طو بیٰ احسن
رمشا نے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ کر گھڑی کو دیکھا۔ ابھی رات کے دو بجے تھے۔ نہ جانے یہ رات اتنی لمبی کیسے ہوگئی! وہ اکتا سی گئی۔ 12 بجے سے لیٹے لیٹے نہ جانے کتنی بار ٹائم دیکھ چکی تھی۔ وقت کسی طرح کٹتا ہی نہیں تھا۔ برابر میں لیٹی دادی کو اس نے رشک آمیز نظروں سے دیکھا، جن کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز ماحول میں سناٹا ہونے کی وجہ سے بہت تیز لگ رہی تھی۔ پھر کروٹ لے کر دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔ ’’کاش مجھے نیند آجائے جیسے پہلے آتی تھی‘‘ اس نے آہ بھر کر سوچا۔ لیکن پھر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ موبائل کھولا اور گیلری کھول لی۔ پچھلی عید کی تصاویر اس کے سامنے آگئیں۔ وہ امی کے ساتھ کھڑی تھی اور امی اس عمر میںکتنی اسمارٹ اور خوب صورت تھیں۔ اجنبی انھیں اس کی بڑی بہن سمجھتے تھے۔ آہ میری امی۔ وہ بغور امی کو دیکھنے لگی۔ ہلکے کاسنی رنگ کے جوڑے میں جُوڑا بنائے وہ بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ مستقل غور سے دیکھتے دیکھتے نہ جانے کیسے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ اس نے امی کی تصویر کو غور سے دیکھا۔
’’کیسی ہوگی امی آپ کے بغیر یہ عید، اور کیسی ہوگی میری زندگی؟‘‘ وہ دھیمے لہجے میں امی سے سوال کررہی تھی، اور امی آج پہلی بار اُس کے کسی سوال کا جواب نہیں دے رہی تھیں۔
آنکھیں صاف کرکے اس نے موبائل بند کیا اور دوبارہ لیٹ گئی، اور پچھلی عید کی یادوں کو دہرانے لگی۔ یادوں کے دریچے کھل گئے اور وہ ان میں کھو سی گئی۔
’’رمشا بیٹا کام بہت ہے، آؤ ذرا میری مدد کروا دو۔‘‘
’’امی، میری مہندی خراب ہوجائے گی‘‘۔ رمشا نے منہ بسورا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو وہ قریبی پارلر سے مہندی لگوا کر آئی تھی۔
’’اچھا‘‘۔ امی چپ چاپ پلٹ گئیں۔ چاند رات تھی اور بے تحاشا کام۔ نہ جانے یہ کام کب ختم ہوئے، امی کب سوئیں۔ رمشا تو موبائل پر دوستوں سے گپ شپ کرتے کرتے سو بھی گئی۔ صبح اٹھی تو امی پہلے ہی اٹھی ہوئی تھیں۔ اس کو تھوڑی شرمندگی ہوئی۔ اس کے کپڑے بھی امی نے استری کردیے تھے۔
’’تھینک یو امی!‘‘ وہ لاڈ سے امی کے گلے میں بانہیں ڈال کر بولی۔
’’چلو بیٹا تیار ہو جاؤ، ابھی جانا ہے ناں دادی کے ہاں۔ جلدی کرو‘‘۔ پھر عید والے دن رات کو دادی کے گھر سے واپسی پر رمشا نے آئسکریم کی ضد کی۔ بابا منع کررہے تھے لیکن امی کے حمایت کرنے پر مان گئے۔ کتنے ہی واقعات تھے جو رمشا کو یاد آتے رہے۔ بابا سے کوئی بھی بات منوانی ہوتی تو وہ امی کا ووٹ اپنی طرف کروا کر بابا کو قائل کرلیتی تھی۔
آج کی چاند رات کیسی اداس اور ویران ہے۔ اس نے اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھا۔ پہلی عید تھی کہ جب اس نے مہندی نہیں لگوائی تھی۔ ورنہ وہ تو مہندی کی دیوانی تھی۔ نیٹ پر سرچ کرکے طرح طرح کے خوب صورت اور دیدہ زیب ڈیزائن نکالنا اور پھر انھیں لگوانا اس کا شوق تھا۔ اس نے کروٹ لی اور دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگی۔ عید کی صبح رات سے بھی زیادہ اداس اور رنجیدہ تھی۔ اس نے کپڑے تو دادی کے کہنے پر بدل لیے تھے لیکن دل کا کیا کرتی جو کسی چیز سے بھی بہلتا ہی نہیں!
کیوں کہ امی کے انتقال کے بعد سے دادی رمشا کے ہاں ہی رہ رہی تھیں اس لیے سارے خاندان والے عید ملنے آرہے تھے۔ رمشا باورچی خانے میں تھی۔ نہ جانے کون کون آیا ہوا تھا۔ بابا کی خالہ یا پھوپھو… اس نے رشتہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ پھر اس کی توجہ اُن کی گفتگو کی طرف مبذول ہوگئی۔
’’کیا ہوا تھا عطرت کو؟‘‘
’’بس کیا بتاؤں۔ ایسی قابل، پڑھی لکھی اور خوب صورت میری بہو…‘‘ دادی نے ٹھنڈی سانس بھری۔ ’’بخار ہوا تھا اس کو۔ سعید اس کو ڈاکٹر کے ہاںلے کر گیا تو انہوں نے داخل کرلیا کہ کورونا وائرس ہے اس کو، اور پھر ملنے بھی نہیں دیا۔ ارے اگر اس کو کورونا ہے تو اس کی رپورٹ تو دکھاؤ۔ لیکن رپورٹ نہیں دکھائی۔ بے چارہ دو دن تک اسپتال کے باہر بیٹھا رہا۔ میں تو جب سے آگئی تھی اِس کے پاس۔ اکیلی تھی ناں یہ رمشا‘‘۔ رمشا کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا جو چپ چاپ دادی کی گفتگو سن رہی تھی۔
’’پھر کیا ہوا، رپورٹ دکھائی؟‘‘
’’ناں بھئی، رپورٹ دکھا ہی نہیں رہے تھے۔ پھر اس نے رشوت دی اسپتال کے عملے میں سے کسی فرد کو، دیکھا تو رپورٹ منفی تھی۔‘‘
’’کیا…؟‘‘ خاتون کی چیخ نکل گئی۔
’’اس نے اودھم مچایا اسپتال میں جاکر، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ بس کہہ دیا کہ وہ تو وینٹی لیٹر پر چلی گئیں۔ دو دن میں ہی بیچاری اللہ کے پاس چلی گئی۔ ہم تو اس کی آخری بار شکل بھی نہ دیکھ سکے‘‘۔ دادی کی آواز بھرّا گئی۔ رمشا کی بھی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ خاتون ہکا بکا دادی کی شکل دیکھ رہی تھیں۔
دانتوں کے کیڑے ختم کرنے کے لیے
چنبیلی کے کچھ پتے پانی میں اُبال لیجیے۔ ہر صبح نہار منہ اس نیم گرم پانی سے غرارے کیجیے۔ دانتوں کے کیڑے ختم ہوجائیں گے۔ مسوڑھوں اور دانتوں کے شدید درد میں نیم گرم پانی میں سرکہ اور نمک ملا کر منہ بھر کلیاں کرنا فائدہ دیتا ہے۔ شدید بخار کی حالت میں جسم کی تپش اور حرارت کو کم کرنے کے لیے تازہ اور ٹھنڈے پانی میں سرکہ ملاکر کپڑے کی مدد سے مریض کے جسم پر پھیریے۔ بخار کی شدت کم ہوجائے گی۔ ہر قسم کی بیرونی خارش اور خشک دانوں پر خالص سرکے میں کپڑا بھگو کر پھیرنا فائدہ دیتا ہے۔