منزہ گل
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تب اللہ تعالیٰ نے آدم کو فرشتوں کے اوپر فوقیت اور فضیلت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کچھ چیزوں کے نام سکھا دیے اور پھر وہی چیزیں فرشتوں پہ پیش کیں تو فرشتوں کو وہ نام نہیں آئے، فرشتوں نے کہا لاعلمالنا الا ما علم ہمیں تو وہی علم ہوگا جو آپ ہمیں دیں گے۔تبھی اللہ تعالیٰ نے آدم کو کہاکہ تو بتا تو آدم علیہ السلام نے وہ نام بتا دیے۔ جب آدم علیہ السلام نے وہ نام بتائے تو اللہ تعالیٰ نے آدم کو فرشتوں پہ فوقیت دے دی، تو آدم کیا تھے وہ سیکھے تھے تو انہوں نے بتایا، تو سیکھنے سکھانے کا عمل اللہ تعالیٰ نے پہلی بار آدم علیہ السلام سے کیا یا کروایا۔
سیکھنے سکھانے کی کمی انسان میں رہتی ہے، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام مبعوث کیے۔ انبیاء کا مقصد کیا تھا سیکھنا اور سیکھانا، آداب معاشرت، اخلاقیات، تہذیب وثقافت جتنی بھی چیزیں ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے مخلوق کوسیکھائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انما بعثت معلما‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرما رہے ہیں کہ میری مثال ایک استاد کی سی ہے۔ پہلی روایت اگر میں بیان کروں تو اللہ تعالیٰ سکھانے والے ہیں اور دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکھانے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایک استاد کو ایک سکھانے والے کو تہذیب و اقدار کے لیڈر کو اہمیت دی ہے۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں اس کی کامیابی کے پیچھے بہت سے لوگوں کی محنتیں اور کوششیں ہوتی ہیں۔ انسان کی زندگی کو کامیاب بنانے میں بہت سے لوگوں کا کردار ہوتا ہے۔ جس میں والدین عزیز و اقارب دوست معاشرہ اور استاد سب کا کسی نہ کسی طرح سے کوئی نہ کوئی عمل دخل ہوتا ہے۔
والدین کے بعد اگر کوئی شخص کسی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے تو وہ اس کا استاد ہوتا ہے۔ کوئی انسان جب پڑھائی کے بعد کسی اچھی پوسٹ پر ہو یا معاشرے میں بلند مقام حاصل کر لیتا ہے تو جتنی خوشی اس کے والدین کو ہوتی اتنی ہی خوشی اس کے معلم کو بھی ہوتی ہے۔ اسلام میں بھی استاد کو بہت عظمت اور مقام حاصل ہے۔ استاد کا درجہ باپ کے برابر ہے۔ ماں کی گود سے نکلنے کے بعد استاد ہی ہوتا جو بچے کو زندگی کی سیڑھی پر قدم رکھ کر اس کو اوپر چڑھنا سکھاتا ہے۔ اس کو اس قابل بناتا کہ وہ معاشرے میں اپنی پہچان بنا سکے۔
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرمایا کرتے تھے۔ ’’جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا آقا ہے‘‘۔ معلمی انبیاء کرام علیہم السلام کا پیشہ ہے۔ گزشتہ چند برس پر اگر نظر ثانی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ استاد کا بہت احترام کیا جاتا تھا۔ معلم گزر رہے ہوتے تھے تو متعلم راستے سے ہٹ کر اپنے استاد محترم کے گزرنے کے بعد ان کے پیچھے پیچھے چلتے تھے۔ استاد کا ادب و احترام لازم و ملزوم سمجھا جاتا تھا۔ والدین اپنے بچوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھاتے تھے کہ ان سے بھی پہلے اپنے استاد کی بات سنو اور استاد کی مار کو بھی کامیابی کی ضمانت گردانا جاتا تھا۔ ہمارا مذہب اسلام بھی ہمیں اپنے بڑوں کی عزت کرنے اور اپنے بچوں سے شفقت کی تلقین کرتا ہے۔
موجودہ دور پر نظر ثانی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ استاد کو سب سے نچلا درجہ دیا جاتا ہے۔ کہاں استاد کو قوم کا محسن کہا جاتا تھا اور موجودہ دور میں استاد کے ساتھ بدتمیزی عام ہو چکی ہے۔ آج بچے استاد کی بات کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ اگر استاد کسی غلطی پر روکتا ٹوکتا ہے تو بچے اس استاد کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمارے والدین ہمیں روکتے نہیں آپ ہوتے کون ہیں ہمیں سمجھانے والے بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ کچھ اسٹوڈنٹ تو گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک پہنچ جاتے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک وڈیو شوشل میڈیا پر دکھائی جا رہی تھی جس میں کچھ بچے ایک استاد کو لاٹھیوں اور لاتوں سے مار رہے تھے اور وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ میں استاد ہوں مجھے کیوں مار رہے ہو۔ اس استاد کی غلطی یہ تھی کہ اس نے اپنے کالج کے فنگشن میں ان نوجوانوں کو لڑکیوں کی طرف جانے سے روکا تھا۔ جب قوم اپنے محسن پہ ہاتھ اٹھانے لگ جائے تو وہ قوم کیا ترقی کرے گی۔
پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ ’’جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت اور ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں‘‘ اس حدیث مبارکہ کا مطلب تو یہ ہوا کہ وہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا۔جو معاشرہ و قوم اپنے محسن کو جوتے کی نوک پہ رکھ رہی ہے اس معاشرے سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اس قوم سے کبھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین پیدا ہوں گے، نہیں اس قوم سے صدیق اکبر جیسی صداقت جناب عمر فاروق جیسی عدالت جناب عثمان غنی جیسی شرم و حیا جناب علی جیسی شجاعت کبھی دیکھنے کو بھی نہیں مل سکے گی۔ محمد بن قاسم اور صلاح الدین پیدا نہیں ہوں گے اس قوم سے کبھی علی کرم اللہ وجہہ جیسے شیر پیدا نہیں ہوں گے۔اس قوم سے اوباش اور ناچ گانا کرنے والے ہی پیدا ہوں گے۔
جو قوم اپنے محسن کو عزت و احترام نہیں دے سکتی وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ جب استاد کے ڈانٹنے پر والدین بچوں کو ساتھ لے جا کر اس کے استاد کو کڑوی کسیلی باتیں سنا ئیں گے تو وہ بچے استاد کا احترام کبھی نہیں کریں گے بلکہ وہ بڑوں کا بھی عزت و احترام نہیں کریں گے۔ ایک کہاوت ہے جو بویا جاتا وہی کاٹا جاتا ہے۔ تو آج جووالدین اپنے بچوں کی من مانی اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کر کے بچوں کو ڈانٹنے کی وجہ سے اس کے اساتذہ کی تذلیل کرتے ہیں۔ کل کو ان کی اولاد ان کے سامنے ضررو کھڑی ہو گی اور وہ بچے معاشرے کے لیے ایک ناسور بن جائیں گے۔ وہ اپنے والدین کی تذلیل کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
لفظوں کا چناؤ مثبت کرنا چاہیے بچے کی غلطی پر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ یہ تو بچہ ہے اسے نہیں پتا مگر بچہ ہر وقت سیکھنے کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے اس کی اصلاح کی جائے نہ کہ بچہ کہہ کر اس کی غلطی کو نظر انداز کر دیا جائے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اچھا بنے ہم ترقی کریں تو اس ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والی ہستی اپنے معلم کا عزت و احترام کریں جو آپ کی کامیابی کے لیے آپ کو محنت اور کوششوں سے اس قابل بناتا ہے کہ آپ معاشرے میں اپنی پہچان بنا سکو۔ جہاں والدین کی عزت واجب ہے اس کے ساتھ ساتھ استاد کی عزت کرنا لازم ہے اللہ رب العزت ہمیں اپنے بڑوں کا فرما بردار بنائے ، آمین۔