حمیرا حیدر
ایک مصروف شاہراہ کے قریب ایک پرانا کیکر کا درخت تھا۔ اس پر چڑیا اور چڑے نے اپنا گھونسلہ بنایا۔ مگر مصروف شاہراہ تھی تو بہت زیادہ شور تھا۔ نہ دن کو آرام نہ رات کو سکون۔ چڑا اور چڑیا کئی سال سے اسی شہر میں رہتے تھے۔ وہ اس شور و غل کے عادی ہوچکے تھے، اس لیے اس نئی کالونی میں گھر بناتے ہوئے جس بات پر سب سے کم توجہ دی تھی وہ سکون تھا۔ بہرحال چڑیا بی نے پانچ انڈے دیے اور اب پوری تن دہی سے ان کو سینے میں مصروف تھی۔ چڑے میاں کا کام بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ چڑیا کے لیے بھی دانے لاتا تھا۔ اس شاہراہ سے گزرنے والی گاڑیوں سے اکثر برگر، چپس اور پیزا وغیرہ کے بچے کھچے ٹکڑے لوگ پھینک دیتے تھے۔ دانہ دنکا تو نہیں، اب چڑا چڑیا برگر، پیزا کھاتے تھے اور ان کو پسند بھی تھا۔ انسانوں نے جانوروں کو بھی خراب کررکھا تھا، مگر پروا کسے تھی!
ایک رات چڑیا سوئی تو دن چڑھے تک اس کی آنکھ ہی نہ کھلی۔ سورج کی کرنوں کی تپش میں تیزی آئی تو دونوں جاگے، مگر وہ حیران تھے کہ ایسا تو کبھی ہوا نہیں۔ جلدی سے گھونسلے کی منڈیر پر آکر شاہراہ کو تکنے لگے۔ وہاں معمول سے بہت کم گاڑیاں تھیں۔ وہ دونوں حیران تھے کہ اس شاہراہ پر تو رات کو بھی اس سے زیادہ گاڑیاں ہوتی ہیں۔ آج دن چڑھے بھی گاڑیاں کم ہیں! جنگ کے سائرن کی بھی کوئی آواز سنائی نہیں دی تھی کہ وہ جان پاتے کہ کوئی بیرونی حملہ ہوگیا ہے۔ بہرحال چڑا صورتِ حال معلوم کرنے قریبی بستی کی طرف روانہ ہوا۔ مگر وہاں بھی گلیوں میں اِکا دُکا افراد نظر آرہے تھے۔ وہ حیران پریشان واپس لوٹا۔
دوسری صبح اس سے بھی بڑھ کر خاموشی تھی۔ بستی والے بھی گھروں میں بند تھے، دکانیں بھی بند تھیں، بس ایک دکان کھلی نظر آئی جس پر دو ڈاکو منہ لپیٹے کھڑے تھے۔ چڑے میاں کے تو پسینے چھوٹ گئے یہ خوف ناک منظر دیکھ کر۔ دکان کے قریب ایک درخت کی شاخ پر اُڑ آئے کہ جان سکیں۔ مگر یہ کیا، ڈاکو کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہ تھا اور دکان دار سے کچھ سودا سلف خرید رہا تھا۔ چڑے میاں اسی حیرت میں تھے کہ کچھ اور ڈاکو نما افراد بھی دکان کی طرف آئے اور سامان خریدنے لگے۔ وہ آپس میں لاک ڈائون کی باتیں کررہے تھے۔ چڑا کچھ سمجھا، کچھ خود سے فرض کرلیا۔ وہاں سے وہ مسجد کے قریب درخت پر آبیٹھا۔ آج اسے کوئی برگر یا پیزے کا ٹکڑا نہ ملا تھا تو وہ مسجد کے قریب اُس جگہ آیا جہاں لوگ سوکھی روٹی ڈالتے تھے۔ اس نے یہاں بہت سارے کوّے اور چڑیاں دیکھی تھیں۔ آج بھوک کی شدت نہ ہوتی تو وہ کبھی ایسی جگہ سے کچھ نہ کھاتا۔ مگر اب کوئی گاڑی شاہراہ سے گزر ہی نہیں رہی تھی تو فاسٹ فوڈ کہاں سے آتا!
مسجد میں لوگ نہ تھے۔ ویسے بھی یہ مسجد جمعہ کے جمعہ ہی بھری ہوتی تھی، ورنہ ادھیڑ عمر مولانا صاحب کے ساتھ چار سے پانچ افراد ہی بمشکل ہوتے تھے۔ مگر آج تو مولانا صاحب اکیلے تھے۔ سارے وضو خانے بند تھے۔ مسجد کا مین گیٹ بھی بند تھا۔ چڑا یہ سب دیکھ کر حیران پریشان تھا۔ روٹی کے کچھ ٹکڑے لے کر واپس گھر لوٹا تو چڑیا بی نے سوکھی روٹی کو دیکھ کر منہ بنا لیا۔ اسے فاسٹ فوڈ کی لت پڑ گئی تھی اس لیے یہ روٹی حلق سے نہیں اتر رہی تھی۔ چڑے میاں نے اسے صورت حال بتائی کہ بستی کیسے ویران ہے۔ وہ دونوں اس پر خاصی دیر تک بات کرتے رہے۔ درخت کے قریب ایک سیانے کوّے کی باتیں چڑیا بی نے بھی آج سنی تھیں کہ کوئی کورونا آیا ہوا ہے۔ پتا نہیں چین سے یا ایران سے آیا ہے، مگر کوّا بتارہا تھا کہ اب جہاز بھی نہیں اڑ رہے۔ کوے کے کسی جاننے والے نے بتایا تھا کہ امریکا اور یورپ بھی کورونا کا رونا رو رہے ہیں۔ دانا کوے نے یہ بھی بتایا تھا کہ جن کو چڑا ڈاکو کہہ رہا تھا دراصل یہ ماسک ہیں جو اب سب لوگ لازمی پہن رہے ہیں۔ اور اس بات پر تو چڑیا کی ہنسی نکل گئی کہ اب انسان بار بار ہاتھ دھوتے ہیں اور نائی کی دکان و پارلر بھی بند ہیں۔ بازار بند ہونے کا سن کر چڑیا بی کی آنکھوں میں وہ خواتین گھوم گئیں جو اسٹاپ پر آ جا رہی ہوتی تھیں۔ سارا دن بازار جانے کے لیے رکشے والوں سے کرائے پر تکرار کررہی ہوتی تھیں۔چڑا اور چڑیا اپنے انڈوں کو بھلائے کورونا کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے تھے۔
پھر وہ صبح بھی آئی جب انڈوں سے چوزے نکلنے تھے۔ ایک ایک کرکے پانچ ننھے ننھے چوزے نکل آئے تھے۔ چڑا اور چڑیا بہت خوش تھے۔ چڑا ننھے ننھے کیڑے پکڑ لایا کہ لاک ڈائون میں یہی دستیاب تھے۔ چڑیا کو تو دیکھ کر ہی ابکائی آئی اور ساتھ ہی وہ بھاں بھاں رونے لگی۔ چڑا پریشان ہوگیا۔ چڑیا نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کے کیا کیا ارمان تھے کہ وہ اپنے بچوں کو برگر، پیزا کی گھٹی دے گی، مگر اب یہ کیڑے کھانے پڑ رہے ہیں جو ان کے دادا، پردادا کھایا کرتے تھے۔ چڑا بے چارہ چڑیا کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا کہ بھلی لوکے صبر شکر کرکے کھا لو۔
ننھے بچوں کی چیخ پکار جلد ہی چڑیا کو ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی۔
لاک ڈائون کو ایک مہینے سے زیادہ ہوگیا تھا۔ اب سرِشام ہی سب گھر والے سو جاتے اور علی الصبح جاگ جاتے تھے۔ رات کو بھی نیند سکون کی ہوتی کہ بار بار کے ہارن نہیں بجتے تھے۔ بچوں نے اڑنا سیکھ لیا تھا اور اب وہ خود سے شکار بھی کرتے تھے۔ چڑیا اور چڑا بھی دوبارہ سے شکار میں ماہر ہو گئے تھے، ورنہ فاسٹ فوڈ کی دستیابی نے یہ آبائی ہنر بھی ان کو تقریباً بھلا دیا تھا۔ کبھی کبھی انہیں یہ لاک ڈائون نعمت لگتا تھا کہ جس سکون کا ذکر ان کے باپ دادا کرتے تھے وہ لوٹ آیا تھا۔ انسان اپنے ہاتھوں جو تباہی لائے تھے ماحول میں، وہ بہتر ہورہا تھا۔ ہوا صاف ہوگئی تھی۔ درخت اور جانور خوش و خرم گھوم رہے تھے۔ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹ رہی تھی۔