بچے، کارٹون اور ہماری غفلت

296

فائزہ حقی
ہمارے بچپن میں کتنے معصوم، معصوم کارٹونز آتے تھے۔ ٹی وی چینل ایس ٹی این سے بہ مشکل آدھے گھنٹے کا کارٹون آتا تھا سات سے ساڑھے سات بجے تک۔ اور اس آدھے گھنٹے کا انتظار ہمیں پورے دن رہتا تھا۔ ان کارٹونز میں بیبی لونی ٹونز، ٹام اینڈ جیری، پوپائے دا سیلرمین اور اس قسم کے دوسرے ہلکے پھلکے کارٹونز شامل تھے، جنہیں دیکھ کر بہت مزا آتا تھا اور دل چاہتا تھا کہ ابھی مزید بھی کارٹونز دیکھتے رہیں۔
پھر ان کا دورانیہ بڑھا دیا گیا اور مختلف قسم کے کارٹونز نے اپنی کریہہ اور مکروہ شکلیں دکھانی شروع کردیں۔ ان میں ’’وہاٹ آ کارٹون شو‘‘ کے نام سے عجیب مکروہ قسم کے کارٹونز آنے لگے، لیکن چونکہ کاٹونز دیکھنے کا شوق عروج پر تھا لہٰذا اس قسم کے کارٹونز بھی دیکھ ہی لیے گئے۔ اب معاملہ یہ ہوگیا کہ کارٹونز ہی کے ذریعے سارے کا سارا دجال دماغوں میں انڈیلا جانے لگا۔ لیکن کیونکہ نیند کی یہ کڑوی گولی گلاب جامن میں لپیٹ کر دی گئی تھی لہٰذا گلاب جامن کے شوقین اسے بھی آرام سے ہڑپ کرنے لگے، حتیٰ کہ انہی معصوم کارٹونز میں ایک آنکھ کا مندر دکھایا جانے لگا، اس کو سجدہ کرتی مخلوقات اور اس سے استفادہ کرتے لوگ۔ لیکن الحمدللہ دوسری طرف کالج میں مکمل طور پر مذہبی رجحان کی حامل مختلف طالبات کے ساتھ دوستی نے سکھا دیا کہ مسلمان ہر چیز کو اپنے مذہب کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ سو، کارٹونز کا نشہ ہرن کرنے کے لیے یہ بات کافی تھی، لہٰذا ان کارٹونز کے پردے میں لگایا جانے والا طوق نظرآنا شروع ہوگیا۔
موجودہ دور کے بچوں پر اگر تھوڑی سی توجہ دیں تو واضح نظر آتا ہے کہ وہ کارٹون مینیا کا اس طرح شکار ہوچکے ہیں کہ اب کوئی سنجیدہ سے سنجیدہ بات بھی انہیں متاثر نہیں کرپاتی۔ وہ ہر وقت ایک یوٹوپیائی کی کیفیت میں رہتے ہیں۔ اس یوٹوپیائی کیفیت سے بہت کم بچے اور نوجوان محفوظ ہیں۔ اب ذرا ہم غور کریں تو وہ معصوم معصوم سے کاٹونز بھی اپنا چولا پھاڑ کر اصلیت میں آچکے ہیں۔
ہر کارٹون کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بنانے والے کو علم ہوچلا ہے کہ اب وقت بہت تھوڑا ہے، لہٰذا جو کرنا ہے کرلو، اور اس کے فوائد سمیٹ لو۔ یعنی ہم سے زیادہ ہماری تاریخ سے بنی اسرائیل واقف ہیں۔ وہ سو سال آگے کی سوچ رکھتے ہیں۔ اگر آپ کو علم ہو تو ان کے ہاں ان کی بنائی گئی ساری لگژری چیزیں مکمل طور پر بین ہیں جو ہمارے یہاں عام استعمال ہوتی ہیں۔
ہم یہ بھی سوچیں کہ آخر وہ ہمارے لیے اتنی چیزیں بناکر ہمیں کیوں سپلائی کرتے ہیں، جب کہ ان کے اپنے بچے بے چارے انہی چیزوں کو ترستے ہیں جو ہماری اولاد کو وافر مقدار میں مل جاتی ہیں۔
ہمیں پتا چلا کہ موبائل کے سارے نیٹ ورکس جو ہمیں لیٹ نائٹ فری پیکیجز دے رہے ہیں، یہودی اور ان کے بچے اس ’’آسانی‘‘ سے بھی محروم ہیں۔ یہ سارے کارٹونز جو ہم پورا پورا دن لگا کر مستفید ہوتے ہیں ان کے لیے بھی اُن کے پاس وقت تھوڑا ہی ہوتا ہے…کیوں…؟
موجودہ صورتِ حال چیخ چیخ کر انتباہ کررہی ہے کہ سنبھل جاؤ، کہ مسیحا کی آمد آمد ہے۔ اس کے ماتھے پر لکھا لفظ صرف اُن آنکھوں کو نظر آئے گا جن کی بصیرت کی نگاہ ہوگی، ورنہ اللہ نہ کرے کہ ہم بھی اسی ریلے میں بہہ جائیں کہ دجال کو اپنا خدا ماننے پر تیار ہوجائیں۔ ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو تو فتنوں کے اس دور میں فتنوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی ہی ہے۔ اِن شاء اللہ۔

حصہ