اعظم طارق کوہستانی
مولانا مودودیؒ بلاشبہ ایک مجدد ہیں، آپ آج ہی کے نہیں بلکہ آنے والے کل کے بھی امام ہیں، اُن کے انتقال کو چالیس برس گزر چکے ہیں لیکن اُس کے باوجود آپ ان کا لکھا ہوا پڑھیں تو بالکل تازہ مسائل پر بھی وہ باتیں اور آرا فٹ بیٹھتی ہیں جو کئی برس قبل اُنھوں نے بیان کیے تھے، موجودہ دور کے چند مسائل کو لیکر جب مولانا سے رجوع کیا تو مولانا کی کتابوں میں درج ذیل جوابات ملے ، یہاں ان سوالات اور مولانا کے جوابات دیے جارہے ہیں، اُمید ہے کہ اس سے نا صرف چند جدید مسائل کو سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ دماغی تطہیر کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔یاد رہے کہ جوابات مولانا مودودیؒ کی کتب سے اَخذ شدہ ہیں۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب مغربی تہذیب سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک کہ وہ ایک مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں بھی اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوجائے مگر ہماری تہذیب عورت کو ساری عزتیں اور تمام حقوق اسے عورت رکھ کر ہی دیتی ہے اور تمدن کی اِنہی ذمہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں عورتوں کی تعلیم کا انتظام ان کے فطری وظائف وضروریات کے مطابق اور مردوں سے بالکل الگ ہونا چاہیے۔ یہاں اوپر سے لے کرنیچے تک کسی سطح پر بھی مخلوط تعلیم کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔
جہاں تک عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں عملی تدابیر واصلا حات کا تعلق ہے توجو بھی اسی طرح سے شامل ہونی چاہییں جیسی کہ مردوں کی تعلیم میں، اس کے علاوہ عورتوں کو زراعتی فارم، کارخانے اور دفاتر چلانے کے بجاے گھر چلانے اور انسان سازی کی ہے۔ ہمارے نظام تعلیم کو ان کے اندرایک ایسی مسلمان قوم وجود میں لانے کی قابلیت پیدا کرنی چاہیے جو دنیا کے سامنے اس فطری نظام زندگی کا عملی مظاہرہ کر سکے جو خود خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔
٭…٭
اسلام میں عورتوں کی تعلیم کا تصور کیا ہے۔جدید تعلیمی نظام سے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر کے بارے میں جاننے کے لیے مولانا مودودیؒ کی معروف کتاب ’’تعلیمات‘‘ پڑھیے۔
حوالہ: ابوالا علیٰ، مودودی،سید، تعلیمات، باب ہشتم (اسلامی نظام ِتعلیم)، اسلامک پبلی کیشنز، لاہور، ص:152
٭…٭
کیا اس دور کا معاشی نظام سود کے بغیر ممکن نہیں؟
کیا اس دور کا معاشی نظام سود کے بغیر چل سکتا ہے؟
جواب: مسلمانوں کی بھی ایک کثیر تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ سود کے بغیر اب کاروبار زندگی کا تصور محال ہے۔ لیکن دوسری جانب اس نظام کی تباہ کاریوں نے لاکھوں لوگوں کو خودکشیوں پر مجبور کیا ہے اور وہ اس سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں پاتے ہیں لیکن اسلام سود کو بیخ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ اسلام ایسا کیوں چاہتا ہے؟اس حوالے سے مولانا مودودی اپنی کتاب ’’سود ‘‘میں لکھتے ہیں:
اگر کوئی مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ سود ایک ناگزیر شے ہے اور موجودہ زمانے میں اس کے بغیر کوئی کام ہی نہیں چل سکتا، تو اس کا یہ خیال بالکل باطل ہے۔ یہ خیال نہ صرف اصولاً غلط ہے بلکہ یہ اس خدا کے بارے میں سوء ظن ہے جس کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اس نے کسی ایسی چیز سے ہمیں نہیں روکا ہے جو انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہو اور جس کے بغیر دنیوی کاروبار چل ہی نہ سکتا ہو لیکن میں صرف اتنا ہی جواب دینے پر اکتفا نہیں کروں گا بلکہ یہ عرض کروں گا کہ خود موجودہ دور میں معاشی اُصول ونظریات بھی اس طرف جارہے ہیں کہ سود کی شرح کو کم سے کم حتیٰ کہ صفر کی حد تک پہنچا کر اسے ختم کردیا جائے۔چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اکثر ممالک میں شرح سود تیز رفتاری سے گر رہی ہے اور دنیا اس مقام کے قریب تر پہنچنے کی کوشش کررہی ہے جہاں سود سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ مجھے یہاں اس بارے میں تفصیلی بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ میں اپنی کتاب’’سود‘‘ میں ا س موضوع پر مفصل بحث کرچکا ہوں۔
البتہ میں یہاں مختصراً یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ایک اسلامی حکومت اس مسئلے کو عملاً کیسے حل کرسکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ملک کے اندر سودکو بند کردیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے قدم کے طور پر بیرونی تجارت میں سود ختم کرنے کے لیے جدوجہد کی جائے۔ملک کے اندر حکومت سودی لین دین کو قانوناً ناجائز قرار دے اور خود بھی سود کا لینا اور دینا ترک کردے۔ کوئی عدالت سود کی ڈگری نہ دے۔ کوئی شخص اگر سودی کاروبار کرے تو اسے فوج داری جرم کا مجرم گردانا جائے۔ جب تک آغاز ہی میں ایسے فیصلہ کن اقدامات نہیں کیے جائیں گے، اس امر کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں پیدا ہوسکے گا کہ کوئی ایسا مالیاتی نظام قائم ہوجو سود سے خالی ہو۔ اس حقیقت کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک حکومت اگر ایک طرف ریل کے سفر کے لیے ٹکٹ کو ضروری قرار دے دے اور دوسری طرف بغیر ٹکٹ کے سفر کے لیے بھی گنجایش باقی رہنے دے تو ٹکٹ لینے والے مسافر تھوڑے ہی نکلیں گے لیکن اگر بلا ٹکٹ کا سفر فوج داری جرم ہو تو کوئی آدمی جو ٹکٹ نہیں لیتا، ریل میں جانے کی جرأت نہیں کرسکے گا۔
اسی طرح جب تک ہمارے ملک میں سود قانوناًحلال ہے،جب تک سودی لین دین کی اجازت ہے، جب تک ہماری حکومت خود سود لیتی اور دیتی ہے، جب تک ہماری عدالتیں سود کی ڈگریاں نافذ کرتی ہیں، اس وقت تک اس بات کا قطعاً کوئی امکان نہیں ہے کہ حکومت یا کوئی دوسرا ادارہ کوئی ایسا بینکنگ سسٹم چلانے میں کامیاب ہو جو سود خواری کے بجاے حصہ داری کے اصولوں پر قائم کیا گیا ہو۔ البتہ اگر سودی بنک کاری کو پہلے قانوناًحرام قرار دیا جائے تو ہمیں پوری توقع ہے کہ حصہ داری کے اصول پر ایسا سسٹم نشوونما پا سکتا ہے۔ حصہ داری سے ہماری مراد یہ ہے کہ نفع ونقصان میں تمام حصے دار برابر کے شریک ہوں۔ داخلی طور پر سودی بندش کے بعد خارجی لین دین میں بھی اس سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ان شاء اللہ کسی لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آئے گی بلکہ دوستانہ طریق پر تجارتی تعلقات قائم رکھتے ہوئے بھی دوسرے ممالک کو اس پر رضا مند کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہم ایک سیدھے سادھے مسلمان کے نقطۂ نظر سے اس مسئلے کو دیکھیں تو بداہتاً یہ بات ہماری سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا کام دین واخلاق اور تمدن وتہذیب کے ان اصولوں کی علم برداری کرنا ہے جنھیں خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت میں حق کہا گیا ہے اور دنیا سے ان خیالات اور طریقوں کو مٹانے کی کوشش کرنا ہے جنھیں قرآن اور سنت نے باطل ٹھہرایا ہے۔ جس سرزمین میں باطل کاغلبہ ہو اور احکام کفر جاری ہورہے ہوں،وہاں ہمارا کام باطل طریقوں کو اختیار کرلینا نہیں ہے، بلکہ ہمارا اصلی منصب یہ ہے کہ ہم وہاں رہ کر قرآن کے قانونِ حیات کی تبلیغ کریں اور نظام کفر کی جگہ نظام اسلامی قائم کرنے کے لیے ساعی ہوں۔ اب غور کیجیے کہ اگر ہم خود سود کھائیں گے تو کفار کی سودخواری کے خلاف آواز کس منھ سے اُٹھائیں گے؟
کفار اگر ناجائز طریقوں سے ہمارے اموال لے رہے ہیں یا حکومت کفر ہمارے اموال سے اگر بلااستحقاق (یعنی خدا کی سند پر مبنی حق کے بغیر) کوئی حصہ لے اُڑتی ہے تو ہمارے لیے یہ کیسے روا ہوسکتا ہے کہ ہم ان اموال کو واپس لینے کے لیے ویسی ہی ناجائز کارروائیاں کرنے لگیں اورکسب حرام کو اپنا حق واپس لینے کا ذریعہ بنائیں؟اس طرح تو سود خواری کے ساتھ شراب نوشی،مزامیر سازی،فحش فلم بنانا،عصمت فروشی،کاروبار رقص وسرود، بت تراشی، فحش نگاری، سٹہ بازی، جوئے بازی اور سارے ہی حرام کاموں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پھر یہ فرمائیے کہ ہم میں اور کفار میں وہ کون سا اخلاقی فرق باقی رہ جاتا ہے جس کے بل پر ہم دارالکفر کو دارالالسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرسکیں؟
اصل میں مسئلے کی صورت یہ ہے کہ حکومت کفر کے آئین کی رُو سے آپ پر یہ سب حرام ہیں۔ اگر آپ شریعت اسلام کے پیروکار ہیں تو آپ حکومت کفر کے آئین کی ڈھیل سے فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں رکھتے اور اگر آپ ایک طرف دنیا کو شریعتِ اسلام کی دعوت دیتے ہیں اور دوسری طرف کچھ فائدوں کے لیے یا کچھ نقصانات سے بچنے کے لیے حرام خوری کی ان گنجایشوں سے بھی فائدہ اُٹھاتے ہیں جو آئین کفر نے دی ہیں مگر آئین اسلام نے جن کی سخت مذمت کی ہے تو چاہے فقیہ شہر آپ کے اس طرزِ عمل کے جواز کا فتویٰ بھی دے دے،لیکن عام انسانی راے اتنی بے وقوف نہیں ہے کہ پھر بھی وہ آپ کی تبلیغ کا کوئی اخلاقی اثر قبول کرے گی۔
حقیقتاً اس طرز فکر کو فقہ اسلامی میں استعمال کرنا ہی غلط ہے کہ مسلمانوں کو فلاں تکلیف اور فلاں نقصان جو حکومتِ کفر کے تحت رہتے ہوئے پہنچ رہا ہے،اسے روکنے کے لیے نظامِ باطل ہی کے اندر کچھ شرعی وسائل پیدا کیے جائیں۔یہ طریقِ فکر مسلمانوں کو بدلنے کے بجاے اسلام کو بدلتا ہے، یعنی تجدید دین کی جگہ تجدد کا دروازہ کھولتا ہے جو نظام دینی کے لیے حد درجے تباہ کن ہے اور افسوس یہ ہے کہ غلبۂ کفر کے زمانے میں فتویٰ نویسی کچھ اسی راہ پر چلتی رہی ہے۔
اس طریقے نے مسلمانوں کو نظام باطل کے اندر راضی اور مطمئن زندگی بسر کرنے کا خوگر بنادیا ہے، حالاں کہ یہ دین حق کے عین منشا ہی کے خلاف ہے۔ ہم اس طرز فکر کو ہرگز گوارا نہیں کرسکتے،خواہ کیسے ہی بڑے بڑے علما اس کے حامی ہوں۔ نظام باطل کے تحت مسلمانوں کے لیے تکلیف اورنقصان کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا ہے؟اس تکلیف اور نقصان کا تقاضا یہ ہونا چاہیے کہ مسلمان اس نظام کو بدلنے کے لیے جدوجہدکریں،نہ یہ کہ کفر کے زیر سایہ کسی قدر سہولت سے جینے کے لیے شریعت کو موافق حال بنائیں۔
حوالہ: مولانا مودودیؒ، رسائل ومسائل،باب :معاشیات، فصلِ چہارم:سود، ص: 708
٭…٭
آخر ہم اس دنیا میں آئے کیوں ہیں؟ہمارا مقصد کیا ہے؟
ہم کیا سمجھتے ہیں کہ کیا ہم یونہی بخش دیے جائیں گے؟
جواب: اس دنیا میں ہمارے آنے کا مقصد کیا ہے اور جب یہ مان لیا جائے کہ ہم کسی اور کو جواب دینے کے پابند بھی ہیں تو کیا ہم یونہی بخش دیے جائیں گے؟ ان سوالات کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے مولانا مودودیؒ اپنی کتاب ’’تجدید واحیاے دین ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’اس کائنات میں مختلف نظریات کارِ فرما ہیں…ان نظریات میں چار نظریات کے گرد انسانی زندگی سفر کرتی ہے۔
ان میں پہلا نظریہ یہ ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام ایک اتفاقی ہنگامہ وجود ظہور ہے جس کے پیچھے کوئی حکمت، کوئی مصلحت اور کوئی مقصد کا ر فرما نہیں ہے۔ یوں ہی بن گیا ہے، یوں ہی چل رہا ہے اور یوں ہی بے نتیجہ ختم ہوجائے گا ۔اس کا کوئی خدا نہیں ہے اور اگر ہے تو اس کے ہونے یا نہ ہونے کا انسان کی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔
(جاری ہے)