عشرت زاہد
دنیا بھر میں میں وبا کے پھیلنے کی وجہ سے سے اسکول کی چھٹیاں ہوگئی۔ اب بچے سارا دن گھر پر ہی ہوتے ہیں ۔ اس لئے دادی جان اور ماما نے بیٹھ کر پورے دن کا ٹائم ٹیبل ترتیب دے دیا۔ تاکہ بچوں کی پڑھائ بھی متاثر نا ہو اور بچے بور بھی نہ ہوں۔
بس پھر کیا تھا دوسرے دن سے اس پر عمل شروع ہو گیا۔ طے شدہ منصوبے کے مطابق ماما نے نے بچوں کو جلدی یعنی بالکل اسکول کے وقت پر ہی اٹھا دیا تھا۔ پھر مونہ دھلوا کر دودھ دے دیا۔ تب تک دادی جان کی تلاوت مکمل ہوچکی تھی۔ انہوں نے بچوں کو ساتھ لیا اور باہر لان میں آگئیں۔ آج روزانہ کی نسبت محلے میں بہت سناٹا تھا۔ کیونکہ اسکول وین نہیں آرہی تھیں۔ دادی جان ٹہل رہی تھیں۔ بچے کھیل رہے تھے۔ کبھی ماریہ کوئی شکایت لے کر کر دادی جان کے پاس آتی۔ “مجھے بھائ سلائڈ پر نہیں بیٹھنے دیتا یا مجھے دھکا دیا وغیرہ ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد بچے بھی دادی جان کے پاس بینچ پر آ کر بیٹھ گئے۔ عبدالرحمان نے پوچھا، “اچھا دادی جان یہ جو کرونا وائرس ہے کیا یہ بہت خطرناک ہے؟؟ کہ سب کچھ بند ہوگیا ہے! ہمارے اسکول بند مارکیٹ بند پارک اور ہوٹل بند۔ بابا بھی آفس نہیں جارہے۔ گھر پر ہی کام کر رہے ہیں۔ ہم سکول کے پڑھائی بھی گھر پر ہی کر رہے ہیں۔”
” بیٹا یہ ایک مشکل وقت ہے۔ اور پوری دنیا میں اس وقت ایسے ہی حالات ہیں۔ آپ لوگ دعا کریں کہ جلد از جلد یہ سب ختم ہو جائے اور حالات پھر سے پہلے جیسے ہو جائیں۔”
” لیکن دادی جان آپ نے بتایا نہیں، کیوں خطرناک ہے؟”
” ہاں بیٹا کچھ جراثیم پانی کے ذریعے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ اور کچھ جراثیم ہوا کے ذریعے سانس میں داخل ہوتے ہیں۔ اور کچھ غلط خون جسم میں داخل ہونے سے یا استعمال شدہ سرنج سے دوبارہ انجیکشن لگانے سے ہوتے ہیں۔”
“لیکن دادی جان ،یہ لوگ استعمال شدہ انجکشن سرنج کیسے دوبارہ استعمال کرتے ہیں؟ ہمارے ڈاکٹر انکل تو انجکشن لگانے کے بعد ایک چوکور سے ڈبے میں سوئی کو اندر ڈال کر توڑ دیتے ہیں۔ اس کے بعد دسٹ بن میں ڈال دیتے ہیں۔”
“ہاں بیٹا، ایسا ہی کرنا چاہیے۔ جو اس کام میں احتیاط نہیں کرتے اور پوری ثابت سرینج پھینک دیتے ہیں، اسے کچھ لوگ اٹھا کر دوبارہ استعمال کے قابل بنا دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ سخت جرم ہے۔”
“بھائی، آپ چپ ہو جائیے نا؟” ماریہ کو کورونا کے بارے میں معلومات سننی تھی۔
“ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ، یہ وائرس بہت خطرناک ہے۔ کیونکہ یہ نظر نہیں آتا۔ یہ جس پر حملہ کرتا ہے، اسے چھو لینے سے یا اگر وہ کسی کے قریب چھینک لے یا کھانس لے، تو ہوا کے ذریعے سانس میں شامل ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ منہ، ناک اور آنکھ سے بھی ہماری جسم میں داخل ہوسکتا ہے”
“جی دادی جان، اسی لئے تو ماما کہہ رہی تھی کہ بار بار اپنے ہاتھ صابن سے دھونا ہیں۔ سینٹائیزر لگانا ہے۔ ٹی وی پر سنا تھا کہ کسی کے قریب نہیں جانا۔ ہاتھ نہیں ملانا۔ اور بہت کچھ بار بار بتا رہے ہیں۔ اب ہمیں اچھی طرح پتا چل گیا ہے اتنے میں ماما کی آواز آئی “آجاؤ بچوں آکر ناشتہ کرلو۔ آجائیں امی جان”
” جی ماما”
بچوں نے اچھی طرح ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کیا۔ پھر ٹائم ٹیبل کے مطابق اسکول کا کام کیا۔ اس کے بعد دوپہر کا کھانا پھر آرام۔ شام میں سپارہ، اسی طرح سے دن گزر گیا۔ رات میں کھانا کھانے کے بعد سب لوگ دادی جان کے کمرے میں اکٹھے ہوئے۔ آج بابا بھی ان کے ساتھ تھے۔
” امی جان، دعا کریں کہ اللہ اس مشکل سے جلد نکالے”
“آمین۔ ان شا اللہ، جلد سب کچھ پہلے کی طرح ہو جائے گا۔ بیٹا مجھے یہ بتاؤ، وہ تمہارے دوست عامر کی امی کا کیا حال ہے۔”
بابا کہنے لگے، “جی امی جان وہ ٹھیک ہیں۔ لیکن عامر بتا رہا تھا کہ وہ خود بہت مصروف ہے آج کل”
امی نے بھی آ کر
کیوں خیریت تو ہے؟ کس چیز میںمصروف ہیں عامر بھائی؟”
“ارے بھئی عامر کا تو جنرل اسٹور ہےنا۔ چھوٹا سا مارٹ بنایا ہوا ہے۔ تو عامر نے اور اس کے دوستوں نے ملکر اپنی شاپ پر بڑی بڑی باسکیٹس لگا دی ہیں۔ اور اس پر لکھا ہے *گوشہ مہربانی *
جو بھی سامان خریدنے آتے ہیں وہ کچھ زائد سامان خرید کر اس میں ڈال دیتے ہیں۔ اور اگر آٹا دینا ہو تو اس کے پیسے بکس میں ڈال دیتے ہیں۔ اب اس سامان اور ان پیسوں سے یہ لوگ راشن کے تھیلے تیار کر کے رکھتے ہیں۔ پھر ضرورت مند لوگ آکر اپنے شناختی کارڈ کی کاپی دیتے ہیں اور ضرورت کا سامان لے کر جاتے ہیں۔ نہ لینے والے کو پتا کہ کس نے دیا ہے اور نہ ہی دینے والے کو پتہ دیا ہے
دونوں کا کام بھی ہو جاتا ہے اور کوئی شرمندہ بھی نہیں ہوتا۔”
“یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔ بہت اچھا کام کر رہے ہیں عمران اور اس کے دوست مل کر۔ تم ایسا کرو۔ کل میری پینشن میں سے کچھ پیسے عامر کو دے آنا ”
جی اچھا امی جان۔
” بابا ، یہ تو بہت اچھا آئیڈیا ہے۔ آپ ایسا کریں، میرے گلک کے بھی سارے پیسے انکل کو دے دیجئےگا۔”
“بابا میرے بھی۔۔” ماریہ کب پیچھے رہنے والی تھی۔
بابا نے کہا “ٹھیک ہے آپ لوگ دونوں اپنے گلک کے پیسے نکال کے رکھیے۔ میں کل دے دوں گا۔۔۔