ہادیہ امین
سیف اﷲ جب اپنے دادا کے ساتھ پہلی دفعہ ان کے اسکول گیا تو وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ سب بچے اسکے دادا سے ہاتھ مِلانے کو بےتاب تھے. اُسے دور دور سے آوازیں آتی سنائی دیں۔
’’احسن صاحب آگئے!! احسن صاحب آگئے!!‘‘
سب بچے دادا کو سلام کر رہے تھے اور دادا خوشی خوشی سب سے ہاتھ ملا رہے تھے۔ سیف اﷲ کو یاد آیا کہ ’’ہاں دادا کا نام احسن ہی تو ہے‘‘ اسے یاد ہی نہیں رہتا کیونکہ گھر سے پہلی بار وہ کسی اسکول آیا تھا اور گھر میں سب انہیں دادا یا ابّو کہتے.. ہاں ٹی وی پر جب کبھی دادا آتے تو انہیں۔
’’احسن نعیم ٹرسٹ کے صدر‘‘ کہا جاتا… دراصل’’احسن نعیم ٹرسٹ‘‘ دادا کا ایک خیراتی ادارہ تھا جن سے وہ غریبوں کی مدد کیا کرتے۔ یہ اسکول جس میں آج سیف اﷲ دادا کے ساتھ آیا تھا ، دادا کے ٹرسٹ (خیراتی ادارے) کے تحت چلنے والا اسکول تھا. یہاں وہ بچے پڑھتے تھے جن کے والدین یا تو اس دنیا سے جا چکے یا جن کے والدین پرائوٹ اسکولوں کی مہنگی فیس ادا کرنے سے قاصر تھے۔ یہاں انہیں معیاری تعلیم دی جاتی تھی۔ دادا ہر ہفتے اس اسکول کادورہ کرتے اور اس دفعہ وہ اپنے ساتھ سیف اﷲ کو بھی لے کر آئے تھے…
دادا نے تمام کلاسوں کو دیکھا، استادوں سے ملے، کچھ بچوں سے خصوصی بات کی، کچھ کو کچھ انعامات بھی دادا کی طرف سے دیے گئے… ’’اسکولوں میں تو بہت مزا آتا ہے،مجھے خواہ مخواہی سب ڈراتے ہیں کہ اسکول جاؤ گے تو یہ ہوگا، وہ ہوگا‘‘ اس نے دل میں سوچا…
گھر واپسی پر سیف اللہ کافی تھک چکا تھا. امّی نے جلد ہی کھانا کھلا کر سلا دیا. زیادہ تھکن کی وجہ سے سیف اللہ دیر تک سوتا رہا۔امّی سے باتیں کرنے اور ان کو اسکول کے بارے میں بتانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ شام کو جب دادا سے ملنے کچھ لوگ آئے۔ سیف اللہ پھر دادا کی گود میں بیٹھ گیا۔ ان کے پاس چند کیمرے اور ایک مائیک بھی تھا جن سے وہ دادا سے کچھ باتیں پوچھتے اور دادا انہیں تفصیل سے جواب دیتے۔ ان کے جانے کے بعد رات کے کھانے کا وقت ہو گیا۔ سیف اللہ نے رات کا کھانا کھایا، دادا کے ساتھ نماز پڑھی… سب سونے کی تیّاری کر رہے تھے مگر دوپہر کو دیر تک سونے کی وجہ سے سیف اللہ کی نیند غائب ہو چکی تھی…
’’کیا ہوا شہزادے! سونے نہیں جا رہے تم؟‘‘ دادا نے پوچھا۔
’’نہیں دادا، نیند نہیں آرہی، ہم باتیں کریں؟؟‘‘ سیف اللہ نے شرارتی لہجے میں پوچھا…
دادا تھکے ہوئے تھے مگر پھر بھی کہنے لگے ، ’’ ہاں کرتے ہیں ، تم سناؤ ،مزا آیا آج اسکول میں؟‘‘
’’جی دادا بہت زیادہ، دادا میں کتنا لکی(خوش قسمت) ہوں نا، سب بچے آپ سے ہاتھ ملا کر خوش ہوتے ہیں، لوگ آپ سے ملنے کے لیے ٹائم سیٹ کرتے ہیں، مگر میں ہر وقت آپ سے مل سکتا ہوں،آپ کی گود میں بیٹھ سکتا ہوں، واہ! مزے…‘‘۔
دادا یکدم مسکرانے لگے، سیف اﷲ کچھ سوچے گا ضرور، لیکن اس طرح سوچے گا، دادا کو امید نہیں تھی…
’’ہاں بھئی یہ تو ہے، میرا شہزادہ بہت لکی ہے، مگر ایک بات بتاؤں سیف اللہ!! کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مجھ سے بھی زیادہ مشہور اور قابل ہیں، اور کچھ ان سے بھی زیادہ، اور کچھ ان سے بھی زیادہ، اس دنیا میں چھوٹے بڑے سب ہی طرح کے لوگ ہیں، لیکن ایک ایسا بھی ہے ، اور وہ ایک ہی ہے، جو ان سب کا مالک ہے ، جو جو چاہے جس کو چاہے دے سکتا ہے…‘‘
دادا کی بات پوری بھی نہیں ہوئی کہ سیف ﷲ جھٹ بول پڑا ’’میں سمجھ گیا ، صدر یا وزیر اعظم!‘‘
دادا جواب سن کر خاموش رہے اور اپنی بات جاری رکھی…
’’جس کے پاس اتنی ساری چیزوں کے خزانے ہیں، اس سے اگر سب انسان ایک میدان میں کھڑے ہو کر جو مانگیں،وہ سب کچھ دے دے، پھر بھی اس کی چیزوں کے خزانے کم نہیں ہونگے، جس کا علم تھوڑا تھوڑا نہیں بلکہ اس کو ہر بات پتہ ہے، کوئی سوچ بھی رہا ہو اور بولے بھی نا، اس کو وہ بھی پتا ہے، اگر کوئی جھوٹ بولے تو اس کو سچ پتا ہوتا ہے، اس کی طاقت جتنی طاقت کسی کے پاس بھی نہیںاور تمہیں پتا ہے سیف اﷲ! اس کو تم سے بہت محبّت ہے؟‘‘
’’ہیں! مجھ سے! وہ مجھے جانتا ہے؟؟‘‘ سیف اﷲ نے حیران ہوکر پوچھا…
’’وہ تمہیں مجھ سے بھی زیادہ تمہاری ممّا سے بھی زیادہ بلکہ تم کو تم سے بھی زیادہ جانتا ہے اور وہ کبھی کچھ بھولتا بھی نہیں ہے…‘‘ دادا نے جواب دیا…
’’میں سمجھ گیا دادا! آپ اﷲ تعالیٰ کی بات کر رہے ہیں نا!! مگر اسکے تو اتنے سارے بندے ہیں،وہ مجھے کب یاد کرتا ہوگا؟؟میں اکثر سوچتا ہوں دادا‘‘ سیف اللہ نے دادا سے سوال کیا…
’’بتاؤں وہ ہمیں کب یاد کرتا ہے ، کب اس کو بہت پیار آتا ہے ، وہ کہتا ہے تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا سوچو تمہیں کون یاد کرے گا جو سب چیزوں کا پوری دنیا کا مالک ہے، وہ تم کو یاد کرے گا ،مگر پہلے تمہیں اسکو یاد کرنا ہوگا.. بہت پیار سے اس کا کہنا مان کے اس کی کتاب سیکھ کےصرف اس کو خوش کرنے کے لیے دوسروں کی مدد کرکے تم اس کو یاد کروگے وہ تمہیں یاد کرے گا سمجھ آگئی۔ چلو اب اسکی نعمتوں بارے میں سوچوں کتنی ساری نعمتیں ایسی ہیں جو تمہارے پاس ہیں اور اسکول والے بچوں کے پاس نہیں تھیں اس کو یاد کروں۔
اس کا شکر کرو اس سے دعا کروکل تم مجھے اﷲ کی نعمتوں کی لسٹ بناکر دو گے۔زیادہ نہیںروزانہ پندرہ نعمتیںتم بہت بڑے بھی ہو جاؤ گے نا ﷲ کی نعمتیں پھر بھی ختم نہیں ہونگی سمجھ گئے؟دادا نے سیف اللہ کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا…
’’جی دادا! سمجھ گیا،میں جا رہا ہوں، جزاک اﷲ خیر دادا سلامت رہیں ، ﷲ حافظ کل ملیں گے السلامُ علیکم دادا”
’’وعلیکم السلام بیٹا خوش رہوں سلامت رہو‘‘
اور سیف اللہ ایک نئی سوچ کے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا.اس کو نعمتوں کی لسٹ بھی تو بنانی تھی نا…