔ لیکن اس نے اپنے اضطراب کو بچوں سے چھپائے رکھا۔ البتہ کبھی کبھی آنکھوں سے آنسوئوں کی ندی بند توڑ کر بہہ نکلتی۔ صفیہ اس کی ہمت بندھاتی۔ یوں قافلہ روانہ ہوا اور کئی دن کے پُرصعوبت سفر کے بعد پاکستان کی سرحد تک پہنچا۔ راستے میں بچے بیمار بھی پڑے اور پھر خود ہی لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہوگئے کہ راستے میں دوا اور ڈاکٹر کا تصور محال تھا۔ زینب سوچتی تھی کہ پتا نہیں زبیر اور جمال، کمال کو اب دیکھ بھی پائوں گی یا نہیں۔ نہ معلوم وہ کہاں اور کس حال میں ہیں؟
دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی تو آنسوئوں کی لڑیاں آنچل کو تر کردیتیں۔ مہاجر کیمپ میں شیردل نے چھ ماہ ساتھ گزارے، اس دوران کیمپ کے اسکول میں چاروں بچوں کو داخل کرا دیا۔ فاطمہ اور گل جانہ کو گھر پر پڑھانے کی تاکید کی۔ زینب کو دلاسا دیا کہ میں جاکر زبیر کا پتا بھی کروں گا اور ساتھ ہی اس کے کمانڈر ادریس سے بھی ملوں گا۔ موقع ملا تو جمال اور کمال کو ایک آدھ ماہ کی چھٹی پر بھیجنے کی کوشش کروں گا۔
تسلی اور دلاسے کے لیے ڈھیر سارے وعدے کرکے شیردل ایک دن سرحد پار روانہ ہوگیا۔ اونچے لمبے قد پر ملیشیا سوٹ خوب جچ رہا تھا۔ صفیہ نے آنکھوں کے آئینے میں شیردل کی تصویر سجا لی۔ الوداعی نظر ڈال کر اس نے بچوں کو پیار کیا اور تیز مضبوط قدموں سے باہر نکل گیا۔
…٭…
بیس کیمپ میں جو سب سے پہلی اطلاع شیردل کو ملی وہ یہ تھی کہ ایک ہفتے پہلے جمال اور کمال اپنے باپ زبیر کو چھڑانے اور دشمنوںکی قید سے آزاد کرانے کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔
کمانڈر ادریس سے اس سلسلے میں بات چیت ہوئی تو شیردل نے پوچھا کہ ’’کیا زبیر واقعی دشمنوں کی قید میں ہے؟‘‘
’’ہاں اس بات کی تصدیق ہم کرچکے ہیں، وہ واقعی ایک انویسٹی گیشن سینٹر میں قید ہے۔‘‘ کمانڈر ادریس نے اسے میدانِ جہاد میں قدم رکھنے پر مبارک باد بھی دی۔
دن بھر تو تربیت کے سخت مراحل ہوتے تھے لیکن رات کو کھانے کے بعد گپ شپ کے دوران اکثر میدانِ جہاد کے واقعات دہرائے جاتے۔ یہ واقعات سچے ہوتے تھے اور سینہ بہ سینہ راوی تک پہنچے تھے۔ اس دن مولوی ارسلان کے چچازاد بھائیوں مولوی عبدالحمید، مولوی شام محمد اور مولوی عبدالحق نے گل محمد کا واقعہ سنایا جو اس نے خود ان کو سنایا تھا۔
گل محمد کے مطابق ایک دن ہم روسیوں کی راہ میں سرنگیں بچھا رہے تھے، ہمارے ساتھ کُل بارہ مجاہد تھے، جلد ہی ہم نے اپنا کام مکمل کرلیا اور واپسی کا ارادہ کیا، لیکن اندھیرے میں میرے ساتھی آگے نکل گئے اور میں پیچھے رہ گیا، جب مجھے اس بات کا احساس ہوا تو میں تیزی کے ساتھ آگے چلنے لگا تاکہ اپنے ساتھیوں تک پہنچ جائوں، لیکن میں تو راہ گم کرچکا تھا، لہٰذا غلط سمت کی طرف نکل گیا۔ چلتے چلتے ایک جگہ ٹھیر کر جب اردگرد کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ میں روسیوں کی چھائونی میں داخل ہوچکا ہوں۔ کلاشنکوف میرے کندھے پر تھی اور جیب میں گولیوں کے پیکٹ موجود تھے۔
اتنے میں روسیوںنے مجھے دیکھ لیا اور گرفتار کرلیا۔ پوچھ گچھ کے لیے وہ اپنے آفیسر کے پاس لے گئے۔ اس نے پوچھ گچھ شروع کی کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو، کیوں آئے ہو؟
میں نے صاف کہا کہ میں طالب علم ہوں، جہاد کرتا ہوں اور تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھے اپنے کمانڈر کے سامنے پیش کیا، اس نے پوچھا تم کیا چاہتے ہو؟
میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں روسیوں کو قتل کرنا اور انہیں افغانستان سے نکالنا چاہتا ہوں۔ کمانڈر غصے میں آئے بغیر بولا ’’میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہاری گولی سے ہمارے ٹینک کیونکر جل اٹھتے ہیں؟‘‘ میں نے کہا ’’ہم کلمہ پڑھ کر اگر پتھر بھی پھینک دیں تو تمہارا ٹینک جل اٹھے۔‘‘
روسی کمانڈر مسکرایا اور بولا ’’ٹھیک ہے، یہ ٹینک ہے، اپنے دعوے کے مطابق اس کو جلا کر دکھائو۔‘‘
میں نے ان سے وضو کے لیے پانی مانگا، پھر وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کی، اور سجدے کے عالم میں اپنے رب سے دعا مانگی کہ اے اللہ! کافروں کے مقابلے میں میری مدد فرما اور اپنے دین کو غالب کردے۔ اپنے دشمنوں کے سامنے اپنے دوست کی مدد فرما، تاکہ یہ لوگ عبرت حاصل کریں اور ذلیل ہوکر رہ جائیں۔‘‘
محمد گل کہتا ہے کہ میری دعا لمبی ہوگئی، پھر میں نے مٹھی بھر کنکر اور مٹی اٹھاکر ٹینک پر پھینک دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے شعلوں نے پوری طرح ٹینک کو گھیر لیا اور تمام روسی منہ کھولے حیرت سے دیکھتے رہ گئے۔
روسی کمانڈر نے مجھے فوجی سیلوٹ کیا، پھر میری کلاشنکوف اور گولیاں میرے حوالے کیں اور کہا ’’جائو امن اور سلامتی کے ساتھ اپنے کیمپ میں لوٹ جائو۔‘‘
یہ واقعہ سناتے ہوئے سارے مجاہدین کو یوں لگ رہا تھا کہ گویا یہ واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہو۔ جیسے ہی واقعہ ختم ہوا تمام مجاہدین نے مل کر نعرۂ تکبیر لگایا۔ ایسا لگا جیسے زمین اور آسمان کی ساری مخلوقات نے ہم آہنگ ہوکر ان کا ساتھ دیا ہو۔کمانڈر ادریس نے سارے مجاہدین کے ساتھ مل کر کافروں پر مسلمانوں کے غلبے کے لیے دعا کی اور پھر ان کو اپنے بستروں کا رخ کرنے کی ہدایت کی۔ (جاری ہے)