عائشہ یاسین
طحہٰ اپنی کلاس کا بڑا ذہین اور قابل بچہ تھا۔ ہر کام وقت پر کرتا اور اسکول سے کبھی ناغہ نہ کرتا۔ سارے اساتذہ اس کو بہت پسند کرتے اور اس کے امی ابو سے اس کی خوب تعریف کرتے۔ رمضان کے دنوں میں طحہ نے سوچا کہ کیوں نہ ایسا کام کیا جائے جس کے کرنے سے اللہ تعالی خوش ہوجائیں۔
یہی سوچ کر وہ دادی اماں کے کمرے میں پہنچا تو وہاں ابو، امی دادی اماں کا ہاتھ چوم کے رمضان کے چاند کی مبارک باد دے رہے تھے۔ دادی اماں نے مجھے دیکھا تو جھٹ سے گلے لگا کر بولی
”طحہ بیٹا رمضان کا چاند مبارک ہو۔“ اور ماتھے پر بوسہ دیا پھر سب نے مل کر دعا کی۔ جب امی اور ابو کمرے سے چلے گئے تو دادی اماں نے اپنی تسبیح ہاتھ میں لے لی اور پہلا کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔ طحہ نے جب یہ دیکھا تو دادی اماں سے پوچھا،”دادی اماں اللہ تعالی کیا صرف تسبیح پڑھنے، نماز اور روزے رکھنے سے ہی خوش ہوتے ہیں؟
دادی اماں یہ سن کر مسکرائیں اور اس کو اپنے قریب کرکے کہا کہ ”نہیں صرف نماز، روزہ سے نہیں بلکہ ہر اچھے کام کرنے سے اللہ تعالی خوش ہوتے ہیں۔ مثلا ایک دوسرے کی مدد کرنا، دوسروں کے غم میں شریک ہونا۔ بھوکے کو کھانا کھلانا۔ “
طحہ جو گالوں پر ہاتھ رکھے دادی اماں کی بات سن رہا تھا پوچھنے لگا، ”دادی اماں ہمیں سب کی مدد کیوں کرنی چاہیے؟ “
طحہ کی معصومیت دیکھ کر دادی مسکرادیں اور کہا،”وہ اس لیے کہ ہمارے پیارے نبی نے فرمایا ہے کہ مسلمان مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیںاوراس حدیث کی روشنی میں سارے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں جیسے رافع آپ کا چھوٹا بھائی ہے۔ ٹھیک اسی طرح چاہے مسلمان دنیا کے کسی بھی ملک یا شہر کا ہو۔ وہ آپ کا ویسا ہی بھائی ہے جیسا اپ کا اپنا سگا بھائی رافع ہے۔“
دادی اماں نے اپنی بات ختم کی تو طحہ کچھ سوچتا رہا پھر دادی اماں نے اذان کی آواز پر اس کو نماز کے لیے کہا اور وہ وضو کرنے چلا گیا۔
صبح اٹھا تو اس کو کسی کے رونے کی آواز آئی۔ باہر نکلا تو ابو بکر جو کام والی باجی کا بیٹا تھا کسی بات پر اپنی ماں سے ضد کر رہا تھا۔ باجی نے اس کو دو تھپڑ لگایا اور کچن میں چلی گئیں۔ وہ بیچارا کونے میں بیٹھ کر روتا رہا۔ طحہ نے پاس جاکے اس کو گلے سے لگا یا اور رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے اپنی پھٹی ہوئی چپل دکھائی اور اپنا ذخم بھی دکھایا جو پتھر لگنے کی وجہ سے لگا تھا۔ طحہ دوڑ کر فرسٹ ایڈ باکس لے کے آیا اور اس کی مرہم پٹی کی اور ساتھ ہی اس کو چپ کراکے دلاسہ دیا۔
شام کے وقت افطار میں طحہ بہت اداس تھا۔ اس کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے ابو بکر کی مدد کرے۔ افطار کے بعد ابو امی اس کو اپنے ساتھ عید کی شاپنگ پر لے گئے۔ امی ابو نے دونوں بھائیوں کے لیے بہت سے کپڑے اور جوتے خریدے اور ساتھ میچنگ گھڑیاں بھی لی۔ طحہ اور رافع دونوں اتنی ساری چیزوں کو دیکھ دیکھ کر خوب خوش ہوتے رہے۔
دوسری صبح جب طحہ جب اٹھا تو ابو بکر ایک کونے میں اداس بیٹھا تھا۔ طحہ نے پاس جاکر اس کا حال پوچھا اور مرہم پٹی کرنے لگا۔ اس کا زخم مسلسل چوٹ لگنے سے خراب ہورہا تھا۔ دوا لگاتے لگاتے اچانک طحہ کو کچھ یاد آیا اور وہ تیزی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد طحہ کے ہاتھ میں ابوبکر کے لیے نا صرف نئی چپلوں کی جوڑی تھی بلکہ نئی شلوار قمیض اور میچنگ گھڑی بھی تھی۔ یہ سب دیکھ کر ابوبکر اتنا خوش ہوا کہ طحہ کو گلے سے لگا لیا اور لگا خوشی سے شور مچانے۔ دونوں بچوں کی آواز سن کر تمام گھر والے اور باجی بھی باہر آگئیں۔ طحہ کی دادی اماں نے تو طحہ کا بوسہ لیا اور لگی بلائیں لینے۔ جب باجی نے آکر اس کو گلے سے لگاےا اور شکریہ ادا کیا تو طحہ نے جھٹ سے ایک لفافہ ان کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ طحہ نے جو اپنے پورے سال کی پاکٹ منی جمع کرکے رکھی تھی وہ ساری رقم اس لفافے میں ڈال دی تھی۔ یہ سب دیکھ کر باجی رونے لگی تو طحہ نے ان کو چپ کراتے ہوئے کہا کہ ”دادی اماں نے مجھے بتایا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسی لیے ہم پر ایک دوسرے کی مدد کرنا فرض ہے۔ “
یہ سن کر طحہ کی امی نے باجی کے آنسو پونچھے اور گلے سے لگا کر کہا ،”ہاں باجی آپ میری بھی تو بہن ہیں ۔ یہ لفافہ عیدی سمجھ کر رکھ لیں۔“ اس طرح نہ صرف ابو بکر کی عید کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں بلکہ طحہ نے بھی اس بابرکت مہینے میں اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرکے نیکی کمائی اور سچی خوشی حاصل کی۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنے آس پاس کے مسلمان بہن بھائی کو عید کی خوشیوں میں شامل رکھیںاور اپنا دامن نیکیوں سے بھر لیں۔