یہ عذاب نہیں تو اور کیا ہے؟
ایک طرف کورونا سے بے بس لاچار عوام ، لاک ڈاؤن کے ہاتھوں پریشان نوکری پیشہ اور کاروباری حضرات سمیت لاکھوں بیروزگاروں کا طوفان ۔
ہیٹ وویو کے مصیبت جھیلتے اور کے الیکٹرک کے مظالم سہتے ہوئے کراچی کے عوام ، تو دوسری جانب لاکھوں ایکڑ زرعی زمین پر تیار فصلیں ٹڈی دل کا شکار ہوچکی ہیں، بیس منٹ کے اندر سینکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصل بھوسہ بنتی چلی گئی ، یہ عذاب کیا کم تھے کہ اسی صورتحال میں کراچی کے شہری پانی کی عدم دستیابی کے بحران کا عذاب جھیل رہے ہیں ۔
ایک قیامت خیزی سے نکلتے نہیں ہیں کہ دوسری بلا ہماری منتظر دکھائی دیتی ہے ۔ ان حالات میں جہاں اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کی ضرورت ہے وہیں اپنے حکمرانوں کی نا ا ہلیوں ،کوتاہ نظری اور بد عنوانیوں کا جائزہ لینے کی بھی اشد ضرورت ہے ۔پاکستان کے پانی بحران پر خطرے کی گھنٹیاں تو عرصہ دراز سے بجائی جارہی تھیں ، مگر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکا م بالا خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے ۔ اب پانی کا بحران ایک بہت بڑے انسانی المیے کی صورت میں بھیانک انداز میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔ہمیں جس پانی بحران کا سامنا ہے اسے نظر انداز کرنا ناممکن ہے، چاہے وہ پھر شہروں میں پینے کے پانی کی قلت کی صورت میں ہو یا زراعت میں کم پیداوار، کئی علاقوں میں آبی وسائل کے زہر آلود ہونے کی یا کسی خطرناک شکل میں ہو۔
اگرچہ کئی سال پہلے سے اس جانب توجہ دلانے کی کوششیں مسلسل جاری تھیں ، ورلڈ بینک سے لیکر غیر سرکاری این جی اوز اور آبی وسائل کے ماہرین اس جانب نشان دہی کرتے رہے ، مگر بے سود ! مجال ہے کہ حکومت سندھ یا مرکزی حکومتوں کے کانوں پر جوں تک رینگی ہو ۔
بارش کے پانی کو ہر سال سمندر میں بہنے چھوڑ کر ہم اپنے آپ کو دنیا کی عقل مند ترین قوم ثابت کرنے میں لگے رہے ، ہمارے مقابلے پر انڈیا ہمارے دریاؤں پر ڈیم پر ڈیم تعمیر کرتا رہا ، سندھ طاس معاہدے کے نام پر ورلڈ بینک کے جھانسے میں آکر ہم نے ایوب خان کے دور میں اپنے دو دریا بھارت کے حوالے کئے اور خیر سگالی میں ورلڈ بینک نے ایک لنک کینال ہمیں نکا ل کر دے دی ، ہم اسی پر بہت خوش تھے ، اب ہمارے پاس رہ گئے تین بڑے دریا، جن کے کے قدرتی سوتے خشک ہوتے چلے گئے اور ہمارے حکمران انٹرنیشنل عدالتوں میں بھارت کا پیچھا کرنے کی پلاننگ ہی کرنے میں سوچ بچار میں وقت برباد کرتے رہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی عدالت نے بھی بھارت کے موقف کو درست ما ن کر پاکستان کا مقدمہ خارج از دفتر کرنا زیادہ مناسب سمجھا ۔ ہم نے جب بھی ڈیم بنانے کی بات کی قوم پرست اور لسانی جماعتوں کو انڈیا نے بھا ری فنڈ نگز کے زور پر مخا لفت پر آمادہ کیا۔
بار بار کی ٹھوکروں کے بعد بالآخر الله اللہ کرکے کسی طور پر ہمارے حکمران ضروری اقدامات کرنے پر راضی ہوئےاور مجوزہ حل کے طور پر ایک بار پھر بہتر بنیادی ڈھانچے، ڈیموں، ندیوں، نہروں، آبی پلانٹس وغیرہ کی بات کی گئی۔ ہم نے دیکھا کہ ایک خاص وقت پر ڈیم اور بالخصوص کالا باغ ڈیم کے حوالے سے راتوں رات پرجوش بحث و مباحثے شروع ہوگئے۔ چاروں صوبوں کا ایک رائے پر متفق ہونا بھی قومی مفاد میں ضروری ہوتا ہے چنانچہ کچھ مشکلات اور لیں دن کے بعد رویوں میں تبدیلی، پانی کے استعمال میں کمی، مقامی سطحوں پر حل تلاش کرنے اور از سر نو تقسیم جیسے معاملات پر بھی اتفاق رائے پیدا ہوا ۔ لیکن انتہائی افسوس کا مقام یہ تھا کہ پانی اور ماحولیاتی ماہرین میں سے کسی نے بھی اس پانی بحران کے مسئلے کو آبادی کے تناظر میں نہیں دیکھا، کیونکہ اگر ہم کو یہ جاننا ہے کہ ہمارے پاس فی کس کے حساب سے کتنا پانی دستیاب ہے اس کے لیے آبادی کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔
الٹا یہ ہوا کہ حالیہ مردم شماری میں کراچی جیسے میگا سٹی کی آبادی کو آدھی سے بھی کم کرکے دکھایا گیا ۔ تاکہ پانی کی تقسیم میں ڈنڈی ما ری جاسکے ۔اس ضمن میں پاپولیشن کونسل پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر کی رپورٹ انتہائی اہم ہے ، انہوں نے نے بتایا کہ ‘پانی کے بحران کی شدت کو سمجھنے کا سب سے آسان اور سب سے سیدھا طریقہ یہ ہے کہ پانی کی دستیاب مقدار کو آبادی پر تقسیم کر کے جائزہ لیں۔ فی کس آمدن کی طرح ہم پانی میں اضافے کی تو توقع نہیں کرسکتے، البتہ ذخیرے کے نظاموں کے طریقوں میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ بلکہ حالیہ بارشوں کے اوقات میں تبدیلی، اور دریائے سندھ کے بالائی حصوں پر ہندوستان میں ڈیموں کی تعمیر سے دستیاب پانی میں مزید قلت واقع ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں کل آبادی میں دگنا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ دیگر ملکوں میں شرح پیدائش کو اس حد تک رکھا جاتا کہ جس سے کل آبادی کے اعداد کا توازن برقرار رہے۔
رپورٹ کے 1981مطابق تک بھی ہمارے پاس پانی وافر مقدار میں، یعنی فی کس 2123 مکعب میٹر موجود تھا۔ 1998 کی مردم شماری تک ہماری آبادی 13 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ چکی تھی جبکہ شرحِ اضافہ 2.6 فیصد تھی۔ پانی کی دستیابی اب تناؤ کا شکار ہوتے ہوئے 1351 مکعب میٹر تک پہنچ گئی تھی۔
2017 میں نئی مردم شماری نے اشارہ دیا کہ وہ تباہ کن پیشگوئی سچ ثابت ہوئی ہے: ہم پانی کی کمی کا شکار ہیں اور ہمارے پاس فی بندہ صرف 861 مکعب میٹر پانی دستیاب ہے۔جب 2017 کی مردم شماری کے ابتدائی اعداد و شمار سامنے آئے تھے تو پریشان کن خبر یہ تھی کہ ہماری تعداد 20 کروڑ 70 لاکھ تھی، یعنی اس سے کئی ملین زیادہ جس کا اندازہ 2010 میں شرحِ پیدائش میں کمی کے محتاط اندازوں کے ذریعے لگایا گیا تھا۔ آبادی میں اس پریشان کن اضافے کو سیاستدانوں، میڈیا اور منصوبہ سازوں نے اتنی آسانی سے ہضم کر لیا جیسے کہ اس کا ملک کے حال اور مستقبل کی ترقی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سیاستدانوں اور میڈیا کی توجہ فوراً ہی نشستوں کی تعداد، محصولات کے شیئرز، اور صوبوں کو حاصل فوائد کی جانب مڑ گئی۔ اس بات پر بمشکل ہی کوئی تشویش تھی کہ تعلیم، صحت، گھر، اور پانی کی فراہمی کے ساتھ 20 کروڑ 70 لاکھ کے اس شماریے کا کیا تعلق ہے۔
سکڑتے ہوئے آبی وسائل اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی کم ہوتی جائے گی جس سے ہر چیز پر اثر پڑے گا، یہاں تک کہ عوام کی صحت پر بھی۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر شخص کو روزانہ کم از کم 7.5 لیٹر پانی چاہیے ہوتا ہے تاکہ صفائی اور صحت برقرار رکھی جا سکے۔ دوسری جانب ہر سال لاکھوں بے چاہے بچوں کی پیدائش روک کر شرحِ پیدائش میں کمی لائی جائے، تو پاکستان میں فی کس پانی کی فراہمی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
پانی سے متعلق 1980 کی دہائی میں بھی جب ہمارے پاس تیزی سے بڑھتی آبادی کے باوجود وافر مقدار میں پانی دستیاب تھا،اور اس دور کے بعد کراچی کی حد تک تو دیکھنے میں آیا کہ جماعت اسلامی کی بلدیاتی حکومت نے اس بارے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کیا اور کراچی کے مضافاتی علاقوں میں پانی پہنچانے کے لئے چھوٹے چھوٹے ریزرواٹرز کی صورت میں پانی کے ذخیرے کا ا ہتمام کیا ۔ عبدالستار افغانی صاحب کے دور میں حب سے ایک ڈیم بنا کر کراچی کے بہت بڑے علاقے اورنگی ٹاؤن تک پانی کی فراہمی ممکن بنائی ۔ اس کے بعد جناب نعمت اللہ خان صاحب مرحوم کا دور آیا جس میں پانی کے عظیم منصوبوں ۔ K۔1, K۔2, K۔3 پر کا م ہوا جس سے کراچی کو کلری ، دھابیجی سے فی کس آبادی کا تخمینہ لگاتے ہوئے انتہائی مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ۔ اس سنہری دور تک کراچی میں پانی کی قلت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔ لیکن بدقسمتی سے جماعت اسلامی کے بعد میں جو لسانی بنیادوں پر کراچی کا حلیہ بگاڑنے کا عمل شروع ہوا اس میں کراچی کو ایک قطرہ بھی اضافی پانی فراہم نہیں ہوسکا، نہ ہی پانی کے کسی بھی منصوبے کو ترجیح میں شامل ہی نہیں کیا گیا ۔ یہ جماعت اسلامی کی ہی مہربانی تھی کہ اس نے کراچی میں پانی کی فراہمی کو ہر گھرتک پہنچانے کے لی ۓ k۔4 منصوبہ شروع کیا ، بجٹ مختص کروایا ، منصوبہ بندی مکمل ہوگئی ۔ مگر آج تک اس منصوبے کا دس فیصد کام بھی مکمل نہیں ہوسکا ۔ اس کے نقشے اور پانی کے راستے میں تبدیلیاں کی گئیں ۔ ظاہر ہے یہ تبدیلی سیاسی بنیادوں اور با اثر افراد کے کہنے پر کی جاتی رہیں ، تاخیر کا نتیجہ یہ ہوا کہ منصوبے کی کل لاگت پہلے سے دو سو گنا زیادہ ہوگئی اور اس طرح کراچی کے عوام کو پیاسا مارنے کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا دیا گیا ۔
ان تمام تر مایوس کن حالات کے باوجود کراچی کو پانی پہنچانے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبوں پر آبی ماہرین اور پرائیوٹ ادارے اپنی سی کوشش کرتے رہے ، ورلڈ بینک سے قرضہ منظور ہوا مگر جب امپلمنٹشن کی بات آئی تو سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کے حکام نے اتنی بڑی رشوت طلب کی کہ غیر ملکی فنانسرز نے منصوبہ لپٹنے میں ہی عافیت جانی ۔
ایک طرف کراچی والوں کے لئے پانی کا حصول دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے، دوسری جانب پانی مافیا خاموشی کے ساتھ حکومت کی جگہ لیتا جا رہا ہے۔ کم و بیش تین کروڑ پر مشتمل پاکستان کے گنجان آباد شہر کو پانی کی بڑی مقدار درکار ہے۔ دس ہزار فیکٹریوں کا صنعتی مرکز، شہرِ کراچی ملک کی پچانوے فیصد برامدات بھی سنبھالتا ہے۔ اس درجہ بڑی طلب کا مطلب شہر میں پانی کا شدید بحران ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اب آجائیں ٹینکر مافیا پر کہ یہ کس کی سرپرستی میں پانی فراہم کرتے ہیں ؟ بات یہ ہے کہ جب بلدیاتی حکومتوں میں پانی کی ابتدائی قلت پیدا ہونی شروع ہوئی اور پانی کی لائینوں میں ٹوٹ پھوٹ کے سبب گھروں میں پانی پہنچانا مشکل ہوگیا تو واٹر بورڈ نے اس کا متبادل یہ نکالا کہ ان کے اپنے ذخیروں سے پانی کے ٹینکرز مفت فراہم کیے جائیں گے ۔ اس طرح یہ سلسلہ چل نکلا ، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ متا ثرہ لائینیں ٹھیک کروائی جاتیں یا پھر نئی لائینیں ڈالی جاتیں ، مگر شاید فنڈز کی کمی کے پیش نظر اس جانب کام ہی شروع نہ ہوسکا ، اور واٹر بورڈ کے پانی کے ذخائر ٹینکر مافیا کے ہاتھ لگ گئے جس میں واٹر بورڈ پوری طرح ملوث ہے ۔ اور اب یہی ٹینکر مافیا پورے کراچی میں اپنی من ما نی قیمت پر پانی فراہم کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ ‘چور چوری سے جائے ہرا پھیری سے نہیں جاتا ‘ کے مصدا ق واٹر بورڈ میں سیاسی بنیادوں پر سندھ حکومت اپنے نے نان ٹیکنیکل ڈائریکٹرز کے ذریعے پانی کی سونے کی چڑیا کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔
ایک طرف پانی نہیں ہے تو اگر کہیں سے یہ مل بھی جائے تو اس کی کوالٹی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ ؟ گدلا ،بدبو دار پانی عوام کے حصے میں آرہا ہے ، پانی کی کمی تو ہے ہی اس کے ساتھ پانی کی کوالٹی کا بھی مسئلہ ہے۔ کلورونایزشن کے بغیر ہی پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق کراچی کی ساٹھ فیصد آبادی کو بھی پانی فراہم نہیں ہو پا رہا ۔
اور چالیس فیصد کو جو پانی مل رہا ہے وہ واٹر ٹینکرز کی مدد سے بھاری قیمت کے عوض ۔ واٹر بورڈ کے حکام اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے کہتے ہیں کہ پانی کی کمی کا بڑا سبب لیکیج ہے۔ لیکیج کی وجہ سے سسٹم میں موجود تقریباً پچیس فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے، مگر یہ ایک بہانہ ہے اسی لیکیج سے واٹر بورڈ نے پرائویٹ ذخیرے بنائے ہیں جن سے زرعی فارم ہا وسز اور بااثر افراد کی زمینوں تک پانی پہنچایا جاتا ہے ۔اصل بات تو یہ ہے کہ شہر کا زیر زمین پائپ لائن نظام فرسودہ ہوچکا ہے، پچھلے پچیس سالوں میں پانی کی کوئی پائپ لائن نہیں ڈالی گئی جبکہ شہر کی آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔
واٹر بورڈ کے پانی کے ذخائر کچھ قانونی ہیں مگر دیکھا گیا ہے کہ بہت سے غیرقانونی ہائیڈرنٹس بھی موجود ہیں جو غیر قانونی ٹینکرز کو پانی فراہم کرکے اپنے حصہ وصول کرتے ہیں ۔
المیہ یہ ہے کہ یہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس، مرکزی سپلائی سے پانی نکالتے ہیں۔ تقریباً پندرہ ملین گیلن پانی سسٹم سے روزانہ چرایا جاتا ہے۔ پھر یہ چوری شدہ پانی ٹینکرز کے ذریعہ علاقوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ٹینکرز کے ذریعہ پانی کے غیر سرکاری اور بے ضابطہ سپلائر بن بیٹھے ہیں۔ اور صرف پانی کے ٹھیکیدار ہی نہیں بلکہ ان سفید پوشوں میں سے کچھ قومی و صوبائی اسمبلی تک جا پہنچے ہیں ۔