میری وال سے

468

افشاں نوید
پچھلے رمضان، سڈنی میں جب ہم فجر کے بعد واک کے لیے نکلتے تھے اور تقریبا ایک گھنٹہ بعد واپس آتے تھے تو بیشتر دکانیں کھل چکی ہوتی تھی، کہیں صفائی ہورہی ہوتی تھی، کہیں سیٹنگ،گاہگ دکانوں پر موجود ہوتے تھے۔
دل خوش ہوتا تھا کہ یہ لوگ صبح کا کتنا صحیح استعمال کرتے ہیں۔ ہمارا دین اور شریعت تو صبح کی بہت اہمیت بتاتی ہے۔
فجر کے بعد سونا ہماری شریعت میں ناپسندیدہ تھا۔اب تو ہندو دانشور “فائیو اے ایم کلب”۔۔کتاب لکھ کر ساری دنیا کو وقت فجر کے خزانوں سے آگاہ کررہے ہیں۔اس پر سوچ رہے ہیں، لکھ رہے ہیں اور ڈسکس کر رہے ہیں۔
اسی طرح شام کے اوقات میں مغرب سے قبل وہاں دکانیں بند ہوجاتی ہیں ہم کسی شاپنگ مال میں ہوتے اور وہاں رش بھی ہوتا تھا لیکن لوگ اپنے شٹر پانچ وقت پر ہی گرا دیتے تھے،اگر وہاں مغرب آٹھ بجے ہوتی ہے لیکن دکان 6 بجے سے پہلے بند ہوجاتی ہیں۔
ساری سڑکوں پر آن کی آن میں سناٹا ہوجاتا ہے۔یعنی سورج غروب ہونے کا مطلب ان کا دن اور کاروبار ختم۔۔۔
دل میں ایک ہوک سی اٹھتی تھی کہ مسلمان تو ہم ہیں مگر ہمارے طور طریقے غیر مسلموں نے اپنا لیے ہیں اور ہماری شریعت کی برکت انکے نصیب میں آرہی ہے۔ہم کیوں محروم ہیں اور یہ کیوں نوازے جارہے ہیں کھلی آنکھوں سے دیکھ کر سمجھ آتا تھا۔۔
ان حکومتی احکامات سے دل بہت ٹھنڈا ہواکہ دکانیں صبح آٹھ بجے کھلیں گی اور شام پانچ بجے بند ہونگی۔
ہم نے اپنی شرعی تعلیمات سے بےنیازی برت کر خسارے کا سودا کیا۔
پوسٹ کووڈ دنیا فطرت کی طرف پلٹے گی ان شاءاللہ
ہمیں بھی خود کو تبدیلی کے لیے تیار کرنا ہوگا۔
پچھلے برس کا کالم۔۔۔
اب خواب کو تعبیر ملی۔
واللہ الحمد
(سورج کے ساتھ ساتھ۔)
کل مغرب سے کچھ قبل نکلے تھے گھر سے ۔کئی گھنٹے سڈنی کی سڑکوں پر رہے۔آنکھوں پر یقین نہ آیا۔۔۔ساری دکانیں بند۔صرف فیولنگ پمپ یا کیمسٹ اسی نوعیت کی اکادکا کوئی دکان کھلی نظر آئی۔۔
پتہ چلا یہاں شہر سورج کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔۔۔سورج نکلا کاروبار شروع۔زندگی جوبن پر۔
علی الصبح ٹرینوں کے باہر رش دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
یہاں ٹرین کا سفر مہنگا ہے مگر لوگوں کا پسندیدہ۔ایک تو پارکنگ کے چارجز یہاں بہت ہوتے ہیں دوسرے پارکنگ کی جگہ کا مسئلہ۔اس لیے زندگی کو بہت آسان کردیا ہے ٹرین نے۔اتنا منضبط اور شاندار ٹرینوں کا نظام ہے۔ہم یہی سوچ کر اداس ہوجاتے تھے کہ پاکستانی حکمران وزرا ،سفراء ان ترقی یافتہ ملکوں کے اتنے دورے کرتے ہیں تو یہاں سے کچھ سیکھتے کیوں نہیں ؟؟
دل خوش ہوتا ہے یہاں شہر صبح جاگ جاتا ہے۔سورج کےڈھلتے سمے جب پرندے پر سمیٹتے ہیں تو شہر بھی خامشی کی ردا اوڑھ لیتا ہے۔یہاں راتیں نہیں جاگتیں۔۔۔صبحیں سورج کے ساتھ بیدار ہوتی ہیں۔۔۔
آپ تصور کریں ایک بزنس مین آدھے دن کے بعد کاروبار شروع کرتا ہے اور کاروباری مشقت اٹھاکر نصف شب کے بعد گھر پہنچتا ہے۔
ایک دوسرا کاروباری آدمی علی الصبح کاروبار شروع کرتا ہے اور سورج ڈھلنے سے قبل گھر پہنچ جاتا ہے۔
ان دونوں افراد کی خانگی زندگیوں،گھر کے معمولات،صحت کے احوال،اہل خانہ سے مراسم۔سب ہی کچھ کتنا مختلف ہوگا۔۔۔
شریعت نے کہ دیا تھا کہ صبح میں برکت ہے۔اغیار وہ برکت سمیٹ رہے ہیں۔ہم ظہر کی اذانوں پر لاالہ الااللہ پڑھ کر بستر سے برآمد ہوتے ہیں۔
دکان پر آیت الکرسی کو بھی تعویذ کی طرح لٹکایا ہوا ہے۔اور دکان کی پیشانی پر۔۔ھذا من فضل ربی۔۔۔بھی کندہ کیا ہوا ہے۔۔۔مگر فضل کوئی اور سمیٹ رہا ہے ہماری شریعت اور ضابطوں پر عمل کرکے۔۔۔برکت جس عمل سے مشروط ہے وہ تو کرنے پر تیار نہیں ۔
کاش اپنی شرہعت پر عمل کرکے ہم اس کی برکتیں سمیٹتے۔
انک عفو کریم۔تحب العفو فاعف عنی
سو دانوں کی تسبیح مکمل کرکے ایک طرف رکھی کہ ابھی تو ہزار بار یہ وظیفہ مکمل کرنا ہے طاق رات میں ۔
دل نے سوال کیا کہ معافی کس چیز کی؟؟
کیا وہ گناہ میری نظر میں ہیں جن کی معافی میں”ہزار بار” مانگ رہی ہوں؟؟
مجھ سے کب کس کو،کیا تکلیف پہنچی کیا میں واقعی اس سے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں؟
اللہ کیوں معاف کرے گا جبکہ قرض اس کے بندوں کے ہیں گردن پر۔
کیا اس کی گنجائش ہے اسلام میں کہ کسی سے قرض لے کر میں اس کو واپس لوٹانے کے بجائے صدقہ کردوں کہ میں نے تمہارے درجات بڑھا دئے اللہ نام پر دے کر۔
اس کا مطلب ہے بندگان خدا کے جو حقوق ہیں گردن پر ارادہ کرلیں کہ معافی وہیں سے ملے گی۔رجوع وہیں کرنا ہوگا۔
اللہ تو اپنے حقوق معاف کردیگا جیسے چاہے گا۔
شریعت کی تعلیمات یہی بتاتی ہیں کہ مقروض کی نماز جنازہ سے قبل آپﷺ اسکے لواحقین کو قرض اتارنے کی ہدایت فرماتے۔
اجتماعی طور پر ہمارا جو جرم ہے رمضان کی رخصت ہوتی گھڑیوں میں اس کا بھی کچھ “ادراک”لازم ہے۔
ہم نے عبادات کو زندگی کا مقصد سمجھ لیا جبکہ یہ عبادات، یہ روزے، نماز،حج تو محض فیولنگ اسٹیشن ہیں منزل نہیں ہے۔ہماری منزل تو دین کا قیام ہے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
اسلامی حکومت کا قیام اور اس کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں لگانا۔مدینہ کی ریاست میں اولین جدوجہد اسلام کو ریاست کا دین بنانے کی تھی۔اس کے لیے آئے دن کے غزوات اور سرایہ کہ امت کودرس دینا مقصود تھا کہ دین انفرادی سے آگے اجتماعی بھی تم ہی نے قائم کرناہے۔
فقہاء یہاں تک کہتے ہیں کہ نظام باطلہ کے تحت آپ نے چین کی زندگی گزاری،اپنی معاش،اپنی بہبود،ساتھ عبادت کا تڑکہ۔۔تو آپ نفاق کی ایک حالت پر دنیا سے رخصت ہوئے۔
اگر نظام باطل میں مجبوری کے تحت رھنا پڑے تو آپ کی کیفیت ایسی ہو جیسے ایک نفیس طبع آدمی کو بدبو کے ڈھیر کے پاس چھوڑ دیا جائے۔
ہم حکومت نہیں بدل سکتے۔آئین میں تبدیلی نہیں لاسکتے میڈیا کی پالیسی ٹھیک نہیں کرسکتے۔۔لیکن جو کچھ کرسکتے ہیں کیا وہ کیا؟
اس نظام میں رھتے ہوئے ہم حجت کس طرح تمام کرسکتے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم واویلا تو کرتے ہیں کہ ہمارے ٹیکس سے سودی قرضے اتارے جاتے ہیں، ہماری اگلی کئی نسلیں ان قرضوں کے ہاتھوں گروی رکھی جاچکی ہیں۔
لیکن جب نمائندے منتخب کرنے کاوقت ہو تو۔۔۔
کون خوار ہو لائنوں میں لگ کر۔
ہمارے ایک ووٹ نہ دینے سے کیا ہوگا؟؟
یہاں اسٹیبلشمنٹ کا ہما ہی سر پر بیٹھنا ہے ہمارے ووٹ سے کیا بدلے گا وغیرہ ۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارا معاملہ جس ذات کے ساتھ ہے وہ لطیف” خبیر ہے۔
ہم تو اپنے بچوں کو ڈگری اسی دلاتے ہیں کہ انہیں اچھی سے اچھی ملازمت مل جائے۔گویا ہم اس نظام کے نوکری چاکری کرتے دنیا سے رخصت ہوجائیں۔زندگی کا بہترین وقت اور توانائیاں ہم معاش کی نذر کرکے اقامت دین کے لیے مہدی موعود کے منتظر بیٹھے رہیں۔
کیا 73ءکا اسلامی آئین اس بات کا پروانہ دے گیا کہ ہم عملی جدوجہد سے کنارہ کش ہوکر مصلے پر بیٹھ جائیں۔
یہ نظام باطل پھلتا پھولتا رہے ہم پہ اربوں ڈالر کے مزید سودی قرضے چڑھتے رہیں۔حکمران اپنی تجوریاں بھر بھر رخصت ہوتے رہیں۔ریاست میں کوئی قانون اسلامی نہ ہو۔
ہم اپنی نسل کی مادی خوش حالی، اپنی معیشت سے آگے ہی نہ سوچیں!!!۔
ماضی کی سلطنت عثمانیہ کی بیداری۔۔۔کچھ تو سبق ہے اس روشن ماضی میں۔۔کیا اس جدوجہد کی ضرورت اس معاشرے میں ہے۔اقامت دین کا فریضہ ہر دور کے لیے ہے۔
تھے تو وہ آباء تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو۔۔۔
ادراک کی راتیں۔۔۔قوت مدرکہ عطا کر مولا۔۔
رمضان المبارک بعد کے لمحات۔۔۔۔۔
ذکر، اذکار،نوافل،تلاوت ان کی اپنی ہی دنیا۔۔ خوبصورت دنیا ۔۔۔
رمضان کا حاصل اگر یہی ہے کہ ہم آئندہ زندگی میں کچھ مزید نوافل،کچھ تلاوتوظائف اپنے اوپر لازم کر لیں تو یہ بالکل ایسی بات ہے کہ ہمیں اصطبل میں گھوڑوں کی مالش کی ذمہ داری دی گئی۔ ہمیں یہ کام اچھا لگا،جی جان سے کیا۔
پھر حکم آیا کہ گھوڑے مالش ہوکر تندومند ہوگئے۔اب فوج تیار کیجیے،صفیں درست کیجیے۔سرحدوں پر دشمن للکار رہا ہے،گھوڑوں پر زینیں کس لینے کا وقت آن پہنچا۔ میدان جہاد،للکارتا دشمن،تلواریں، سنگینیں،نیزے،سوچ کر ہم حواس باختہ ہوگئے۔
کہا، ہمارا حصہ بس گھوڑوں کی مالش تک رکھ، میدان جہاد میں جانا اپنے بس کا کام نہیں ہے۔
جان رکھیے!رمضان کا اختتام جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف واپسی ہے۔رمضان ہمارے ایمان کی آبیاری کے لیے تھا۔
اب زندہ ایمان کے ساتھ ہم اللہ کی زمین پر فتنہ برداشت نہ کریں گے۔ہمارے اطراف مادہ پرستی اور الحاد سمیت درجنوں فتنے ہیں۔
اصحاب رسولﷺتو رمضان سے یہ زندہ ایمان پاکر بستیوں میں اللہ کی کبریائی بلند کرنے نکل کھڑے ہوتے تھے۔۔
ہم نے روزہ رکھ کر جو دعائیں مانگیں،جو وظائف پڑھے،وہ صرف ہماری ذاتی زندگی کی آفات و بلیات بھگانے کے لیے نہیں تھے بلکہ ہماری اجتماعی زندگی جن آفات کی زد میں ہے،ان کے تدارک کے لیے اپنے حصہ کے لائحہ عمل کی اللہ سے توفیق طلب کرتے ہیں۔
اقراء کے بعد کی پکار ہمیشہ قم فانذر ہی رھے گی۔ ۔
اللہ کی نظر میں بہترین وہ ہے جو اس کی خلق کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے اور اس کی خلق کو راشن اور اور مادی ضرورتوں کے ساتھ ھدایت کی بھی ضرورت ہے۔
ہم ان کو نارِ جہنم سے بچانے کی فکر کریں اپنے قریب ترین لوگوں سے اس مہم کا آغاز کریں کہ رمضان سے ملی ہوئی توانائی ہم اللہ کی خلق میں تقسیم کریں گے۔
رمضان سے حاصل کی ہوئی باطنی روشنی سماج میں اجالا بنے گی ان شاءاللہ

حصہ