سورہ رعد آیت نمبر 17 میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ہماری روزمرہ زندگی کی دو مثالوں سے سمجھایا ہے کہ انسانوں کو فائدہ پہنچانے والی چیز کیا ہے اور کیا چیز جھاگ کی طرح بیٹھ جانے والی ہے:
’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا، پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اُڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔‘‘
اگر ہم رمضان کو رحمت، مغفرت اور نورِ ہدایت کی برسات کا مہینہ کہتے ہیں تو اس برسات سے فیض یاب ہونے والوں کو بھی ندی، نالوں اور دریائوں کی طرح ہوجانا چاہیے جو لوگوں کی پیاس بجھاتے ہیں، بھوک مٹاتے ہیں اور انھیں پاک و صاف کرتے ہیں۔ اور اگر ہم رمضان کو اہلِ ایمان کے لیے آزمائش کی بھٹی کہتے ہیں تو اس سے گزرنے والوں کو انسانی معاشروں کو زیب و زینت دینے والے جھومر اور تاج بننا چاہیے۔
دعوت دینے والوں کی سیرت وکردار کیا ہونا چاہیے
خدا کی راہ میں کام کرنے والوں کو عالی ظرف اور فراخ حوصلہ ہونا چاہیے۔ ہمدرد و خلائق اور خیر خواہِ انسانیت ہونا چاہیے۔ متواضع اور منکسرالمزاج ہونا چاہیے۔ شیریں کلام اور نرم خو ہونا چاہیے۔ وہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جن سے کسی کو شر کا اندیشہ نہ ہو، اور ہر ایک اُن سے خیر ہی کا متوقع ہو۔ جو اتنا بڑا دل رکھتے ہوں کہ لوگوں کی کمزوریوں سے چشم پوشی کرسکیں، قصوروں کو معاف کرسکیں، زیادتیوں سے درگزر کرسکیں اور اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیں، جو خدمت لے کر نہیں خدمت کرکے خوش ہوتے ہوں۔ جو طاقت سے دبائے نہ جاسکیں، دولت سے خریدے نہ جاسکیں، مگر حق اور راستی کے آگے بلا تامل سر جھکادیں۔ جن کے دشمن بھی ان پر بھروسا رکھتے ہوں کہ کسی حال میں ان سے شرافت ودیانت اور انصاف کے خلاف کوئی حرکت سرزد نہیں ہوسکتی۔
یہ دل موہ لینے والے اوصاف ہیں۔ کسی فرد کو یہ اخلاق میسر ہوں تو وہ اپنے گرد و پیش کی آبادی کو مسخر کرلیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی جماعت ان اوصاف کی حامل اور ان سے متصف ہوجائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ رمضان میں جوش اور جذبے سے کیے جانے والے اعمال جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں اور عام انسان اس کے فیض سے محروم رہ جائیں۔
رمضان کا مہینہ آیا اور ہمیں بدل کے رکھ دیا۔
٭کھانے پینے، سونے جاگنے کے اوقات بدل گئے، گفتگو کے موضوعات بدل گئے، باہمی تعلقات میں نصیحت و خیرخواہی اور محبت و غم گساری بڑھ گئی۔ آپ خود اپنے محتسب اور نگراں بن گئے، تنہائی میسر ہو اور سہولیات میسر ہوں تب بھی اپنے آپ کو روکے رہے، کیوں؟ اس لیے کہ آپ نے تبدیلی (Change) کو قبول کرلیا ہے۔ کیا آپ اسے برقرار رکھنے کے لیے تیار ہیں؟
روزے نے ہمیں صبر سکھایا ہے!۔
٭ صبر: نیکی اور بھلائی کے کاموں پر جم جانا… صبر: بدی اور گناہوں سے بچنا۔ صبر: ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنا… صبر: برائی کے بدلے اچھائی کرنا… اور طاقت کے باوجود انتقام نہ لینے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔
روزے نے ہمیں ہمدردی اور غمگساری کی تعلیم دی ہے۔ روزے میں بھوک کی تکلیف کا احساس ہوا۔ کیا آپ دنیا سے بھوک ختم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ روزے میں پیاس کی شدت محسوس کی۔ کیا آپ دنیا کو پینے کا صاف پانی پہنچانے کے لیے تیار ہیں؟ ایفائے عہد سکھایا ہے! یعنی جو وعدہ (Commitment) صبح کیا ہے کہ میں کل کا روزہ رکھوں گا۔ وبصوم غد نویت من شھر رمضان۔ اسے آخر تک پورا کرنا۔ یہ نہیں کہ 11 بجے تک روزہ گزار کر ایک گھونٹ پانی پی لیا اور پھر تین بجے ایک سینڈوچ کھالیا، اور پھر ایک گلاس جوس پی لیا کہ باقی سب تو وعدے کے مطابق کررہا ہوں، تھوڑا بہت تو چلتا ہے۔ یہ چیز ہمارے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ ہم کسی منصوبے (Project) کو، کسی کام (Task) کو، اپنی پوری ملازمت(Job) کو اس وعدے کے مطابق کریں جو ہم نے اسے قبول کرتے وقت کیا تھا۔ یہی دیانت داری ہے کہ آدمی وہ سب کچھ کرے… جو اس نے کہا تھا کہ میں کروں گا۔ جب کہا تھا کہ میں کروں گا یعنی Project/ Task/ Job شروع کرتے وقت، تو اسے پورا کرے۔ عام طور پر کاروبار میں کوئی سودا طے کرتے ہوئے، ملازمت میں ملازمت لیتے ہوئے، یا ملازمت دیتے ہوئے ایسے وعدے کیے جاتے ہیں جنہیں پورا کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہوتا اور ملازمت مانگنے والا ایسے علم و ہنر کا وعدہ کرتا ہے جو اُسے آتا نہیں، یا جس کی اُس میں مطلوبہ مہارت موجود نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وعدہ خلافی کی وجہ سے آجر اور اجیر کے تعلقات کبھی اچھے ہو ہی نہیں پاتے… نہ ہی ملازم پوری آمادگی کے ساتھ کام کرتا ہے اور نہ ہی مالک اپنے ملازم پر بھروسا کرتا ہے۔ یہ صورتِ حال کاروبار اور اداروں کی مطلوبہ رفتار سے ترقی میں نہ صرف رکاوٹ، بلکہ تباہی کا سبب بنتی ہے۔ عام طور پر ہمارے ملک کے بارے میں ملک سے باہر یہ تاثر ہے کہ پاکستانی سیمپل میں جو دکھاتے ہیں وہ سپلائی نہیں کرتے۔ اس لیے پاکستان کا چاول دبئی جاتا ہے اور وہاں انڈیا کی اسٹیمپ لگاکر آگے بھیجا جاتا ہے… 500 شیٹ کے رم میں 480 شیٹ نکلتی ہیں… یہ چند مثالیں ہیں… اس طرزِعمل میں تبدیلی آنی چاہیے۔ روزے نے ہمارے اندر یہ صلاحیت پیدا کی ہے کہ ہم ہر کام کو اُس وعدے کے مطابق کریں جو ہم نے کیا ہے، اور اپنی پوری زندگی کو اس وعدے کے مطابق گزاریں جو ہم نے اللہ سے کیا ہے… یہی دیانت داری ہے۔
رمضان کے بعد
رمضان کے شب و روز کی عبادتوں سے ہم نے یہ طاقت حاصل کی ہے کہ:
سال بھر شیطان کے دھوکے اور اپنے نفس کی خواہشات کا مقابلہ کرنے میں ہمت اور حوصلے سے کام لے سکیں۔ جو کچھ اس رمضان میں کیا وہ پورے سال کریں، جو کچھ اپنایا اس کو ایک ڈھال کی طرح استعمال کریں۔
آیئے ارادہ کریں کہ ہم رمضان سے سیکھی ہوئی خوبیوں اور صلاحیتوں کو قائم رکھنے اور بڑھانے کی کوشش کریں گے، اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے، سننے اور اس کا علم و فہم حاصل کرنے کا اہتمام کریں گے۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی پوری کوشش کریںگے۔ ہر قسم کی نیکیوں کی جستجو کریں گے۔ اپنا دل پسند مال اقامتِ دین کی جدوجہد، غریبوں، مسکینوں، یتیموں کی مدد میں خرچ کریں گے۔
لوگوں کے لیے فائدہ مند بنیں
٭ ایک خصوصی کام کریں، دو فہرستیں بنائیں۔ ایک میں وہ باتیں لکھیں جو آپ پسند کرتے ہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ کریں۔ دوسری فہرست میں وہ باتیں لکھیں جو آپ پسند نہیں کرتے کہ لوگ آپ سے کریں۔ اور پھر اپنی پسندیدہ باتوں کو دوسروں کے ساتھ کرنے کی کوشش کریں، اور جو باتیں آپ ناپسند کرتے ہیں وہ دوسروں کے ساتھ نہ کریں۔
اپنا جائزہ لیں کہ آپ کتنے فائدہ مند بن گئے ہیں؟
جب آپ اپنی بنائی ہوئی فہرست کی اپنی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنے لگیں گے اور ناپسندیدہ باتوں کو چھوڑ دیں گے تو آپ سے کسی کو نقصان کا خوف نہ رہے گا، ہر ایک آپ سے اچھائی اور نیکی کی توقع رکھے گا۔ آپ اپنے حق سے کم پر راضی ہوجائیں گے اور دوسروں کو اُن کے حق سے زیادہ دینے کو تیار رہیں گے۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیں گے بلکہ اچھائی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اپنی غلطی کو مان لیا کریں گے اور دوسروں کی اچھائی کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ پھر آپ خدمت لے کر نہیں، خدمت کرکے خوش ہوں گے۔