’’رشید بھائی، خیریت سے ہیں…! عید مبارک۔ اور سنائیں عید کیسی گزری۔‘‘
’’عید کیسی گزری! یہ نہ ہی پوچھو تو اچھا ہے۔‘‘
’’کیا مطلب؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟‘‘
’’کوئی ایک مسئلہ ہو تو بتاؤں، یہاں تو مسائل کی پوری گٹھری ہے۔‘‘
’’رشید بھائی! وبائی امراض تو آتے جاتے رہتے ہیں، ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ مقابلہ کرنا پڑتا ہے، اپنے اعصابی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا، جس طرح دوسری بیماریوں کا علاج ہے، اِن شاء اللہ کورونا وائرس سے بھی جلد جان چھوٹ جائے گی۔‘‘
’’میں کسی ایک بیماری یا وبائی امراض کی بات نہیں کررہا، میں تو مسائل کا ذکر کررہا ہوں۔‘‘
’’اچھا اچھا، میں سمجھا کہ آپ کورونا وائرس کی وجہ سے پریشان ہیں۔‘‘
’’یہ پریشانی اپنی جگہ… میں تو حکمرانوں اور اداروں کی جانب سے دی جانے والی ٹینشن پر ماتم کررہا ہوں۔‘‘
’’ایسا کیا ہوگیا؟‘‘
’’کیا ہوگیا؟ یوں کہوں میاں کیا نہیں ہوا! عید سے تین روز قبل دی جانے والی اذیت میں اب تک مبتلا ہوں۔‘‘
’’عید گزرے ہوئے تین دن ہوگئے، اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک ہفتے سے ٹیشن میں ہیں!‘‘
’’ہاں، تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘
’’لیکن آپ نے یہ نہیں بتایا کہ بات کیا ہوئی؟‘‘
’’ہائے میاں، کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں! ہمارے علاقے میں سپلائی کیا جانے والا پانی عید سے تین روز قبل بند کردیا گیا، اور خیر سے اب تک بند ہے۔‘‘
’’یہ تو بہت زیادتی ہے، بلکہ انتہائی ظالمانہ فعل ہے۔ لیکن ایسا کیا ہوا؟ میرا مطلب ہے ایسی کیا خرابی ہوئی جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی بند کردی گئی؟جبکہ تہواروں پر پانی، بجلی جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کا تو خاص خیال رکھا جاتا ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں ایسا نہیں ہے، عید ہو یا کوئی دوسرا تہوار… ہمارے علاقے لانڈھی، خاص طور پر سیکٹر 36/B میں ہمیشہ یہی صورت حال رہتی ہے۔ کبھی لوڈشیڈنگ کا بہانہ بنا کر، کبھی دھابیجی پمپنگ اسٹیشن میں خرابی کے نام پر، کبھی لائنوں کی مرمت کا کہہ کر، تو کبھی پانی کی سپلائی میں کمی کی گردان سناکر اس علاقے کا پانی بند کردیا جاتا ہے۔ یہ سب پیسے کا چکر ہے۔ واٹر بورڈ کا عملہ اور افسران ہر تہوار پر اسی طرح کے دھندے کیا کرتے ہیں۔ ایکسین سے لے کر کلرک تک، اور سپروائزر سے لے کر والو مین تک سب مال کمانے میں مصروف ہیں۔ اب تو یہ کرپشن اس قدر بڑھ چکی ہے کہ نہ صرف ہمارا علاقے بلکہ پورے شہر کا یہی حال ہے۔ ہاں کہیں کمی بھی ہوسکتی ہے، لیکن ہمارے یہاں تو واٹر بورڈ کے عملے کی جانب سے کی جانے والی ان کارروائیوں میں مسلسل اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اب اِس مرتبہ کی جانے والی کارروائی کو ہی لے لو، میرا مطلب ہے ہمارے علاقے 36/B لانڈھی میں بند کی جانے والی پانی کی سپلائی پر واٹر بورڈ کی جانب سے دیے جانے والے مؤقف کو ہی دیکھ لو، بقول واٹر بورڈ والومین، اس علاقے کا پانی یہاں رہنے والوں کے لیے بطور سزا بند کیا گیا ہے، لہٰذا ہمارے ادارے سے منسلک کوئی بھی شخص کسی صورت میں اس سیکٹر کی سپلائی بحال نہیں کرے گا۔‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی؟ یہ کون سی منطق ہے؟ یہ تو ریاست کے اندر ریاست ہوئی!‘‘
’’ریاست کے اندر ریاست ہی تو ہے۔ یہاں ہر دوسرے محکمے کا یہی حال ہے۔ عوام کے نوکروں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اداروں کو اپنی اپنی ریاستیں بنا رکھا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سیاسی گھرانوں سے تعلقات رکھنے والے ان بااثر افسران کی وجہ سے ہم جیسے غریب عوام در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ کسی بھی ادارے میں چلے جاؤ اعلیٰ عہدوں پر فائز یہ لوگ بادشاہ بنے ہی دکھائی دیتے ہیں۔
اب وہ منطق بھی سن لو جس کو جواز بنا کر سیکٹر 36 بی لانڈھی کو پانی جیسی نعمت سے محروم کردیا گیا۔ عید سے تین روز قبل ہمارے علاقے کے ساتھ قائم سیکٹر کے ایریا ڈبل روڈ سے تعلق رکھنے والے چند نوجوانوں نے اپنے علاقے کی جانب جاتی لائن پر نصب والو کو کھلوانے کے لیے علاقے کے والومین اور پمپنگ اسٹیشن پر تعینات آپریٹرز اور دیگر عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے نتیجے میں عملے کے کچھ لوگ زخمی ہوئے۔ یہ سیدھا سیدھا بلوے کا کیس ہے، ان نوجوانوں کی جانب سے کیے جانے والے اس اقدام کی کوئی بھی شخص حمایت نہیں کرسکتا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ یہ پولیس کیس تھا ،اس تشدد پر قانون کو حرکت میں آنا چاہیے تھا، اور جن لوگوں نے بھی یہ زیادتی کی انہیں گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے تھی۔ بجائے اس کے کہ ان نوجوانوں کے خلاف واٹر بورڈ کی جانب سے کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی اور نتیجے کا انتظار کیا جاتا، صرف علاقہ تھانے میں شکایت درج کرواکر خود منصف بن کر ہمارے سیکٹر سمیت مختلف علاقوں کا پانی بند کردیا گیا۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ واٹر بورڈ کے عملے پر کیا جانے والا تشدد قابلِ مذمت ہے، لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ ایک علاقے کے نوجوان تشدد جیسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئے؟ کیوں انہیں اس انتہائی قدم کی جانب دھکیل دیا گیا۔ بات سیدھی سی ہے، جن کے گھر والے پانی کی بوند بوند کو ترسیں، ایسے لوگوں کی کیفیت جاننا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ ظاہر ہے جسے پانی جیسی نعمت میسر نہ ہو اُس سے خیر کی توقع کس طرح کی جائے! پانی زندگی ہے، لوگ رات رات بھر جاگ کر اپنی ضرورت کے لیے تھوڑا بہت پانی اسٹور کرلیتے ہیں، اور اگر وہ بھی میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں تنگ آمد بجنگ آمد کے فارمولے پر عمل کیا جاتا ہے۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ مستقبل میں مختلف ممالک کے درمیان ہونے والی جنگیں پانی کے حصول کے لیے ہی ہوں گی۔ خیر، بات کہاں سے کہاں نکل آئی، جس دن سے یہ ہنگامہ ہوا اسی روز سے ہمارے علاقے سے پانی دو پانی دو کی صدائیں بلند ہوتی سنائی دے رہی ہیں۔‘‘
’’اب تو خاصے دن گزر چکے ہیں، کیا اب کچھ بہتری ہے؟‘‘
’’میں نے پہلے بھی بتایا ہے، واٹر بورڈ کا عملہ مختلف بہانے بناکر آئے دن پانی کی سپلائی متاثر کرتا رہتا ہے، جبکہ جھگڑے کا مسئلہ تو قانونی طور پر حل کیا جاسکتا تھا، اسے جان بوجھ کر بڑھایا گیا۔ ہاں اتنے دن گزرنے کے بعد ہوا یہ ہے کہ صورتِ حال پہلے سے زیادہ خطرناک ہوچکی ہے۔ پہلے پانی بند تھا، اب گندے نالے کے بدبودار سیوریج زدہ پانی کی سپلائی جاری ہے، یعنی اب انتہائی زہریلا پانی سپلائی کرکے لوگوں کی زندگی چھیننے کی سازش کی جارہی ہے۔‘‘
’’یہ تو انتہائی دکھ بھری داستان ہے۔‘‘
’’نہ صرف دکھ بھری، بلکہ جیبیں خالی کرانے والی داستان بھی ہے۔ سنو، عید کے دن ہمارے گھر میں ایک بوند پانی بھی نہیں تھا، ہم رات بھر پانی کی تلاش میں گھومتے رہے اور ناکام رہے۔ عید کا دن ہو اور گھر میں پانی نہ ہو، اس سے بڑا اورکیا مسئلہ ہوسکتا ہے! بھائی صبح اٹھتے ہی ایک مرتبہ پھر پانی کی تلاش میں نکل پڑے۔ خیر سے تھوڑی دیر بعد ہی واپس آگئے، اِس مرتبہ خوشی کی خبر یہ تھی کہ وہ پانی کا بندوبست کرکے آئے تھے، یعنی چار ہزار روپے سکہ رائج الوقت ادا کرکے پانی کا ایک ٹینکر ساتھ لے کر آئے تھے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بلکہ ابھی پرسوں ایک ٹینکر اور ڈلوایا گیا ہے۔ اس طرح ایک ہفتے میں واٹر بورڈ سے جڑے ٹینکر مافیا نے ہماری جیب پر پانی کے نام پر 8 ہزار روپے کا ڈاکا ڈالا۔ ہمارا گھرانا متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے، ہم میں روزمرہ کے استعمال کے لیے پانی کا ایک ٹینکر ڈلوانے کی بھی طاقت نہیں۔ یہ دن تو گزر گئے، آنے والے دن کیسے گزریں گے یہی بات سوچ سوچ کر دل پریشان ہوتا ہے۔ واٹر بورڈ کی جانب سے کیے جانے والے اقدام نے دورِ یزید کی یاد تازہ کردی میں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یزید ایک ایسا کردار ہے جو کسی بھی وقت اور کہیں بھی کسی بھی علاقے میں کسی بھی شخص میں پایا جاسکتا ہے، یعنی یزید ہر دور میں موجود ہوتا ہے۔‘‘
………
کتنے افسوس کی بات ہے کہ دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کراچی کے باسیوں اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے درکار پانی کی طلب بڑھ رہی ہے، جب کہ دستیاب پانی کی مقدار میں ہر آنے والے دن کے ساتھ کمی آرہی ہے۔ کراچی میں پانی کی قلت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کے تقریباً ہر دوسرے شخص کو اس کی ضرورت کا پانی نہیں مل پارہا۔ ایک طرف اگر روزمرہ استعمال کے پانی کی قلت ہے تو دوسری جانب پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی۔ گزشتہ دو دہائیوں سے شہر کی آبادی تیزی سے بڑھتی رہی لیکن کسی نے بھی یہاں کی ضروریات کے مطابق پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا، اور نہ ہی کوئی منصوبہ مکمل کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑھتی ہوئی اس قلت کے باعث پانی کی فروخت کا کاروبار بڑھنے لگا جس کے باعث آج یہ صورتِ حال ہے کہ شہری پانی کے حصول کے لیے اپنا سکون، وقت اور پیسہ تینوں ہی صرف کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 19 برسوں سے شہر کی آبادی میں سالانہ اوسطاً 2.4فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود شہر میں پانی کی فراہمی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، جس کے باعث اب صورتِ حال یہاں تک خراب ہوچکی ہے کہ شہر کو اپنی ضرورت سے 56 فیصد پانی کم فراہم کیا جارہا ہے۔